نمرہ
محفلین
اداسی شام کی دل کے دریچے میں اتر آئی
کسی کا یاد آنا تھا کہ اپنی آنکھ بھر آئی
ملی منزل تیقن کی اگرچہ ایک دنیا کو
ہمارے بخت میں اک جستجو کی رہگزر آئی
شب فرقت سر بالیں بہت ہنگامہ اٹھتا تھا
مرے اٹھنے کی نے ان کے اترنے کی خبر آئی
کہاں تو اس خرابے میں قدم دھرنے سے خائف تھی
کہاں دل میں دبے پاؤں محبت سر بسر آئی
مزاج زندگی کی زلف کیا عکاس تھی، یعنی
وہی پیچیدہ تر نکلی کہ جو سادا نظر آئی
وہی صورت کہ اک مدت سے معتوب زمانہ تھی
کسی کے دل کے آئینے میں دیکھی تو نکھر آئی
یہ گنتی کے ستاروں کی ضیا پہلے نہ تھی ایسی
معیت میں کسی کی ماہ سے رخشندہ تر آئی
بنی دشت تمنا میں وہ زنجیر اپنے پاؤں کی
اگر امید اپنی اتفاقا کوئی بر آئی
لگی جب روح پر اک پیکر خاکی کی پابندی
مکان و لامکاں میں پھر وہاں تفریق در آئی
کسی کا یاد آنا تھا کہ اپنی آنکھ بھر آئی
ملی منزل تیقن کی اگرچہ ایک دنیا کو
ہمارے بخت میں اک جستجو کی رہگزر آئی
شب فرقت سر بالیں بہت ہنگامہ اٹھتا تھا
مرے اٹھنے کی نے ان کے اترنے کی خبر آئی
کہاں تو اس خرابے میں قدم دھرنے سے خائف تھی
کہاں دل میں دبے پاؤں محبت سر بسر آئی
مزاج زندگی کی زلف کیا عکاس تھی، یعنی
وہی پیچیدہ تر نکلی کہ جو سادا نظر آئی
وہی صورت کہ اک مدت سے معتوب زمانہ تھی
کسی کے دل کے آئینے میں دیکھی تو نکھر آئی
یہ گنتی کے ستاروں کی ضیا پہلے نہ تھی ایسی
معیت میں کسی کی ماہ سے رخشندہ تر آئی
بنی دشت تمنا میں وہ زنجیر اپنے پاؤں کی
اگر امید اپنی اتفاقا کوئی بر آئی
لگی جب روح پر اک پیکر خاکی کی پابندی
مکان و لامکاں میں پھر وہاں تفریق در آئی