آج پہلی دفعہ یہ لڑی نظر سے گذری۔ بہت اچھی لڑی ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔
مندرجہ ذیل اقتباسات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کچھ وضاحت کرنا چاہوں گا۔
کیا کوئی اس شعر کی تشریح کر دے گا وہ بھی مشکل الفاظ کے معانی کے ساتھ جیسے کہ (زلف کاسرہونا) وغیرہ!
آہ کو چاہئے اک عمر اثر کے ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
زلف کا سر ہونا ۔۔۔ اسے یوں سمجھئے جیسے شاعر نے زلف کو پہاڑ سے تشبیہ دی ہے جسے سر کرنے کے لیے اتنا وقت درکار ہے کہ شاعر کو اپنی زندگی میں یہ کام ہوتا نظر نہیں آتا۔
تاہم یہ بات دلیل کے اعتبار سے درست معلوم نہیں ہوتی۔ یعنی آج کے دور میں ایسا شعر کہا جاتا تو تنقید شدید ہوتی ۔۔۔
جو لوگ کبوتر پالتے ہیں وہ اس اختراع سے بخوبی واقف ہیں۔ جب کوئی نیا کبوتر خرید کر لایا جاتا ہے تو اس کے پر کاٹ دئیے جاتے ہیں تا کہ نئے آشیانے سے مانوس ہونے کے عرصہ میں یہ اُڑ کر چلا نہ جائے اورجب تک اس کے پر واپس نہیں آتے اس دوران یہ اختراع استمعال ہوتی ہے کہ "ابھی کبوتر سر نہیں ہوا". مطلب پوری طرح اُڑنے کے قابل نہیں ہوا۔
اس شعر میں میں شاعر نے "سر ہونا" یعنی پوری طرح اُڑان بھرنے کے قابل ہونے کو محبوب کے مکمل جوان ہونے سے تشبیح دی ہے۔ سمجھ تو آگئی ہو گی مگر پھر بھی مکمل وضاحت کے لیے مزید عرض ہے کہ:-
شاعر نے کسی ایسے نابالغ (ٹین ایج) پری چہرہ اور خوبصورت کی شوخیاں و انداز دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا اور سوچا کہ ابھی سے ہی اس کے ناز نخروں کا جواب نہیں ہے تو جب یہ محبوب جوان ہوگا تب کیا عالم ہوگا۔ اور پھر ساتھ ہی اپنی ڈھلتی عمر کا سوچ کر آہ بھری کہ جب یہ جوان ہوگا تب پتہ نہیں اسے دیکھنے کے لیے میں زندہ بھی رہوں گا یا نہیں۔
اب اس شعر کو دوبارہ پڑھیں
آہ کو چاہیے اک عمر (مزید کئی سال) اثر (جوان) ہونے تک
کون جیتا ہے (پتہ نہیں تب تک میں زندہ بھی ہوں گا نہیں) تیری زلف کے سر (تیرے پوری طرح جوان) ہونے تک۔
تشریح غیر میعاری لگے تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔