نوید ناظم
محفلین
ادب' زندگی کا وہ اثاثہ ہے کہ جس پر کسی مسافر کے سفر کی اساس قائم ہوتی ہے۔ اسے محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ بھی کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔ اصل میں ادب ایک مقام ہے جس پر صرف خوش نصیب فائز ہو سکتا ہے۔ سر کو جھکانا کسی مُردے کے بس کی بات نہیں ہے۔ طریقت کا سفر در حقیقت ادب کا سفر ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ آپ نے دور ایک کتا گزرتے ہوئے دیکھا' آپ اُسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے، تھوڑی دیر بعد وہی کتا جب واپس گزرا تو آپ دوبارہ کھڑے ہو گئے، شاگردوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ حضور معاملہ کیا ہے تو فرمایا، ہم ایک بار اپنے شَیخ حضرت بابا فرید رح کے مزار پر حاضر تھے تو وہاں ایک کتا دیکھا تھا کہ جس کا رنگ اِس گزرنے والے کتے سے ملتا ہے۔ ہمارے ظرف نے گوارا نہ کیا کہ ہم اس کے احترام سے منہ موڑ لیں جب کہ اس کا رنگ ہمارے شیخ کے شہر میں رہنے والے کتے سے ملتا ہو۔ یہ بات ایک عام آدمی کے لیے عیجب بات ہے مگر یہی بات ایک مسافر کے لیے نشانِ منزل ہے۔
اسی طرح ایک بار سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ بات کرتے ہوئے جب آپ کا رخ ایک جانب ہوتا تو آپ اچانک کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درس جاری رہا اور یہ عمل مسلسل ہوتا رہا۔ بعد میں جب پوچھا گیا کہ حضور یہ کیا تھا تو جواب ملا کہ اُس جانب ہمارے شَیخ کا مزارِ اقدس ہے اور ہمارے ظرف نے یہ بات گوارا نہ کی کہ ہمارا رخ ہمارے شَیخ کے مزار کی طرف ہو اور ہم پھر بھی بیٹھے رہیں۔ عوام کے لیے یہ دونوں واقعات عام سے واقعات ہیں جس پر بحث ہو سکتی ہے، دلیلیں اور تاویلیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مگر کسی بھی سالک کے لیے یہ واقعات اصولِ طریقت میں سے ہیں۔ اصل میں آج ہم ایک عجب دور سے گزر رہے ہیں۔ علم کے زعم نے حفظِ مراتب کا علم بھی چھین لیا۔ بے جا بد گمانی کی وجہ سے چھوٹے اپنے بڑوں کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں اور بڑے بھی چھوٹوں پر شفقت نہیں فرماتے۔ ہر انسان ہر کسی سے بیزار ہے۔۔۔۔ عجب المیہ ہے۔ کتابوں کا ڈھیر بھی اندر کا اندھیرا دور نہ کر سکا۔ وہ صراحی جو جھک نہ سکے وہ بھری کیسے جائے، علم کا زعم نکلے نہ تو علم داخل کیسے ہو۔۔۔۔۔ بات بتانے والے کا ادب نہ ہو تو بات بنے کیسے۔ در حقیقت ادب، معرفت کا زینہ بھی ہے اور اس کا حصہ بھی۔ یہی وہ راہ ہے جو انسان کو گمراہ ہونے سے بچاتی ہے۔ ادب کا راستہ ہی محبت کا راستہ ہے۔ اس میں محبوب کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے۔ وہ شخص مارا گیا جس نے اُس آنکھ کے خلاف لب کھولے کہ جس آنکھ نے محبوب کا چہرہ دیکھا ہو۔ جس راستے سے محبوب گزر کر جائے اس کی خاک سرمہ بن جاتی ہے اور وہ شخص جس کے دل سے محبوب گزرا ہو وہ کیا ہو گا؟ بات قابلِ غور ہے۔۔۔ بات سفر کی ہے' اپنے ذاتی سفر کی۔ بات علوم پر دسترس کی نہیں ہے۔۔۔ بات محبت اور عقیدت کی ہے۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بات ادب کی ہے!!
اسی طرح ایک بار سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ بات کرتے ہوئے جب آپ کا رخ ایک جانب ہوتا تو آپ اچانک کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درس جاری رہا اور یہ عمل مسلسل ہوتا رہا۔ بعد میں جب پوچھا گیا کہ حضور یہ کیا تھا تو جواب ملا کہ اُس جانب ہمارے شَیخ کا مزارِ اقدس ہے اور ہمارے ظرف نے یہ بات گوارا نہ کی کہ ہمارا رخ ہمارے شَیخ کے مزار کی طرف ہو اور ہم پھر بھی بیٹھے رہیں۔ عوام کے لیے یہ دونوں واقعات عام سے واقعات ہیں جس پر بحث ہو سکتی ہے، دلیلیں اور تاویلیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مگر کسی بھی سالک کے لیے یہ واقعات اصولِ طریقت میں سے ہیں۔ اصل میں آج ہم ایک عجب دور سے گزر رہے ہیں۔ علم کے زعم نے حفظِ مراتب کا علم بھی چھین لیا۔ بے جا بد گمانی کی وجہ سے چھوٹے اپنے بڑوں کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں اور بڑے بھی چھوٹوں پر شفقت نہیں فرماتے۔ ہر انسان ہر کسی سے بیزار ہے۔۔۔۔ عجب المیہ ہے۔ کتابوں کا ڈھیر بھی اندر کا اندھیرا دور نہ کر سکا۔ وہ صراحی جو جھک نہ سکے وہ بھری کیسے جائے، علم کا زعم نکلے نہ تو علم داخل کیسے ہو۔۔۔۔۔ بات بتانے والے کا ادب نہ ہو تو بات بنے کیسے۔ در حقیقت ادب، معرفت کا زینہ بھی ہے اور اس کا حصہ بھی۔ یہی وہ راہ ہے جو انسان کو گمراہ ہونے سے بچاتی ہے۔ ادب کا راستہ ہی محبت کا راستہ ہے۔ اس میں محبوب کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے۔ وہ شخص مارا گیا جس نے اُس آنکھ کے خلاف لب کھولے کہ جس آنکھ نے محبوب کا چہرہ دیکھا ہو۔ جس راستے سے محبوب گزر کر جائے اس کی خاک سرمہ بن جاتی ہے اور وہ شخص جس کے دل سے محبوب گزرا ہو وہ کیا ہو گا؟ بات قابلِ غور ہے۔۔۔ بات سفر کی ہے' اپنے ذاتی سفر کی۔ بات علوم پر دسترس کی نہیں ہے۔۔۔ بات محبت اور عقیدت کی ہے۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بات ادب کی ہے!!
آخری تدوین: