سید ذیشان
محفلین
خشک اور سرد
یہ جھان وسیع۱
جس کی وسعت
عقل و دانش کے دام موہوم سے بالا تر
روشنی کی مسافت ازل سے وسیع
اربہا کہکشاوں کا مدفن۱
کچھ کونے ہیں ایسے
جہاں کسی روشنی کی رمق بھی نہیں
کسی زرے کے پائے خیال کا رسد تک نہیں
اس جہاں کا یہ عکس میرا دل ہی تو ہے
یہ بھی ہے بیش بہا تمناوں کا مدفن
جس میں آہوں اور سسکیوں کے گوہر ہیں پنہاں
ایسا تاریک جیسے
کسی ضو کے رخ تاباں کے دیدار سے ہو نا واقف
بس اک محبت۔۔۔۔
ارض زندہ کی مانند
کہکشاوں کے شہر مدفون میں
ایک رمق امید
زندگی کا سہارا
اجنبی بزم میں ایک مانوس نگہ
ساز کا ایک جھونکا
سریلے سروں کی لہر
آنکھ چندھیانے والی روشنی کی کرن
ہیں یہ سب۔۔۔
اور اس سے بھی زیادہ۔۔۔۔
کئ زیادہ۔۔۔۔
جس کا الفاظ رکھ نہ سکیں گے بھرم
کائنات بے سرحد
کی وسعت میں میں ایک نقطے کی مانند
بحر بے کنار میں تیرتا ہوا اک زرہ
وقت کے ریگزار میں بے وقعت اک لمحہ
یہ میرا وجود اتنا بے معنی؟
اتنا ھیچ و بے مایہ؟
زندگی، جو کہ پابند گردش صبح و شام
ایک ان دیکھے محور کی گردش میں گم
ہے جو میری صدا
کائنات کے شور ازل میں سرگرداں
اپنی پہچان کی ٹوہ میں لگی
میں اصل میں لاروا نما
ٹہنی ہے جس کی کل کائنات
یک رنگ و یک بیں
بس ایک دنیا سے واقف
جو ہے زرہ نما
جو بھی زرے میں خود ہی مگن ہو گیا
وہ ہے زرہ بنا
تتلی کے پر، رنگوں کی مالا
اک نئے دور، اک نئی زندگی کی علامت
لاروے کو ٹہنی کی دنیا سے
یک مائگی کے سحر سے
خود بینی کے دام سے
پرواز کر کے
کرتے ہیں اک نئی
دنیائے رنگ و خوشبو
پر تغیر و لزت
سے متعارف۔۔۔۔