راشد اشرف
محفلین
خیر اندیش
راشد اشرف
ملاقات پبلیکیشنز، پشاور سے جنوری 2013 میں شائع ہونے والی ناصر علی سید کی کتاب ”ادب کے اطراف میں“ کے تعارفی مضمون میں محمود شام لکھتے ہیں ” پاک چائنا فرینڈ شپ ہاوس کے کمرہ نمبر 105میں جب کتاب کے دکھ میں مبتلا بڑے بڑے افسانہ نگار ،شاعر، مصنف تجاویز کے انبار لگا رہے تھے کہ کتاب کلچر کیسے فروغ پا سکتا ہے، کتاب کی اقلیم کیسے بحال ہوسکتی ہے، میرے ساتھ ایک قدرے فربہ شخصیت لنچ باکس سے لذت کام و دہن میں مصروف تھی۔ “
ان سطور کو پڑھتے ہی مجھے عقیل عباس جعفری کا بارے صاحب کتاب ایک جملہ یاد آگیا ۔۔۔” آپ کی ملاقات ہے ناصر علی سید سے ؟ بڑے مزے کے آدمی ہیں“
شام صاحب کے بیان کردہ منظر میں ” لنچ باکس“ اور عقیل صاحب کے فقرے میں ”مزے کے آدمی“ جیسے ذہن میںگڈ مڈ ہوگئے ہوں ۔ ۔ اور درمیان سے واقعتاً گویا ایک ”مزے کے آدمی “کے خد وخال ابھر آئے ہوں۔ راقم کی ملاقات تو درکنار ، کبھی فون پر بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ادب سرائے کے ذریعے مکالمہ ایک عرصے سے جاری ہے۔
’ادب کے اطراف میں‘ کے ابتدائی مطالعے کے دوران بھی ایسا ہی محسوس ہوا جیسے مکرمی ناصر علی سید نے اس کتاب کو یونہی ہنستے کھیلتے لکھا ہو ۔ ۔ ۔ایک ہاتھ میں لنچ باکس اور دوسرے میں قلم ۔ ۔ ۔ لیکن پھر لکھنے والے کا لب و لہجہ سنجیدہ ہوتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ یاد رفتگاں کے باب میں جیسے خون جگر سے نقش بنائے گئے ہوں ۔۔۔بچھڑ جانے والے دوستوں کا احوال۔۔۔آج کی ’بے رحم‘ ادبی دنیا نے شہر پشاور کی ان ادبی شخصیات کے نام بھی نہ سنے ہوں جن کا نوحہ مصنف نے مختلف کالمز میں بیان کردیا ہے ۔ ۔ ۔ ”میں آدھے سے زیادہ مر چکا ہوں“۔۔۔۔”میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوتے“۔۔۔یہ چند عنوانات ہیں جن میں دم توڑتے احباب کی بے بسی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔اور پھر ان کالموں میں موسم کی خوبصورتی بالخصوص بارش اور بھیگی رت کی باتیں ہیں ۔۔۔زلف یار کی باتیں ہیں ۔۔۔ اردو ادب کا بیان ہے۔۔۔اپنے شہر سے محبت لفظ لفظ سے عیاں ہے۔
اتفاق دیکھیے کہ شام صاحب کو ایک کالم سے جو جملہ سب سے زیادہ پسند آیا، اسی پر راقم کی نظریں بھی جا ٹھہری تھیں:
” اکیلا ہونا ہر چیز کو اجنبی سا کردیتا ہے۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ دوستی اور محبت کی چھتری سے باہر مت نکلو کہ ان دونوں جذبوں کی کوئی ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔کوئی سبکدوشی نہیں ہوتی۔اب تم اتنے دن بعد آئے ہو تو اب افسر بھی نہیں رہے۔مگر میرا در کھلا ہے اور کھلا ہی رہے گا۔“
مزید چند "کیفیات" ملاحظہ ہوں:
گزشتہ دو دنوں سے موسم اس طرح بھیگا بھیگا ہے، چہچہاتے گنگناتے پرندے بھی پروں میں سمٹے سمٹے بیٹھے ہیں۔ مجھے بھی آج یادوں کی نیلاہٹ نے گھیرا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے اتنے چولے بدلے اور زمانے نے اتنی کروٹیں لیں کی حیرانی ہوتی ہے۔ یوں لاگتا ہے کہ ہم صدیوں سے یہاں موجود ہیں کہ رہن سہن اور تہذیب و تمدن میں تبدیلی دریا کی طرح رخ بدلنے میں صدیوں کی متقاضی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منزل عشق کی ہے جس میں دیوانگی کے دیپ جلتے ہیں، خود فراموشی کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ازخودرفگتی کے اجالے رستوں کا تعین کرتے ہیں۔ عشق تو اپنی عملداری میں صرف سرینڈر ہونے والوں کو ویزے جاری کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شاید شاعری کی خصلت میں ہے کہ وہ نامعلوم کو ہمہ وقت تلاش کرتی رہتی ہے۔ دوسری شے جو شاعری کو بے حد مرغوب ہے، وہ پیراڈاکس بنانا ہے۔ ایسی شے جو بیک وقت ہو بھی اور نہیں بھی ہو، وہ جمع بھی ہو منفی بھی، سیاہ بھی ہو سفید بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد بشیر کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ یہ موسیقی کا پروگرام بہت خوبصورت ہے، کبھی دیکھ لیا کرو۔ کہنے لگا میرے پاس ٹی وی نہیں ہے۔ میں نے کہا استاد جی! آپ ٹی وی بھی ریڈیو کی طرح سنتے ہیں ؟ ۔۔۔۔ کہنے لگا کیا کروں! دیکھنے کے لیے ماں ہے نا! بس اسے ہی دیکھتا رہتا ہوں تو سرشار ہوجاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر معین اختر پر کالم جس کے آخر میں انہیں یوں یاد کیا ہے:
کس سے پوچھوں میں تیرا پتہ لوگ اڑاتے ہیں میری ہنسی
تیری راہوں سے ہوں بے خبر دیکھ آکر میری بے بسی
زخم دل کے دکھاوں کسے مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے
کل 342صفحات کی اس کتاب کی قیمت محض تین سو روپے ہے۔ ناشر کا پتہ یہ ہے:
ملاقات پبلیکیشنز، پشاور۔
34شادمان اسٹریٹ۔گل بہار 3۔ پشاور
راشد اشرف
ملاقات پبلیکیشنز، پشاور سے جنوری 2013 میں شائع ہونے والی ناصر علی سید کی کتاب ”ادب کے اطراف میں“ کے تعارفی مضمون میں محمود شام لکھتے ہیں ” پاک چائنا فرینڈ شپ ہاوس کے کمرہ نمبر 105میں جب کتاب کے دکھ میں مبتلا بڑے بڑے افسانہ نگار ،شاعر، مصنف تجاویز کے انبار لگا رہے تھے کہ کتاب کلچر کیسے فروغ پا سکتا ہے، کتاب کی اقلیم کیسے بحال ہوسکتی ہے، میرے ساتھ ایک قدرے فربہ شخصیت لنچ باکس سے لذت کام و دہن میں مصروف تھی۔ “
ان سطور کو پڑھتے ہی مجھے عقیل عباس جعفری کا بارے صاحب کتاب ایک جملہ یاد آگیا ۔۔۔” آپ کی ملاقات ہے ناصر علی سید سے ؟ بڑے مزے کے آدمی ہیں“
شام صاحب کے بیان کردہ منظر میں ” لنچ باکس“ اور عقیل صاحب کے فقرے میں ”مزے کے آدمی“ جیسے ذہن میںگڈ مڈ ہوگئے ہوں ۔ ۔ اور درمیان سے واقعتاً گویا ایک ”مزے کے آدمی “کے خد وخال ابھر آئے ہوں۔ راقم کی ملاقات تو درکنار ، کبھی فون پر بات بھی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ادب سرائے کے ذریعے مکالمہ ایک عرصے سے جاری ہے۔
’ادب کے اطراف میں‘ کے ابتدائی مطالعے کے دوران بھی ایسا ہی محسوس ہوا جیسے مکرمی ناصر علی سید نے اس کتاب کو یونہی ہنستے کھیلتے لکھا ہو ۔ ۔ ۔ایک ہاتھ میں لنچ باکس اور دوسرے میں قلم ۔ ۔ ۔ لیکن پھر لکھنے والے کا لب و لہجہ سنجیدہ ہوتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ یاد رفتگاں کے باب میں جیسے خون جگر سے نقش بنائے گئے ہوں ۔۔۔بچھڑ جانے والے دوستوں کا احوال۔۔۔آج کی ’بے رحم‘ ادبی دنیا نے شہر پشاور کی ان ادبی شخصیات کے نام بھی نہ سنے ہوں جن کا نوحہ مصنف نے مختلف کالمز میں بیان کردیا ہے ۔ ۔ ۔ ”میں آدھے سے زیادہ مر چکا ہوں“۔۔۔۔”میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوتے“۔۔۔یہ چند عنوانات ہیں جن میں دم توڑتے احباب کی بے بسی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔اور پھر ان کالموں میں موسم کی خوبصورتی بالخصوص بارش اور بھیگی رت کی باتیں ہیں ۔۔۔زلف یار کی باتیں ہیں ۔۔۔ اردو ادب کا بیان ہے۔۔۔اپنے شہر سے محبت لفظ لفظ سے عیاں ہے۔
اتفاق دیکھیے کہ شام صاحب کو ایک کالم سے جو جملہ سب سے زیادہ پسند آیا، اسی پر راقم کی نظریں بھی جا ٹھہری تھیں:
” اکیلا ہونا ہر چیز کو اجنبی سا کردیتا ہے۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ دوستی اور محبت کی چھتری سے باہر مت نکلو کہ ان دونوں جذبوں کی کوئی ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔کوئی سبکدوشی نہیں ہوتی۔اب تم اتنے دن بعد آئے ہو تو اب افسر بھی نہیں رہے۔مگر میرا در کھلا ہے اور کھلا ہی رہے گا۔“
مزید چند "کیفیات" ملاحظہ ہوں:
گزشتہ دو دنوں سے موسم اس طرح بھیگا بھیگا ہے، چہچہاتے گنگناتے پرندے بھی پروں میں سمٹے سمٹے بیٹھے ہیں۔ مجھے بھی آج یادوں کی نیلاہٹ نے گھیرا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے اتنے چولے بدلے اور زمانے نے اتنی کروٹیں لیں کی حیرانی ہوتی ہے۔ یوں لاگتا ہے کہ ہم صدیوں سے یہاں موجود ہیں کہ رہن سہن اور تہذیب و تمدن میں تبدیلی دریا کی طرح رخ بدلنے میں صدیوں کی متقاضی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منزل عشق کی ہے جس میں دیوانگی کے دیپ جلتے ہیں، خود فراموشی کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ازخودرفگتی کے اجالے رستوں کا تعین کرتے ہیں۔ عشق تو اپنی عملداری میں صرف سرینڈر ہونے والوں کو ویزے جاری کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شاید شاعری کی خصلت میں ہے کہ وہ نامعلوم کو ہمہ وقت تلاش کرتی رہتی ہے۔ دوسری شے جو شاعری کو بے حد مرغوب ہے، وہ پیراڈاکس بنانا ہے۔ ایسی شے جو بیک وقت ہو بھی اور نہیں بھی ہو، وہ جمع بھی ہو منفی بھی، سیاہ بھی ہو سفید بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد بشیر کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ یہ موسیقی کا پروگرام بہت خوبصورت ہے، کبھی دیکھ لیا کرو۔ کہنے لگا میرے پاس ٹی وی نہیں ہے۔ میں نے کہا استاد جی! آپ ٹی وی بھی ریڈیو کی طرح سنتے ہیں ؟ ۔۔۔۔ کہنے لگا کیا کروں! دیکھنے کے لیے ماں ہے نا! بس اسے ہی دیکھتا رہتا ہوں تو سرشار ہوجاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر معین اختر پر کالم جس کے آخر میں انہیں یوں یاد کیا ہے:
کس سے پوچھوں میں تیرا پتہ لوگ اڑاتے ہیں میری ہنسی
تیری راہوں سے ہوں بے خبر دیکھ آکر میری بے بسی
زخم دل کے دکھاوں کسے مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے
کل 342صفحات کی اس کتاب کی قیمت محض تین سو روپے ہے۔ ناشر کا پتہ یہ ہے:
ملاقات پبلیکیشنز، پشاور۔
34شادمان اسٹریٹ۔گل بہار 3۔ پشاور