اختتامِ سفر پر مجھے پیار آیا۔

ظفری

لائبریرین
آج کافی برسوں بعد وطن کی سرزمین پر جب میں نے پاؤں رکھا تو مجھےایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے میرے جلتے ہوئے پیروں نیچےٹھنڈے پانی سے بھیگے ہوئے ہزاروں گُل بچھا دیئے ہوں ۔ وطن کی مٹی کے جکڑ کے احساس نے مجھے یاد دلایا کہ میں اب تک ایسے سفر میں تھا ، جس میں مجھے ہر قدم پر آبلہ پا ہی ہونا پڑا تھا۔ کم پا کر بہت کچھ لٹا کر واپس آیا تھا۔ زندگی کے بہت سے ماہ و سال پیسہ اور باہر رہنے کی خواہش میں ہاتھ سے اس طرح چُھوٹ گئے تھے ۔۔۔۔ جیسے کوئی ساری عمر کاسہ ہاتھ میں لیئے کھڑا رہے مگر اُس میں کوئی ایک پیسہ بھی نہ ڈالے۔ زندگی کو ایک اُجلے دامن کی طرح اور آنکھ میں جانے کیسے کیسے خواب سجا کے گھر سے نکلا تھا۔ مگر واپسی پر نہ صرف خواب ریزہ ریزہ تھے، بلکہ دامن بھی تار تار تھا۔

ائیر پورٹ سے گھر تک کا سفر کار میں امی اور ابو کے درمیان بیٹھ کر ہی طے کیا ۔ اُن دونوں کے وجود سے مجھے ایک تحفظ کا سا احساس ہو رہا تھا اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی سخت جلتی ہوئی دوپہر میں دو سایہ دار شجروں کے بھر پُور سایے میں آگیا ہوں۔

گھر پہنچ کر امی نے مجھے سب سے پہلے آرام کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ ابو نے بھی اس کی تائید کی ۔ میں نہا دھو کر اپنے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ میرا کمرہ آج بھی اُسی حالت میں ہے جیسا کہ میں آج سے بہت سالوں پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی ۔ کسی چیز پر بھی کوئی گرد کا نشان تک بھی نہیں تھا ۔ کمرے کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ امی نے میرے کمرے کی خاص طور پر بڑی دیکھ بھال کی تھی ۔ میں اپنے بیڈ پر لیٹ گیا ۔اچانک ہی ایک خیال نے مجھے اپنے بستر سے اُٹھنے پر مجبور کردیا ۔ میں ہمیشہ کی طرح اُسی کھڑکی پر جا کھڑا ہوا جو اُس کے گھر کی طرف کُھلتی تھی ۔آج بھی اُس کا گھر چند ایک تبدیلوں کے ساتھ میری نظروں کے سامنے تھا۔ مگر میں جانتا تھا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے ۔ میرے وطن چھوڑنے سے پہلے ہی وہ اپنے پیا کے گھر جا چکی تھی۔ مجھے بھی کچھ تبدیلی کی ضروت تھی ، لہذاٰ میں نے بھی وطن چھوڑ دیا ۔میری نظر میرے گھر کی آنگن کے اُس حصے میں بھی پڑی جہاں ہم کھیلا کرتے تھے ، کبھی آنکھ مچولی تو کبھی گڑیا گُڈے کی شادی کا کھیل ۔

دیکھو ۔۔۔ تم کو میرا ہی دولہا بننا ہے ۔۔۔ خبردار اگر کسی اور کا دولہا بننے کی کوشش کی ۔ اگر کسی کے بن بھی گئے تو میں تًم کو اپنا دولہا بنا کر ہی رکھوں گی ۔۔۔سمجھے” میری آنکھوں کے سامنے اچانک ہی بچپن کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوگئی ۔

ارے پگلی ۔۔۔ یہ میری اور تمہاری شادی تھوڑی ہو رہی ہے ۔ یہ تو گڑیا اور گڈے کی شادی ہے۔
ہاں میں جانتی ہوں ۔۔۔ مگر میں بھی کون سا گڑیا اور گڈے کی شادی کی بات کر رہی ہوں ۔
میں نے اپنے ننھے سے ذ ہن پر زور دیتے ہوئے اُس کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور بات سمجھ میں آجانے کے بعد مسکرا کر اُسے دیکھتا تھا تو ایک دم سے وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھ میں چُھپا کے شرما کر بھاگ جاتی تھی ۔ ( میں جب بھی اُس کی آنکھوں میں جھانکتا تھا وہ اسی طرح ہمیشہ ایسا ہی کرتی تھی )۔
ارے ۔۔۔ ہم براتیوں کو مھٹائی کون کھلائے گا اور یہ اپنی گڑیا کو چھوڑ کر کہاں بھاگ رہی ہو۔
بچپن کی ساتھیوں میں سے ناہید کا جملہ بھی میرے کان میں سرگوشیاں کرنے لگا ۔جو اُس وقت اپنے بھائی خالد اور دیگر دوسرے بچپن کے ساتھیوں کے ساتھ گڑیا کی ماں بن کر آئی تھی ۔

عجیب دور تھا وہ ۔۔۔ نہ کوئی غم تھا نہ کوئی فاقہ ۔۔۔۔۔

شام کو تازہ دم ہو کر باہر نکلا تو لوگوں نے مجھے پہچان کرخوش آمدید کہا ۔۔۔ کافی بُزرگ اب دنیا میں نہیں رہے تھے ۔ کچھ دوست یار بھی ذریعہ معاش کے چکر میں یا تو وطن سے باہر تھے یا پھر اپنی ضرورتوں کے مطابق شہر کے کسی اور حصے میں منتقل ہو چکے تھے۔مگر اپنے بہت ہی دیرینہ دوست کو وہاں پا کرمجھے بیحد خوشی ہوئی ۔

ارے احمر ۔۔۔۔ تُم ۔۔۔ کب واپس آیا یا ر ۔۔۔ ؟ کسی نے بتایا بھی نہیں کہ تم واپس آگئے ہو ۔
ارشد نے مجھے ایک زمانے کے بعد دیکھا تو بہت ہی خوش ہوا ۔
میں نے کہا کہ بس یار کل ہی آگیا ۔ تُو سُنا کیسا ہے ۔۔۔ ؟ یہ تیرا بیٹا ہے ۔ میں نے اُس کے جسم سے تقریباٰ لپٹے ہوئے ایک بچے کو دیکھ کر کہا ۔
ہاں یہ میرا تین سالہ بیٹا واحد ہے ۔۔۔ اور ابھی تک واحد ہی ہے ۔
ہم دونوں کھلھلا کر ہنس پڑے ۔
لگتا نہیں ہے مگر مان لیتا ہوں کہ اتنا خوبصورت بچہ ہےتیرا ۔۔۔ یقینا بھابھی پر ہی گیا ہوگا۔
ہم ایک پھر ہنس پڑے۔

کچھ دیر دوستوں کے درمیان شام گذارنے کے بعد میں گھر واپس آگیا ۔ میں نے گھر کے آگے والے حصے یعنی لان میں بیٹھنے کے بجائے گھر کے پیچھلے حصے آنگن میں ہی بیھٹنے کو ہی ترجیح دی ۔ پتا نہیں گھر کے اس حصے سے مجھے کسی قسم کی اُنسیت تھی کہ پردیس میں بھی میں اسے ہی یاد کرتا تھا۔

بیٹا ۔۔۔ میں چائے لاتی ہوں تُم بیٹھو۔
امی نے کچن سے آواز لگائی جہاں سے آنگن واضع طور پر نظر آتا تھا۔
امی نے چائےلا کر میز پر رکھی تو میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ اب وہ کیا پُوچھنے والی ہیں۔
بیٹا ۔۔۔ جو ہوگیا آسے بھول جا ۔۔۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔
ہاں اپنی آپ ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔ مگر میں اپنے وجود کے جن حصوں کو وہاں چھوڑ کر جو آیا ہوں ۔ وہ کیسے بھلائے جا سکتے ہیں ۔
اللہ نہ کرے کہ تم اُ ن کو۔۔۔ یا وہ تم کو بُھلائیں ۔۔ تم تو اُن سے وہاں مل بھی سکتے ہو اور تم نے ہی بتایا تھا کہ کورٹ نے تمہیں یہ اجا زت دے رکھی ہے کہ تم اُن کو گرمیوں کی چھٹی میں یہاں پاکستان بھی لا سکتے ہو۔
ہاں یہ تو ہے امی ۔۔۔۔ مگر میں اُن معصوموں کی ایسی تقسیم نہیں چاہتا تھا۔ مگر قدرت نے میرے لیئے کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑا تھا۔
اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے ۔ تم نے اپنی طرف سے مصحالت کی پوری کوشش کی ۔ یہ سب جانتے ہیں ۔ مگر وہ عورت پر مغربیت کا جو بُخار چڑھا ہوا ہے ۔۔۔ تم دیکھنا ایک دن وہ اُسے لے ڈُوبے گا۔
امی اب روایتی کوسنے پر آگئیں تو میں نے باتوں کا سلسلہ موقوف کردیا۔
چائے ختم کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں واپس آگیا اور چُپکے سے سگریٹ سلگائی ۔ امی اور ابو کو یہ علم نہیں تھا کہ میں نے سگریٹ پینا شروع کردی ہے۔

میں امریکہ میں گذارے ہوئے اپنے قیمتی سالوں کو تو بھول سکتا تھا ۔ مگر میں اپنے اُن بچوں کو نہیں بھول سکتا تھا ۔ جن کے لیئے میں نے ہر قدم پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ میری یہ قربانی جب سارہ کے لیئے ایک بلیک میکنگ کا راستہ بن گئی تو مجھے احساس ہو گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ علیحدگی اختیار کر لی جائے کہ جب میاں اور بیوی کے درمیان رشتہ صرف ایک کاروبار کی حثیت اختیار کر لے تو پھر اس رشتہ کو طول دینا کسی بھی طور سے مناسب نہیں۔

میرے اس فیصلے سے سارہ کو بہت خوشی ہوئی تھی ۔۔۔ اور مجھے تو بعد میں تو ایسا بھی لگا کہ شاید وہ جان بُوجھ کر ہی ایسے اقدام اُٹھاتی تھی کہ میں امریکہ کے قوانین کے مطابق علیحدگی کا فیصلہ خود ہی کورٹ تک لے کر جاؤں۔

بعد میں میرے اس خدشے کی تصدیق بھی ہوگئی کہ اُس نے سال کے اندر اندر دوسری شادی کر لی ۔مگر بچے قانون کے مطابق بدستُور اُس کی ہی تحویل میں تھے ۔ مجھے ہفتے میں دو بار بچے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔

دوسرے دن مجھے کوئی خاص کام نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی ارشد کے ساتھ طارق روڈ کی طرف نکل گیا۔
یار ۔۔۔ توُ طارق روڈ کو اب دیکھ کر حیران ہو جائے گا ۔ بہت ہی زیادہ ڈویلوپمینٹ ہوئی ہے اور بعد میں اُس کی بات کی تصدیق بھی ہوگئی کہ طارق روڈ پر کئی فلک بوس عمارتیں سے سر اُٹھائے مجھے کھڑی نظر آئیں ۔جو زیادہ تر کاروباری مقاصد کےلیئے بنائی گئیں تھیں کچھ دیر یونہی گھومتے گھومتے ہم ایک ریسٹورینٹ میں جا بیٹھے۔

کھانےکے آڈر کے بعد ارشد مجھے کچھ دیر دیکھتا رہا ۔۔۔ بلآخر کہا ۔۔
یار مجھے بڑا افسوس ہوا کہ تیری ازداوجی زندگی کامیاب نہیں ہوسکی ۔ تم نے فون پر کئی بار تو تذ کرہ تو کیا تھا ۔ مگر حالات یہاں تک پہنچے گے کسی کو کیا خبر تھی۔
ہاں بس ۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہو گیا ۔
میں نے مختصر سا جواب دیا تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔
اچھا ہاں اگلے ہفتے میرے چھوٹے بھائی آصف کی شادی ہے ۔۔۔ میں نے پرانے دوستوں کے ساتھ ساتھ پُرانے ہمسایوں کو بھی بلایا ہے جو اب شہر کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں۔ذرا موڈ ٹھیک کر کے آنا ۔۔۔ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔ویسے بھی پُرانے لوگوں سے مل کر تمہیں خوشی ہوگی۔
میں بس مُسکرا کر رہ گیا ۔

بچپن کی محبت میں ناکامی کے بعد میں نے امریکہ میں فطری خواہش کے مطابق سارہ کو اپنا جیون ساتھی بنایا ۔۔ بعد میں مجھےاحساس ہوا کہ میرے اور اُسے درمیان نہ صرف مزاج کا ایک بڑا فرق ہے بلکہ مذ ہب اور کلچر کا بھی ایک واضع تضاد موجود ہے ۔ مگر اُس وقت بچے دُنیا میں آچکے تھے۔ لہذاٰ میں نے اس فرق کو اپنا نصیب مان لیا ۔ مگر جب سارہ کی فطرت کے منفی پہلو مجھ پر آشکار ہوئے تو پھر میں نے ہھتیار ڈال دیئے۔

انسان جب سب کچھ کھو دیتا ہے تو پھر اُسے وہ سب کچھ یاد آتا ہے جس کے کھونے میں اُس کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان آنے کے پہلے دن ہی مجھے شبانہ کا خیال آگیا تھا ۔کیوں کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ اُس کو کھونے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔

شادی ہال میں کافی لوگ موجود تھے ۔ ارشد نے واقعی محلے کے پُرانے لوگوں کو بھی مدعو کیاتھا۔
مجھے اُن سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ خاص کر شبانہ کے والد سے ۔۔۔۔ مگر مجھے شبانہ کے بارے میں پُوچھنے کی ہمت نہیں ہوسکی۔

شادی کے آخری رسومات کا آغاز ہوچکا تھا ۔۔۔ زیادہ تر مہمان واپس اپنے گھروں کی طرف لوٹ چکے تھے۔ دولہا اور دولہن کے عزیز اور اقارب فرداٰ فرداٰ دولہے اور دولہن کے ساتھ اپنی اپنی تصویریں اُتر وا رہے تھے ۔ میں بے زار ہوکر شادی ہال کے اگلے حصے میں آگیا جہاں ایک خوبصورت لان تھا ، وہا ں کچھ کرسیاں بچھی ہوئیں تھیں ۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔ مجھے ابھی بیٹھے ہوئی کچھ لمحے ہی ہوئے تھے کہ وہ میرے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔
میرا ہاتھ میری جیب میں ہی رہ گیا جو میں نے سگریٹ نکالنے کے لئے جیب میں ڈالا تھا۔
کیسے ہو احمر ۔۔۔۔ ؟
میں ۔۔۔ میں ۔۔ ٹھیک ہوں ۔
میں گڑبڑا گیا ۔
تم سناؤں تًم کیسی ہو ۔ ؟
میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ بھی ٹھیک ہوں
اُ س نے میری نقل کی ۔۔۔۔ اور ہنس پڑی
میں بھی ہنس پڑا
میں نے اب اُسے غور سے دیکھا ۔
وقت نے گویا کہ اُ س کے چہرے پر گذری ہوئی ساعتوں کے کچھ نشانیاں ضرور چھوڑیں تھیں۔ مگر اُس کے چہرے کی دلکشی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔
کب آئے ۔۔۔ ؟
پچھلے ہفتے ۔۔۔
تم کہاں ہوتی ہو ۔۔۔ آج تمہیں دیکھ کر یوں لگا کہ صدیوں بعد دیکھا ہے ۔
وقت تو احمر ۔۔۔۔ انسان کے اندر اپنا سفر طے کرتا ہے ۔ کیونکہ مجھے نہیں لگا کہ میں نے تمہیں ایک زمانے کے بعد دیکھا ہے ۔
وہ کیوں ۔۔۔ ؟ میں نے حیرت سے پُوچھا۔
میں نے اپنی آنکھوں میں وقت کو روک دیا تھا اور تمہیں کبھی بھی اپنی نظروں سے اُوجھل نہیں ہونے دیا ۔
مجھے ایک احساس َ ندامت سا ہونے لگا کہ میں نے اُسے بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا اور ایک وہ تھی کہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنے کے باوجود بھی مجھے ہمیشہ یاد رکھا۔
تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔
شاید وہ میرے چہرے کے تاثرات سے اندازہ کر چکی تھی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں ۔
قصور میرا ہی تھا کہ میں اپنی پسند کے بارے میں اپنے گھر والوں کو نہیں بتا سکی کہ امی کا کینسر آخری اسٹیج پر تھا اور وہ بضد تھیں کہ میری شادی اُن کی بہن کے بیٹے کے ساتھ ہو۔
خیر ۔۔۔ بیتی ہوئی باتوں کو دُھرانے کا کیا فائدہ ۔ تُم سناؤں ۔۔کیسی گذر رہی ہے ۔ تمہارے شوہر کہاں ہوتے ہیں ۔ اور ہاں کتنے بچے ہیں۔؟
میں نے بات کا رُخ تبدیل کرتے ہوئے اُس سے کئی سوال کر ڈالے ۔
شادی کے تین سال بعد مجھے طلاق ہو گئی تھی ۔
میں ایک دم سے سناٹے میں آگیا ۔
مگر مجھے تو یہ کسی نے بھی نہیں بتایا۔
تم نے میرے بارے میں کسی سے پُوچھا ہی نہیں ہوگا۔
اُس نے صیح اندازہ لگایا۔
مگر ایسا کیوں ہوا ۔۔ ؟ ، جبکہ وہ تمہارا اپنا کزن تھا
اس سے کیا فرق پڑتا تھا، شادی کے تین سال گذرنے کے باوجود بھی جب میں ماں نہیں بن سکی تو اُس نے مجھے طلاق دے کر دوسری شادی کر لی۔
اس حساب تو اس بات کو کافی عرصہ ہو گیا ۔ تم نے پھر دوسری شادی کیوں نہیں کی۔
پتا نہیں ۔۔۔ مگر کسی اور کے نام کے ساتھ اپنی زندگی گذارنے پر میں نے اپنی محبت کے سہارے زندگی کو ترجیح دی ۔مگر اب یہ نہیں سمجھ لینا کہ میں یہ کہوں گی کہ تم اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر میرے ساتھ شادی کرلو۔
یہ کہہ کر وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔
میں قدرت کے کارخانے کےاس عجیب کھیل کے بارے میں سوچنے میں مجبور ہوگیا کہ اگر اُوپر والے کو ہم کو ملانا ہی مقصود تھا تو پھر یہ تھکا دینے والا طویل سفر کیوں طے کروایا۔
میری بھی علیحدگی ہو چکی ہے ۔
میں نے قدرے توقف کے بعد اُس کو بتایا۔
اُس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا۔
وہ کچھ دیر سَکتے کی حالت میں مجھے دیکھتی رہی اور پھر کسی کی بھی پروا کیئے بغیر میری بانہوں میں آکر بُری طرح رو پڑی۔

میں اور شبانہ آج بہت خوش ہیں ۔ اللہ نے اُس کو تو اولاد سے محروم رکھا تھا مگر میرے بچوں نے اُس کی ما ں کی کمی کو پُورا کردیا ۔ سارہ کی دوسری شادی اور بچوں کو وقت نہ دینے پر کورٹ نے بچوں کو میرے حوالے کردیا تھا۔شبا نہ نے ان بچوں کو وہ پیار دیا کہ میرے اپنے ہی بچے مجھے چھیڑتے تھےکہ ممی (شبانہ) یہ پاپا ( یعنی کہ میں ) کون ہیں۔
میں بھی کبھی کبھی شبانہ کو چھیڑ دیتا ہوں کہ اگر تم بچپن میں صرف یہ کہتیں کہ ”تمہیں صرف میرا دولہا بننا ہے تو شاید یہ ایسا ہی ہو جاتا”
مگر مجھ سے شرما کر بھاگ جانے والی شبانہ اب میری بات سُن کر یہ کہہ کے مجھے لاجواب کردیتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے آنگن میں یہ پُھول سے بچے کہاں سے آتے “۔
میں بھی جب اس سارے عرصے پر ایک نظرڈالتا ہوں تو مجھے احساس ہوجاتا ہے کہ قدرت نے جس کٹھن سفر کے لیئے مجھے مجبور کیا تھا ۔ وہ صرف ان بچوں کے لیئے ہی مختص تھا۔ اب اختتامِ سفر کو دیکھ کر میں ہمیشہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتا ہوں “

واہ ۔۔۔ اختتامِ سفر پر مجھے پیار آیا۔
 

فرذوق احمد

محفلین
ایک اور بہت ہی پیاری تحریر پڑھ کر اچھا لگا بہت اچھا افسانہ ہے
ویسے ظفری بھائی
اختیتامِ سفر پر مجھے پیار آتا ہے
کیا یہ ایسے نہیں لکھنا تھا آپ نے
اختتامِ سفر پر مجھے پیار آتا ہے
 
بہت خوب ظفری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک موقع پر تو میں سمجھا کہ شاید واقعی تمہاری علیحدگی ہو گئی ہے :wink: اظہار افسوس کا سلیقہ سوچ ہی رہا تھا ایک اور شادی کروا دی تم نے اور میں بھی پرسکوں ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب ظفری بھائی

کبھی حقیقت افسانے میں ڈھل جاتی ہے اور کبھی افسانہ حقیقت میں بدل جاتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی ۔۔۔ ! اور آپ نے بلکل صیح بات کہی ہے ۔ اسی لیئے میں نے اپنے افسانوں میں موضوع کی تفصیل میں “ ایک حقیقت ایک فسانہ “ لکھ رکھا ہے ۔ :wink:
 
Top