سیما کرن
محفلین
کہانی نمبر :1 ✍ڈاکٹر سیما شفیع پاکستان
تسبیح
آنگن میں بیٹھی سب لڑکیوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا!
تہنیت بیچاری سب کے درمیان سمٹی سی بیٹھی تھی۔ چہرہ شدت جذبات سے سرخ ہوا جا رہا تھا، اب یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ کونسی جذباتی کیفیت میں تھی۔
شرم!
یا غصہ!
امی جی سب بچیوں کو یوں کھلکھلاتے دیکھ کر مسکرائیں اور بے اختیار ان کے دل سے دعا نکلی!
یا اللہ انہیں یوں ہی خوش و خرم رکھ، صراط مستقیم اور خوش بختی عطاء فرما، اور میرے سب بچوں کو اپنے حفظ امان میں رکھ! آمین!
مسکراتی ہوئیں باہر برآمدے میں آئیں تو بچیوں کے قہقہے دبی دبی مسکراہٹوں میں تبدیل ہو گئے۔
"کیا لطیفے سنائے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟"
"ہم بھی تو سنیں۔۔۔۔!"
امی جی نے بڑے پیار سے سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"امی جی۔۔۔۔! وہ۔۔۔۔!"
"تہنیت کہہ رہی ہے کہ اسے تیراکی سیکھنی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔"
"ہی۔۔ ہی۔۔ ہی۔۔ ہی۔۔"
مناہل اپنی ہنسی پر کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی۔
"کیونکہ۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟"
امی جی نے حیرت سے مناہل اور پھر باری باری سب کے چہروں پر نظر دوڑائی۔
"امی جی۔۔۔ وہ۔۔۔! "
"تہنیت کا کہنا ہے کہ تیراکی سیکھنے کا حکم قرآن میں ہے۔۔۔۔۔۔ !"
"اور ،۔۔۔ اور ، یہ ہم پر فرض ہے!"
مناہل نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر بند باندھا۔
"امی جی! یہ میں نہیں کہہ رہی یہ میری ہم جماعت عائشہ کو اس کی استانی نے بتایا ہے کہ قرآن مجید میں سورہ الحدید کا پہلا لفظ ہے، "سَبَّحَ" جس کا مطلب ہے "تیراکی!"
اور ہم سب کو تیراکی سیکھنی چاہئیے۔ مگر فرض کا لفظ نہیں استعمال کیا۔ یہ اپنی طرف سے گرہ لگا رہیں ہیں! "
تہنیت نے جلدی جلدی اور قدرے روہانسی ہو کر اپنی صفائی پیش کی۔
"تو ۔۔۔۔۔ اس میں ہنسنے والی کیا بات تھی؟ "
امی جی کی حیرت بدستور قائم تھی۔
"اور اگر تہنیت یہ بھی کہہ دے کہ تیراکی فرض ہے تو بھی غلط نہیں!"
"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
ایک ساتھ بہت سی حیرت زدہ آوازیں نکلیں۔
"امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
"تیراکی فرض ہے؟"
ثوبیہ اور مناہل کے منہ سے ایک ساتھ ایک ہی سوال برآمد ہوا۔
" بھئی سورہ الحدید تو یہی کہہ رہی ہے!"
امی جی نے شرارتی نظروں سے بچیوں کی جانب دیکھا پھر چمن میں کرکٹ کھیلتے پوتوں اور نواسوں پر ایک نظر ڈالی جو حیرت سے اپنا کھیل روک کر امی جی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
"امی جی! ۔۔۔کیا تیراکی مردوں اور عورتوں سب پر فرض ہے؟"
احمر کھیل چھوڑ کر امی جی کی طرف آتے ہوئے مستفسر ہوا۔
"بالکل جس طرح علم کا حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔ بالکل اسی طرح!"
امی جی کے جواب نے سب کو مزید ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
اشعر، حاشر ، حمزہ، شارق، ریحان، ھادی، ارباز، اور تمام لڑکیاں عروسہ، نئیر، ثوبیہ، سارہ، مسکان، فجر، مناہل، تہنیت، مروہ، اور اقصی سب ہی امی جی کے اردگرد جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔
"مگر علم کا تیراکی سے کیا مقابلہ؟"
عروسہ نے پوچھا،
گویا کہ حیرتوں کے پہاڑ تھے جو ان کے سروں پر ٹوٹ رہے تھے۔
"ہممم۔۔۔"
امی جی نے دماغ میں الفاظ ترتیب دینا شروع کئے پھر گویا ہوئیں۔
"سورہ الحدید کی پہلی آیت کسے یاد ہے؟"
"مجھے!"
تہنیت نے فورا ہاتھ اٹھایا۔
"سناؤ!"
امی جی نے کہا۔
"اعوذ بالله من الشيطن الرجيم. "
"بسم الله الرحمن الرحيم."
"سَبَّحَ لِلّ۔ٰهِ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِ۔يْمُ "
"اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔"
تہنیت نے بڑے جوش و جذبے سے پہلی آیت مع ترجمہ قرآت سے پڑھی۔
"ہمممم"
" چلو بھئی تہنیت نے تو آسان کر دیا ترجمہ کر کے! "
"اب بتاؤ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟"
امی جی نے سوال کیا۔
" اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے رہے ہیں!"
سب نے مل کر جواب دیا۔
" اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟"
امی جی نے ایک اور سوال کیا۔
"تسبیح۔۔۔! "
مناہل نے کچھ ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
"بالکل!"
"تسبیح !، "
"اب لفظ تسبیح کا غور سے جائزہ لیتے ہیں ۔ حرف بہ حرف ۔ کیونکہ اگر ہم نے تدبر کرنا ہے۔ اور تدبر کا مطلب ہے تعاقب کرنا ۔تو ہمیں قرآن کے الفاظ کو مکمل طور پر سمجھنا ہوگا۔"
"امی جی! سمجھنے کے لئے تعاقب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"
ھادی نے سوال داغا۔
" دراصل قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے، جامع کا مطلب جانتے ہو ناں؟ "
امی جی نے درمیان میں سوال کیا مبادا بچے بات کو نہ سمجھ رہے ہوں۔
"جی جی ، مکمل"
اب کے حاشر نے جواب دیا۔
"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ، قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے، جس میں آخرت تک کے مسلمانوں کے لئے زندگی گزارنے کا مکمل نظام موجود ہے۔ "
"صرف مسلمانوں کے لئے؟"
اقصٰی نے پوچھا۔
"قرآن کون پڑھتا ہے؟"
امی جی نے بھی جواباً سوال کر دیا۔
"مسلمان!"
ننھی مسکان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
"ہاں!۔۔۔۔۔۔۔،"
امی جی نے ساتھ ہی بیٹھی مسکان کو پیار کیا۔
" ویسے تو قرآن کے مخاطب تمام انسان ہیں، اور دنیا میں اپنا مقررہ وقت یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ سب کے لئے ہے۔ پورا چارٹرڈ آف لائف ہے۔
یعنی زندگی گزارنے کا لکھا ہوا ایک مکمل منشور یا دستور یا آئین یا اصولوں کی فہرست جو آپ کو آسان لگے وہ سمجھیں ۔ مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن ہمیں اگر براہ راست بھی ایک بات بتا رہا ہے، تو اس کے پیچھے بھی کچھ پہیلیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور انہیں پہیلیوں کا ہمیں پیچھا کر کے انہیں بوجھنا ہوتا ہے۔"
"امی جی! کوئی مثال دے کر سمجھائیں ناں!"
مناہل کے کہنے پر حاشر اور احمر نے بھی سر ہلا کر اسکی بات کی تائید کی۔
"مثال۔۔۔۔۔، جیسے قرآن میں جگہ جگہ یہ دو الفاظ بطور حکم ہمیں نظر آتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔"
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ "
" اب اس کا ترجمہ کیا ہے؟ "
" صلواة قائم کرو! نہ کہ نماز پڑھو"
"ان دونوں میں کیا فرق ہے؟"
اشعر نے پوچھا۔
"نماز پڑھنے۔۔۔۔۔۔ اور قائم کرنے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن میں صرف نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ اگر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی میں ایک آدھ بار نماز کا ادا کر لینا ہی کافی ہوتا، کیوں؟"
امی جی نے سب کی طرف دیکھا۔
"بالکل "
فجر ترنت بولی۔
"اور امی جی! میرا خیال ہے کہ صرف نماز پڑھنا، تو زبان سے کچھ کلمات اور آیات کی ادائیگی ہے، اس کے علاوہ اٹھ بیٹھ کر کچھ ارکان کا بجا لانا ہے۔
جبکہ نماز کو احادیث میں دین کا ستون کہا گیا ہے:’’الصلاۃ عمود الدین‘‘۔
تو ستون پڑھنے کی چیز تو نہیں ہوتی ناں؟ بلکہ ستون کو تو عمارت کو سہارا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔"
" اور ستون سیدھا کھڑا کر کے قائم کیا جاتا ہے، تاکہ دین کی عمارت قائم رہے!"
فجر کی تفصیل بیان کرنے پر نئیر بھی پیچھے رہنے والی نہیں تھی، لہٰذا اس نے بھی ترنت ٹکڑا جوڑا۔
اتنی سیر حاصل بحث شروع ہو چکی تھی۔ چھوٹے بڑے سب بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔
حاشر کہاں پیچھے رہنے والا تھا فوراً بولا۔
"کچھ ماہ پہلے ہمارے اسلامیات کے استاد ہمیں پڑھا رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،"
"نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کئے جائیں۔"
"نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنتیں اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے۔
جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے پاک کرکے اللہ کے حضور متوجہ ہو۔"
"یعنی نماز کے قیام کے لئے جسمانی اور روحانی پاکیزگی ضروری ہے!"
مروہ نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا۔
"بالکل۔۔۔۔۔ اور جگہ اور لباس بھی پاک ہونا چاہئیے!"
عروسہ بولی۔
"اور اگر نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی، تو لوگ آپس میں ملیں گے۔ ایک دوسرے سے کچھ سیکھیں گے۔ ہے ناں۔۔۔۔۔۔؟"
"بلکہ ایک دوسرے کے حالات جان کر ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔"
حمزہ کی بات کو شارق نے آگے بڑھایا۔
"ہاں۔۔۔۔ اور جب لوگ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوں گے، تو ایک بہترین معاشرہ قائم ہو گا!"
ریحان نے نماز کے قیام کا مقصد بیان کر دیا۔
" بس یہی ہے تدبر یعنی تعاقب جو آپ سب نے ابھی کیا، ایک پہیلی جو سب نے مل کر بوجھی! آؤ اب دوسری پہیلی بوجھیں، یعنی تیراکی فرض ہے!"
امی جی جو نہایت محبت سے سب بچوں کو بات سے بات نکالتے دیکھ رہی تھیں، ان کے خاموش ہونے کے بعد بولیں۔
سب بچے خاموشی سے امی جی کی طرف دیکھنے لگے۔
"عربی ایک بہت دلچسپ زبان ہے۔ اس میں بظاہر بڑے لمبے چوڑے الفاظ ہیں لیکن درحقیقت ہر لفظ صرف تین حروف کا بنا ہے۔ چار حروف بھی ہوتے ہیں لیکن بہت کم۔
ان تین حروف کو کسی بھی لفظ کا روٹ ورڈ کہتے ہیں، یعنی جڑ یا بنیادی لفظ۔"
تو ہم بات کر رہے تھے کہ 'زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟'
'اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے رہے ہیں!'
'اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کو عربی میں تسبیح کہا جاتا ہے!' "
امی جی نے دوبارہ وہیں سے سلسلہ جوڑا۔
"عام طور پر تسبیح کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں اس تسبیح کا خیال آتا ہے!"
امی جی نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح دکھائی۔
"پھر تسبیح کے خیال کے ساتھ ہی کیسی شخصیت ذہن میں آتی ہے؟"
انہوں نے پھر سوال کیا تاکہ بچے بور نہ ہوں اور موضوع سے بندھے رہیں۔
"آپ۔۔۔۔۔!"
"چوکیدار بابا"
"چاچا بابو "
"بوڑھے لوگ"
"پیر فقیر"
"مولوی صاحب "
" مہروش کی دادی "
مختلف جوابات سامنے آئے۔
"کبھی اپنا آپ ذہن میں آیا؟۔۔۔۔۔ نہیں ناں! ۔۔۔۔۔کیونکہ ہمارے ذہن میں تسبیح کے حوالے سے جو خاکہ بنا ہے ہم اپنے آپ کو اس سانچے میں فٹ نہیں دیکھتے۔ اسلئے کہ ہمیں تسبیح کے معنی ہی معلوم نہیں۔
"اب لفظ تسبیح کا غور سے جائزہ لیتے ہیں ۔ حرف بہ حرف۔"
" تسبیح کا روٹ ورڈ ہے " س ب ح یعنی سبح ۔
سَبَّحَ کے کئی معنی ہیں جیسے، تیرنا، پاکی، آزادی،خود کو اللہ کے سپر د کر دینا، پھیلنا، بہت کام کرنا، محنت کرنا وغیرہ۔۔۔۔۔"
"مگر اس کا اصطلاحی معنی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا کیونکہ وہی ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے۔ آزاد ہے۔"
"سَبَّحَ صرف اللہ کی تعریف کرنا نہیں، بلکہ مسلسل تعریف کرنا ہے۔ اس میں مسلسل کا معنی پایا جاتا ہے۔"
"واپس اسی لفظ پہ آتے ہیں جو سَبَّحَ کا اصل معنی ہے۔"
"سَبَّحَ کہتے ہیں ... تیر نے کو۔ چاہے وہ فضا میں ہو پانی میں یا خلا میں جیسے سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ "
"تیرنا کیا ہوتا ہے؟"
"تیرنے والے لفظ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے معنی میں کیوں استعمال کیا ؟"
"اب تصور کریں، کہ آپ نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے اور درمیان میں سمندری یا فضائی راستہ ہے۔ کیسے پہنچیں گے؟"
"سمندری جہاز"
"ہوائی جہاز "
"کشتی بھی ہو سکتی ہے"
"ہیلی کاپٹر "
"ٹائر ٹیوب"
"تیر کر"
"تیراکی"
"سوئمنگ "
پھر مختلف جوابات آئے۔
"اب تیرنے کے عمل کو ذہن میں لائیں!"
امی جی نے ایک اور تصور کی کھڑکی کھولی۔
" اچھا یہ بتائیں کہ تیرنے کے لئے کیا چیز ضروری ہے؟"
"پانی"
"کیا آپ زمین پر تیرتے ہیں؟"
"نہیں! "
"کیوں ؟"
"کیونکہ آپ زمینی مخلوق ہیں اور زمین پر آپ چل سکتے ہیں۔ زمین آپ کا مسکن ہے۔ اس میں آپ کو ڈوبنے یا گرنے کا خوف نہیں جیسے پانی مچھلی کا اور ہوا پرندے کا مسکن ہوتی ہے۔ اپنے مسکن میں ہر مخلوق بے خوف ہوتی ہے۔
زمین انسان کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔ لیکن اگر سیلاب آجائے تو خوف آتا ہے۔
اسی طرح سمندر میں سمندری جہاز، کشتی اور ہوا میں ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہوئے بھی انسان بے یقینی کا شکار رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ نارمل حالات نہیں ہوتے۔ آپ کسی وقت بھی ڈوب سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں آپ کو صرف ایک شے بچاتی ہے۔
تیرنا۔
اگر آپ تیرنا جانتے ہیں۔
اگر آپ کا ملاح کشتی کو پانی پر تیرانا جانتا ہے۔
اگر آپ کا پائلٹ جہاز فضا میں تیرانا جانتا ہے۔
تیرنے کا ہنر وہ شے ہے جو آپ کو شدید مشکل حالات میں محفوظ رکھتا ہے۔
تیرنا دراصل زندگی بچانے کا ذریعہ ہے۔ آپ کو نارمل حالات میں یعنی زمین پر اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن جیسے ہی حالات بدلیں گے آپ کو تیرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اور اگر آپ نے نارمل حالات میں اس کو نہیں سیکھا تو مشکل حالات میں آپ ایک ہی لمحے میں ڈوب جائیں گے۔ یعنی تیرنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو نارمل حالات میں بھی پریکٹس کرنا چاہیے تا کہ مشکل حالات میں وہ اس پر عمل کرتے ہوئے خود کو بچا سکے۔"
" کیا تیراکی صرف مشکل حالات میں ہی کام آتی ہے؟۔۔۔۔۔۔ معذرت آپ کی کاٹی!"
احمر نے معذرت خواہانہ انداز میں پوچھا۔
"اس کا جواب آپ سب دو گے! کیونکہ میں جاننا چاہوں گی کہ میری بات آپ کے دل میں کتنی حد تک اتری!"
امی جی نے استفہامیہ نظروں سے بڑے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہنہہ " مناہل(جو میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے) نے کھنکھار کر گلہ صاف کیا پھر گویا ہوئی۔"
"میرا خیال ہے کہ تیراکی کا عمل دخل ہماری روزمرہ زندگی میں بھی اتنا ہی ہے جتنا مشکل حالات میں، کیونکہ اگر ایک ڈاکٹر طب کے سمندر میں تیراکی میں مہارت حاصل نہیں کرے گا تو مریضوں کو بیماریوں کے طوفان سے کیسے بچائے گا۔"
"شاباش! میری جان یعنی میری تیراکی کی مہارت کام آ گئی!"
امی جی خوشی سے سرشار ہو گئیں۔
"جی بالکل امی جی اگر آپ جیسے اساتذہ علم کے سمندر میں تیراکی کی مہارت نہیں حاصل کریں گے تو، ہم جیسے نادان شاگرد زندگی کے اس پل صراط کو کیسے پار کر پائیں گے۔
ان کا سب سے بڑا پوتا ریحان( جس کا انجنیئرنگ میں آخری سال تھا۔) جوش جذبات سے آبدیدہ ہو کر گویا ہوا۔
"ہاں اور اگر آپ انجنیئرز اپنے علم کے سمندر میں تیراکی کی مہارت حاصل نہیں کرو گے تو تمام بلڈنگز، پل، سڑکیں وغیرہ ختم ہو جائیں، دنیا ویرانوں میں تبدیل ہو جائے۔ ہے ناں !"
احمر نے فوراً ریحان کے شعبے کی اہمیت اجاگر کی۔
" پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ تیراکی ہم سب پر فرض ہے؟ "
تہنیت نے بڑے طمطراق سے اکڑ کر کہا۔
"امی جی مجھ پر بھی تیراکی فرض ہے؟"
چار سالہ ننھی مسکان نے معصومیت سے پوچھا۔
"ہاں بالکل! آپ کا سمندر آپ کی عمر کے مطابق ہے۔ جس میں اپنا قرآن کا سبق، کلمے، نماز، سیکھنا، سکول کا سبق، کھانے ،پینے، سونے جاگنے کے آداب و اوقات کو درست رکھنا، بولنا، چلنا، اٹھنا، بیٹھنا، بڑوں کا کہنا ماننا وغیرہ شامل ہیں۔ یہی آپ کی تیراکی کی مشقیں ہیں۔
"میں اچھی تیراک بنوں گی، اور فرسٹ آؤں گی انشاءاللہ!"
"انشاءاللہ ! مگر آپ کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، بس اپنی دنیا سنوارنی ہے!"
امی جی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کافی دیر سے خاموش بیٹھی سارہ نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے امی جی کی طرف دیکھا اور ہچکچاتے ہوئے بولی۔
"امی جی سورہ الحدید کی پہلی آیت میں جو ذکر ہے۔ "
"اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔۔"
"تو کیا یہ ایسا ہو گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تیراکی کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔"
سب نے یکدم سارہ کی جانب حیرت سے دیکھا۔
"ظاہر ہے!"
مناہل بولی۔
"کیسے؟"
اس نے پھر سوال داغا۔
"ایک منٹ!"
امی جی نے ہاتھ اٹھا کر مناہل کو روکا۔
"سارہ کو ابھی پوری طرح سمجھ نہیں آئی، اور آپ سب اسے ایسے خشونت بھری نظروں سے مت دیکھو!"
" ہر انسان کے سمجھنے کا اپنا لیول ہوتا ہے۔ ابھی اس کی عمر بھی اتنی نہیں۔"
پھر سارہ سے مخاطب ہوئیں۔
" سارہ ابھی تک جتنی گفتگو تیراکی کے بارے میں ہوئی، تمہیں سمجھ آئی؟"
"جی! امی جی ، اتنا تو میں سمجھ گئی کہ ہر ایک کا اپنا اپنا سمندر ہے اپنی عمر، اپنی لیاقت، اپنے شعبے کے مطابق ہر ایک نے اپنی دنیا میں زندگی گزارنے کے مطابق تیراکی کے فن میں مہارت حاصل کرنی ہے، مگر مجھے سمجھ یہ نہیں آئی کہ اس آیت کے مطابق،۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ترجمہ ایسا ہو کہ،۔۔۔۔۔۔
"تیراکی کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔"
" تو آسمان اور زمین میں صرف انسان تو نہیں ہیں، پودے، پرندے اور جانور بھی ہیں، چاند، سورج، سیارے اور ستارے بھی ہیں اور جنات بھی تو ہیں !۔۔۔۔"
اب امی جی بھی حیران ہو کر سارہ کو دیکھ رہی تھیں۔ انہیں امید نہیں تھی کہ سارہ اتنا گہرائی میں سوچ سکتی ہے۔
" سارہ میرا خیال ہے کہ یہاں بیٹھے تمام افراد میں سے آپ سب پر سبقت لے گئی ہو۔ شاباش! ہمیں اتنی ہی گہرائی سے سوچنا چاہئیے۔ یہی تدبر ہے یہی سَبَّحَ ہے۔"
" بیٹا ! کائنات کی ہر شے جو جو نام آپ نے گنوائے وہ بھی اور جو نہیں گنوائے وہ بھی، یعنی تمام نباتات و جمادات، جن و انس، چرند و پرند، سب تیر رہے ہیں اپنے اپنے مدار میں ۔ سب اپنے اپنے بحر کے مشاق تیراک ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کے مدار کو پار کرنے کی کوشش نہیں کرتا یہی کائنات کا حسن ہے، اور اپنی حدود کا خیال رکھنا دراصل اللہ کی بڑائی اور بزرگی کا اعتراف ہے، یہی ثناء خوانی ہے۔ "
امی جی کا مفصل جواب سن کر سارہ نے ایک آسودہ لمبی سانس لی، جیسے اس کے ذہن کی بہت سی گرہیں ایک ساتھ کھل گئیں ہوں۔
یہی حال باقی بچوں کا بھی تھا۔
سب نے تخت پر پڑے جزدان سے تسبیح اٹھا لی۔ اور رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کا ورد شروع کر دیا۔
تسبیح
آنگن میں بیٹھی سب لڑکیوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا!
تہنیت بیچاری سب کے درمیان سمٹی سی بیٹھی تھی۔ چہرہ شدت جذبات سے سرخ ہوا جا رہا تھا، اب یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ کونسی جذباتی کیفیت میں تھی۔
شرم!
یا غصہ!
امی جی سب بچیوں کو یوں کھلکھلاتے دیکھ کر مسکرائیں اور بے اختیار ان کے دل سے دعا نکلی!
یا اللہ انہیں یوں ہی خوش و خرم رکھ، صراط مستقیم اور خوش بختی عطاء فرما، اور میرے سب بچوں کو اپنے حفظ امان میں رکھ! آمین!
مسکراتی ہوئیں باہر برآمدے میں آئیں تو بچیوں کے قہقہے دبی دبی مسکراہٹوں میں تبدیل ہو گئے۔
"کیا لطیفے سنائے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟"
"ہم بھی تو سنیں۔۔۔۔!"
امی جی نے بڑے پیار سے سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"امی جی۔۔۔۔! وہ۔۔۔۔!"
"تہنیت کہہ رہی ہے کہ اسے تیراکی سیکھنی ہے، کیونکہ۔۔۔۔۔۔"
"ہی۔۔ ہی۔۔ ہی۔۔ ہی۔۔"
مناہل اپنی ہنسی پر کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی۔
"کیونکہ۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟"
امی جی نے حیرت سے مناہل اور پھر باری باری سب کے چہروں پر نظر دوڑائی۔
"امی جی۔۔۔ وہ۔۔۔! "
"تہنیت کا کہنا ہے کہ تیراکی سیکھنے کا حکم قرآن میں ہے۔۔۔۔۔۔ !"
"اور ،۔۔۔ اور ، یہ ہم پر فرض ہے!"
مناہل نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر بند باندھا۔
"امی جی! یہ میں نہیں کہہ رہی یہ میری ہم جماعت عائشہ کو اس کی استانی نے بتایا ہے کہ قرآن مجید میں سورہ الحدید کا پہلا لفظ ہے، "سَبَّحَ" جس کا مطلب ہے "تیراکی!"
اور ہم سب کو تیراکی سیکھنی چاہئیے۔ مگر فرض کا لفظ نہیں استعمال کیا۔ یہ اپنی طرف سے گرہ لگا رہیں ہیں! "
تہنیت نے جلدی جلدی اور قدرے روہانسی ہو کر اپنی صفائی پیش کی۔
"تو ۔۔۔۔۔ اس میں ہنسنے والی کیا بات تھی؟ "
امی جی کی حیرت بدستور قائم تھی۔
"اور اگر تہنیت یہ بھی کہہ دے کہ تیراکی فرض ہے تو بھی غلط نہیں!"
"کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
ایک ساتھ بہت سی حیرت زدہ آوازیں نکلیں۔
"امی جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
"تیراکی فرض ہے؟"
ثوبیہ اور مناہل کے منہ سے ایک ساتھ ایک ہی سوال برآمد ہوا۔
" بھئی سورہ الحدید تو یہی کہہ رہی ہے!"
امی جی نے شرارتی نظروں سے بچیوں کی جانب دیکھا پھر چمن میں کرکٹ کھیلتے پوتوں اور نواسوں پر ایک نظر ڈالی جو حیرت سے اپنا کھیل روک کر امی جی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
"امی جی! ۔۔۔کیا تیراکی مردوں اور عورتوں سب پر فرض ہے؟"
احمر کھیل چھوڑ کر امی جی کی طرف آتے ہوئے مستفسر ہوا۔
"بالکل جس طرح علم کا حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔ بالکل اسی طرح!"
امی جی کے جواب نے سب کو مزید ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
اشعر، حاشر ، حمزہ، شارق، ریحان، ھادی، ارباز، اور تمام لڑکیاں عروسہ، نئیر، ثوبیہ، سارہ، مسکان، فجر، مناہل، تہنیت، مروہ، اور اقصی سب ہی امی جی کے اردگرد جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔
"مگر علم کا تیراکی سے کیا مقابلہ؟"
عروسہ نے پوچھا،
گویا کہ حیرتوں کے پہاڑ تھے جو ان کے سروں پر ٹوٹ رہے تھے۔
"ہممم۔۔۔"
امی جی نے دماغ میں الفاظ ترتیب دینا شروع کئے پھر گویا ہوئیں۔
"سورہ الحدید کی پہلی آیت کسے یاد ہے؟"
"مجھے!"
تہنیت نے فورا ہاتھ اٹھایا۔
"سناؤ!"
امی جی نے کہا۔
"اعوذ بالله من الشيطن الرجيم. "
"بسم الله الرحمن الرحيم."
"سَبَّحَ لِلّ۔ٰهِ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِ۔يْمُ "
"اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔"
تہنیت نے بڑے جوش و جذبے سے پہلی آیت مع ترجمہ قرآت سے پڑھی۔
"ہمممم"
" چلو بھئی تہنیت نے تو آسان کر دیا ترجمہ کر کے! "
"اب بتاؤ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟"
امی جی نے سوال کیا۔
" اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے رہے ہیں!"
سب نے مل کر جواب دیا۔
" اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟"
امی جی نے ایک اور سوال کیا۔
"تسبیح۔۔۔! "
مناہل نے کچھ ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
"بالکل!"
"تسبیح !، "
"اب لفظ تسبیح کا غور سے جائزہ لیتے ہیں ۔ حرف بہ حرف ۔ کیونکہ اگر ہم نے تدبر کرنا ہے۔ اور تدبر کا مطلب ہے تعاقب کرنا ۔تو ہمیں قرآن کے الفاظ کو مکمل طور پر سمجھنا ہوگا۔"
"امی جی! سمجھنے کے لئے تعاقب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"
ھادی نے سوال داغا۔
" دراصل قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے، جامع کا مطلب جانتے ہو ناں؟ "
امی جی نے درمیان میں سوال کیا مبادا بچے بات کو نہ سمجھ رہے ہوں۔
"جی جی ، مکمل"
اب کے حاشر نے جواب دیا۔
"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ، قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے، جس میں آخرت تک کے مسلمانوں کے لئے زندگی گزارنے کا مکمل نظام موجود ہے۔ "
"صرف مسلمانوں کے لئے؟"
اقصٰی نے پوچھا۔
"قرآن کون پڑھتا ہے؟"
امی جی نے بھی جواباً سوال کر دیا۔
"مسلمان!"
ننھی مسکان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
"ہاں!۔۔۔۔۔۔۔،"
امی جی نے ساتھ ہی بیٹھی مسکان کو پیار کیا۔
" ویسے تو قرآن کے مخاطب تمام انسان ہیں، اور دنیا میں اپنا مقررہ وقت یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ سب کے لئے ہے۔ پورا چارٹرڈ آف لائف ہے۔
یعنی زندگی گزارنے کا لکھا ہوا ایک مکمل منشور یا دستور یا آئین یا اصولوں کی فہرست جو آپ کو آسان لگے وہ سمجھیں ۔ مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن ہمیں اگر براہ راست بھی ایک بات بتا رہا ہے، تو اس کے پیچھے بھی کچھ پہیلیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور انہیں پہیلیوں کا ہمیں پیچھا کر کے انہیں بوجھنا ہوتا ہے۔"
"امی جی! کوئی مثال دے کر سمجھائیں ناں!"
مناہل کے کہنے پر حاشر اور احمر نے بھی سر ہلا کر اسکی بات کی تائید کی۔
"مثال۔۔۔۔۔، جیسے قرآن میں جگہ جگہ یہ دو الفاظ بطور حکم ہمیں نظر آتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔"
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ "
" اب اس کا ترجمہ کیا ہے؟ "
" صلواة قائم کرو! نہ کہ نماز پڑھو"
"ان دونوں میں کیا فرق ہے؟"
اشعر نے پوچھا۔
"نماز پڑھنے۔۔۔۔۔۔ اور قائم کرنے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن میں صرف نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز قائم کرنے کی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ اگر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی میں ایک آدھ بار نماز کا ادا کر لینا ہی کافی ہوتا، کیوں؟"
امی جی نے سب کی طرف دیکھا۔
"بالکل "
فجر ترنت بولی۔
"اور امی جی! میرا خیال ہے کہ صرف نماز پڑھنا، تو زبان سے کچھ کلمات اور آیات کی ادائیگی ہے، اس کے علاوہ اٹھ بیٹھ کر کچھ ارکان کا بجا لانا ہے۔
جبکہ نماز کو احادیث میں دین کا ستون کہا گیا ہے:’’الصلاۃ عمود الدین‘‘۔
تو ستون پڑھنے کی چیز تو نہیں ہوتی ناں؟ بلکہ ستون کو تو عمارت کو سہارا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔"
" اور ستون سیدھا کھڑا کر کے قائم کیا جاتا ہے، تاکہ دین کی عمارت قائم رہے!"
فجر کی تفصیل بیان کرنے پر نئیر بھی پیچھے رہنے والی نہیں تھی، لہٰذا اس نے بھی ترنت ٹکڑا جوڑا۔
اتنی سیر حاصل بحث شروع ہو چکی تھی۔ چھوٹے بڑے سب بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔
حاشر کہاں پیچھے رہنے والا تھا فوراً بولا۔
"کچھ ماہ پہلے ہمارے اسلامیات کے استاد ہمیں پڑھا رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،"
"نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کئے جائیں۔"
"نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنتیں اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے۔
جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے پاک کرکے اللہ کے حضور متوجہ ہو۔"
"یعنی نماز کے قیام کے لئے جسمانی اور روحانی پاکیزگی ضروری ہے!"
مروہ نے پہلی مرتبہ گفتگو میں حصہ لیا۔
"بالکل۔۔۔۔۔ اور جگہ اور لباس بھی پاک ہونا چاہئیے!"
عروسہ بولی۔
"اور اگر نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی، تو لوگ آپس میں ملیں گے۔ ایک دوسرے سے کچھ سیکھیں گے۔ ہے ناں۔۔۔۔۔۔؟"
"بلکہ ایک دوسرے کے حالات جان کر ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔"
حمزہ کی بات کو شارق نے آگے بڑھایا۔
"ہاں۔۔۔۔ اور جب لوگ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوں گے، تو ایک بہترین معاشرہ قائم ہو گا!"
ریحان نے نماز کے قیام کا مقصد بیان کر دیا۔
" بس یہی ہے تدبر یعنی تعاقب جو آپ سب نے ابھی کیا، ایک پہیلی جو سب نے مل کر بوجھی! آؤ اب دوسری پہیلی بوجھیں، یعنی تیراکی فرض ہے!"
امی جی جو نہایت محبت سے سب بچوں کو بات سے بات نکالتے دیکھ رہی تھیں، ان کے خاموش ہونے کے بعد بولیں۔
سب بچے خاموشی سے امی جی کی طرف دیکھنے لگے۔
"عربی ایک بہت دلچسپ زبان ہے۔ اس میں بظاہر بڑے لمبے چوڑے الفاظ ہیں لیکن درحقیقت ہر لفظ صرف تین حروف کا بنا ہے۔ چار حروف بھی ہوتے ہیں لیکن بہت کم۔
ان تین حروف کو کسی بھی لفظ کا روٹ ورڈ کہتے ہیں، یعنی جڑ یا بنیادی لفظ۔"
تو ہم بات کر رہے تھے کہ 'زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟'
'اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے رہے ہیں!'
'اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کو عربی میں تسبیح کہا جاتا ہے!' "
امی جی نے دوبارہ وہیں سے سلسلہ جوڑا۔
"عام طور پر تسبیح کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں اس تسبیح کا خیال آتا ہے!"
امی جی نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح دکھائی۔
"پھر تسبیح کے خیال کے ساتھ ہی کیسی شخصیت ذہن میں آتی ہے؟"
انہوں نے پھر سوال کیا تاکہ بچے بور نہ ہوں اور موضوع سے بندھے رہیں۔
"آپ۔۔۔۔۔!"
"چوکیدار بابا"
"چاچا بابو "
"بوڑھے لوگ"
"پیر فقیر"
"مولوی صاحب "
" مہروش کی دادی "
مختلف جوابات سامنے آئے۔
"کبھی اپنا آپ ذہن میں آیا؟۔۔۔۔۔ نہیں ناں! ۔۔۔۔۔کیونکہ ہمارے ذہن میں تسبیح کے حوالے سے جو خاکہ بنا ہے ہم اپنے آپ کو اس سانچے میں فٹ نہیں دیکھتے۔ اسلئے کہ ہمیں تسبیح کے معنی ہی معلوم نہیں۔
"اب لفظ تسبیح کا غور سے جائزہ لیتے ہیں ۔ حرف بہ حرف۔"
" تسبیح کا روٹ ورڈ ہے " س ب ح یعنی سبح ۔
سَبَّحَ کے کئی معنی ہیں جیسے، تیرنا، پاکی، آزادی،خود کو اللہ کے سپر د کر دینا، پھیلنا، بہت کام کرنا، محنت کرنا وغیرہ۔۔۔۔۔"
"مگر اس کا اصطلاحی معنی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا کیونکہ وہی ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے۔ آزاد ہے۔"
"سَبَّحَ صرف اللہ کی تعریف کرنا نہیں، بلکہ مسلسل تعریف کرنا ہے۔ اس میں مسلسل کا معنی پایا جاتا ہے۔"
"واپس اسی لفظ پہ آتے ہیں جو سَبَّحَ کا اصل معنی ہے۔"
"سَبَّحَ کہتے ہیں ... تیر نے کو۔ چاہے وہ فضا میں ہو پانی میں یا خلا میں جیسے سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ "
"تیرنا کیا ہوتا ہے؟"
"تیرنے والے لفظ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے معنی میں کیوں استعمال کیا ؟"
"اب تصور کریں، کہ آپ نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہے اور درمیان میں سمندری یا فضائی راستہ ہے۔ کیسے پہنچیں گے؟"
"سمندری جہاز"
"ہوائی جہاز "
"کشتی بھی ہو سکتی ہے"
"ہیلی کاپٹر "
"ٹائر ٹیوب"
"تیر کر"
"تیراکی"
"سوئمنگ "
پھر مختلف جوابات آئے۔
"اب تیرنے کے عمل کو ذہن میں لائیں!"
امی جی نے ایک اور تصور کی کھڑکی کھولی۔
" اچھا یہ بتائیں کہ تیرنے کے لئے کیا چیز ضروری ہے؟"
"پانی"
"کیا آپ زمین پر تیرتے ہیں؟"
"نہیں! "
"کیوں ؟"
"کیونکہ آپ زمینی مخلوق ہیں اور زمین پر آپ چل سکتے ہیں۔ زمین آپ کا مسکن ہے۔ اس میں آپ کو ڈوبنے یا گرنے کا خوف نہیں جیسے پانی مچھلی کا اور ہوا پرندے کا مسکن ہوتی ہے۔ اپنے مسکن میں ہر مخلوق بے خوف ہوتی ہے۔
زمین انسان کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔ لیکن اگر سیلاب آجائے تو خوف آتا ہے۔
اسی طرح سمندر میں سمندری جہاز، کشتی اور ہوا میں ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہوئے بھی انسان بے یقینی کا شکار رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ نارمل حالات نہیں ہوتے۔ آپ کسی وقت بھی ڈوب سکتے ہیں۔
ایسی حالت میں آپ کو صرف ایک شے بچاتی ہے۔
تیرنا۔
اگر آپ تیرنا جانتے ہیں۔
اگر آپ کا ملاح کشتی کو پانی پر تیرانا جانتا ہے۔
اگر آپ کا پائلٹ جہاز فضا میں تیرانا جانتا ہے۔
تیرنے کا ہنر وہ شے ہے جو آپ کو شدید مشکل حالات میں محفوظ رکھتا ہے۔
تیرنا دراصل زندگی بچانے کا ذریعہ ہے۔ آپ کو نارمل حالات میں یعنی زمین پر اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن جیسے ہی حالات بدلیں گے آپ کو تیرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اور اگر آپ نے نارمل حالات میں اس کو نہیں سیکھا تو مشکل حالات میں آپ ایک ہی لمحے میں ڈوب جائیں گے۔ یعنی تیرنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو نارمل حالات میں بھی پریکٹس کرنا چاہیے تا کہ مشکل حالات میں وہ اس پر عمل کرتے ہوئے خود کو بچا سکے۔"
" کیا تیراکی صرف مشکل حالات میں ہی کام آتی ہے؟۔۔۔۔۔۔ معذرت آپ کی کاٹی!"
احمر نے معذرت خواہانہ انداز میں پوچھا۔
"اس کا جواب آپ سب دو گے! کیونکہ میں جاننا چاہوں گی کہ میری بات آپ کے دل میں کتنی حد تک اتری!"
امی جی نے استفہامیہ نظروں سے بڑے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہنہہ " مناہل(جو میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے) نے کھنکھار کر گلہ صاف کیا پھر گویا ہوئی۔"
"میرا خیال ہے کہ تیراکی کا عمل دخل ہماری روزمرہ زندگی میں بھی اتنا ہی ہے جتنا مشکل حالات میں، کیونکہ اگر ایک ڈاکٹر طب کے سمندر میں تیراکی میں مہارت حاصل نہیں کرے گا تو مریضوں کو بیماریوں کے طوفان سے کیسے بچائے گا۔"
"شاباش! میری جان یعنی میری تیراکی کی مہارت کام آ گئی!"
امی جی خوشی سے سرشار ہو گئیں۔
"جی بالکل امی جی اگر آپ جیسے اساتذہ علم کے سمندر میں تیراکی کی مہارت نہیں حاصل کریں گے تو، ہم جیسے نادان شاگرد زندگی کے اس پل صراط کو کیسے پار کر پائیں گے۔
ان کا سب سے بڑا پوتا ریحان( جس کا انجنیئرنگ میں آخری سال تھا۔) جوش جذبات سے آبدیدہ ہو کر گویا ہوا۔
"ہاں اور اگر آپ انجنیئرز اپنے علم کے سمندر میں تیراکی کی مہارت حاصل نہیں کرو گے تو تمام بلڈنگز، پل، سڑکیں وغیرہ ختم ہو جائیں، دنیا ویرانوں میں تبدیل ہو جائے۔ ہے ناں !"
احمر نے فوراً ریحان کے شعبے کی اہمیت اجاگر کی۔
" پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ تیراکی ہم سب پر فرض ہے؟ "
تہنیت نے بڑے طمطراق سے اکڑ کر کہا۔
"امی جی مجھ پر بھی تیراکی فرض ہے؟"
چار سالہ ننھی مسکان نے معصومیت سے پوچھا۔
"ہاں بالکل! آپ کا سمندر آپ کی عمر کے مطابق ہے۔ جس میں اپنا قرآن کا سبق، کلمے، نماز، سیکھنا، سکول کا سبق، کھانے ،پینے، سونے جاگنے کے آداب و اوقات کو درست رکھنا، بولنا، چلنا، اٹھنا، بیٹھنا، بڑوں کا کہنا ماننا وغیرہ شامل ہیں۔ یہی آپ کی تیراکی کی مشقیں ہیں۔
"میں اچھی تیراک بنوں گی، اور فرسٹ آؤں گی انشاءاللہ!"
"انشاءاللہ ! مگر آپ کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، بس اپنی دنیا سنوارنی ہے!"
امی جی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کافی دیر سے خاموش بیٹھی سارہ نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے امی جی کی طرف دیکھا اور ہچکچاتے ہوئے بولی۔
"امی جی سورہ الحدید کی پہلی آیت میں جو ذکر ہے۔ "
"اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔۔"
"تو کیا یہ ایسا ہو گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تیراکی کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔"
سب نے یکدم سارہ کی جانب حیرت سے دیکھا۔
"ظاہر ہے!"
مناہل بولی۔
"کیسے؟"
اس نے پھر سوال داغا۔
"ایک منٹ!"
امی جی نے ہاتھ اٹھا کر مناہل کو روکا۔
"سارہ کو ابھی پوری طرح سمجھ نہیں آئی، اور آپ سب اسے ایسے خشونت بھری نظروں سے مت دیکھو!"
" ہر انسان کے سمجھنے کا اپنا لیول ہوتا ہے۔ ابھی اس کی عمر بھی اتنی نہیں۔"
پھر سارہ سے مخاطب ہوئیں۔
" سارہ ابھی تک جتنی گفتگو تیراکی کے بارے میں ہوئی، تمہیں سمجھ آئی؟"
"جی! امی جی ، اتنا تو میں سمجھ گئی کہ ہر ایک کا اپنا اپنا سمندر ہے اپنی عمر، اپنی لیاقت، اپنے شعبے کے مطابق ہر ایک نے اپنی دنیا میں زندگی گزارنے کے مطابق تیراکی کے فن میں مہارت حاصل کرنی ہے، مگر مجھے سمجھ یہ نہیں آئی کہ اس آیت کے مطابق،۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ترجمہ ایسا ہو کہ،۔۔۔۔۔۔
"تیراکی کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔۔۔۔"
" تو آسمان اور زمین میں صرف انسان تو نہیں ہیں، پودے، پرندے اور جانور بھی ہیں، چاند، سورج، سیارے اور ستارے بھی ہیں اور جنات بھی تو ہیں !۔۔۔۔"
اب امی جی بھی حیران ہو کر سارہ کو دیکھ رہی تھیں۔ انہیں امید نہیں تھی کہ سارہ اتنا گہرائی میں سوچ سکتی ہے۔
" سارہ میرا خیال ہے کہ یہاں بیٹھے تمام افراد میں سے آپ سب پر سبقت لے گئی ہو۔ شاباش! ہمیں اتنی ہی گہرائی سے سوچنا چاہئیے۔ یہی تدبر ہے یہی سَبَّحَ ہے۔"
" بیٹا ! کائنات کی ہر شے جو جو نام آپ نے گنوائے وہ بھی اور جو نہیں گنوائے وہ بھی، یعنی تمام نباتات و جمادات، جن و انس، چرند و پرند، سب تیر رہے ہیں اپنے اپنے مدار میں ۔ سب اپنے اپنے بحر کے مشاق تیراک ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کے مدار کو پار کرنے کی کوشش نہیں کرتا یہی کائنات کا حسن ہے، اور اپنی حدود کا خیال رکھنا دراصل اللہ کی بڑائی اور بزرگی کا اعتراف ہے، یہی ثناء خوانی ہے۔ "
امی جی کا مفصل جواب سن کر سارہ نے ایک آسودہ لمبی سانس لی، جیسے اس کے ذہن کی بہت سی گرہیں ایک ساتھ کھل گئیں ہوں۔
یہی حال باقی بچوں کا بھی تھا۔
سب نے تخت پر پڑے جزدان سے تسبیح اٹھا لی۔ اور رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کا ورد شروع کر دیا۔