سید ذیشان
محفلین
ایک پرانی نظم جو کہ کچھ ترمیم کے بعد یہاں پیش کر رہا ہوں۔
ارتقا
یہ مسکن ہمارا ،یہ عالم ہمارا
کہ وسعت کو جس کی، نہیں ہے کوئی استعارہ
یہ بنجر ہے سارا
مگر پھر بھی دامِ خرد سے تو یہ ماسوا ہے
کئی کہکشاؤں کا مدفن یہاں ہے
کئی کونے پھر بھی ہیں ایسے۔۔۔
جہاں پر کسی روشنی کی رمق تک نہیں ہے
کسی ذر ے کی سوچ کی بھی چمک تک نہیں ہے!
٭٭
مرے دل کا سایہ گو اس پر پڑا ہے؟
یا میرا ہی د ل ایسا اک آئینہ ہے۔۔
جو سب تیرگی منعکس کر رہا ہے!
مرے دل میں بھی، کہکشاؤں کی مانند، سب آہوں کے گوہر ہیں پنہاں
انہیں میں اسی شہرِ مدفون میں،پچھلی آہوں ،کے سرہانے دفنا گیا ہوں
٭٭
بس اک ہے محبت!
جو سب کہکشاؤں کے مدفون قریہ میں ہے ارضِ زندہ کی مانند!
کہ اس کے سوا اور کہیں زندگی کی علامت نہیں ہے
یہ اک نیلا نقطہ، یونہی زندگی کا سہارا، کہ جیسے۔۔۔
کسی اجنبی بزم میں اک نگہ خو بر و کی
یا پھر ساز کا ایسا جھونکا جو کانوں میں رس گھولتا ہو
یا پھر صبح سورج کے اٹھنے کا منظر!
٭٭
جہانِ بے سرحد میں ہوں ایک نقطے کی مانند
میں ہوں وقت کے دشت میں ایک ذرے کی مانند
بے ساحل سمندر میں اک تیرنے والے قطرے کی مانند
میں کچھ بھی نہیں ہوں!!!
بھلا میری وقعت ہی کیا ہے؟
ہیں جیون کے سب روز و شب وقت لہروں میں جکڑے
صدا اپنی، عالم کے شورِ ازل میں، دیوانوں کی مانند،میں ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں
سبھی ہم ہیں، گو اصل میں، ٹہنی پر رینگنے والے اک لاروے کے ہی جیسے
ہو ٹہنی ہی بس جس کی دنیا۔۔
اسی پر یہ ہر ایک پل رینگتا ہو
یہ ذر ے میں اتنا مگن ہو گیا ہے کہ خود بھی اک ذر ہ بنا ہے
پروں سے، یہ ادراک کے، جونہی تتلی بنے گا
نئی رنگ وخوشبو کی دنیا کو تب دیکھ لے گا
٭٭
"پس اک مشت مٹی
میں شامل ہیں دنیائیں لاکھوں
پس اک پل میں بھی ہیں
کئی صدیاں ٹھہریں"1
رگوں میں ہے پھولوں کے پنہاں ازل کی کہانی
مرے جسم، مجھ کو بنانے کی خاطر، مٹے ہونگے خورشید کتنے؟
اور ان سب کے کندن ،مرا جسم و پیکر ہیں ڈھالے!
گر اک لمحہ ہوں میں۔۔۔
پر اک داستاں ہوں ازل اور ابد کی
گو میں ایک ذ رہ ہوں پھر بھی۔۔۔
ازل کا سلوک و سفر طے کیا ہے
سبھی کہکشاؤں، ستاروں کی میں ارتقا ہوں!!
1۔ ان چار لائنو ںکا خیال ولیم بلیک کے اشعار سے ماخوذ ہے
ارتقا
یہ مسکن ہمارا ،یہ عالم ہمارا
کہ وسعت کو جس کی، نہیں ہے کوئی استعارہ
یہ بنجر ہے سارا
مگر پھر بھی دامِ خرد سے تو یہ ماسوا ہے
کئی کہکشاؤں کا مدفن یہاں ہے
کئی کونے پھر بھی ہیں ایسے۔۔۔
جہاں پر کسی روشنی کی رمق تک نہیں ہے
کسی ذر ے کی سوچ کی بھی چمک تک نہیں ہے!
٭٭
مرے دل کا سایہ گو اس پر پڑا ہے؟
یا میرا ہی د ل ایسا اک آئینہ ہے۔۔
جو سب تیرگی منعکس کر رہا ہے!
مرے دل میں بھی، کہکشاؤں کی مانند، سب آہوں کے گوہر ہیں پنہاں
انہیں میں اسی شہرِ مدفون میں،پچھلی آہوں ،کے سرہانے دفنا گیا ہوں
٭٭
بس اک ہے محبت!
جو سب کہکشاؤں کے مدفون قریہ میں ہے ارضِ زندہ کی مانند!
کہ اس کے سوا اور کہیں زندگی کی علامت نہیں ہے
یہ اک نیلا نقطہ، یونہی زندگی کا سہارا، کہ جیسے۔۔۔
کسی اجنبی بزم میں اک نگہ خو بر و کی
یا پھر ساز کا ایسا جھونکا جو کانوں میں رس گھولتا ہو
یا پھر صبح سورج کے اٹھنے کا منظر!
٭٭
جہانِ بے سرحد میں ہوں ایک نقطے کی مانند
میں ہوں وقت کے دشت میں ایک ذرے کی مانند
بے ساحل سمندر میں اک تیرنے والے قطرے کی مانند
میں کچھ بھی نہیں ہوں!!!
بھلا میری وقعت ہی کیا ہے؟
ہیں جیون کے سب روز و شب وقت لہروں میں جکڑے
صدا اپنی، عالم کے شورِ ازل میں، دیوانوں کی مانند،میں ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں
سبھی ہم ہیں، گو اصل میں، ٹہنی پر رینگنے والے اک لاروے کے ہی جیسے
ہو ٹہنی ہی بس جس کی دنیا۔۔
اسی پر یہ ہر ایک پل رینگتا ہو
یہ ذر ے میں اتنا مگن ہو گیا ہے کہ خود بھی اک ذر ہ بنا ہے
پروں سے، یہ ادراک کے، جونہی تتلی بنے گا
نئی رنگ وخوشبو کی دنیا کو تب دیکھ لے گا
٭٭
"پس اک مشت مٹی
میں شامل ہیں دنیائیں لاکھوں
پس اک پل میں بھی ہیں
کئی صدیاں ٹھہریں"1
رگوں میں ہے پھولوں کے پنہاں ازل کی کہانی
مرے جسم، مجھ کو بنانے کی خاطر، مٹے ہونگے خورشید کتنے؟
اور ان سب کے کندن ،مرا جسم و پیکر ہیں ڈھالے!
گر اک لمحہ ہوں میں۔۔۔
پر اک داستاں ہوں ازل اور ابد کی
گو میں ایک ذ رہ ہوں پھر بھی۔۔۔
ازل کا سلوک و سفر طے کیا ہے
سبھی کہکشاؤں، ستاروں کی میں ارتقا ہوں!!
1۔ ان چار لائنو ںکا خیال ولیم بلیک کے اشعار سے ماخوذ ہے