اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
یہ آپ کی کتاب کے تین صفحات ہیں :

آدم اسمتھ // سماجیات //
آدم خوری // سماجیات //
آبادی کا مسئلہ // سماجیات //
ابن خلدون // سماجیات //
اجتماعی برتاؤ // سماجیات //
اجتنابی رشتے // سماجیات //
اجنبیت // سماجیات //
ادارہ // سماجیات //
ارتقاء // سماجیات //
ارسطو // سماجیات //
اسکیمو // سماجیات //
افلاطون // سماجیات //
اقتدار اور خاندانی نظام // سماجیات //
اقلیتیں // سماجیات //
انتشار // ثقافتی // // سماجیات //
انجذاب // سماجیات //
انجمن // سماجیات //
انحرافی برتاؤ // سماجیات //
انسانی ماحولیات // سماجیات //
ایڈورڈ برنٹ ٹائلر // سماجیات //
ایلس کننگھم فلیچر // سماجیات //
ایمائیل درکھائم // سماجیات //
بال سنگھار // سماجیات //
برتاوی علوم // سماجیات //
سماجی اتصال // سماجیات //
برونسلامیلی نوسکی // سماجیات //
بناؤ سنگھار // سماجیات //
بنٹو // سماجیات //
بین عمل // سماجیات //
پٹرم الکٹنڈروچ سوروکن // سماجیات //
تراش خراش // سماجیات //
سماجی ترقی // سماجیات //
سماجی انصاف // سماجیات //
پختون // سماجیات //
ترسیل // سماجیات //
ترسیلی مواد کا تجزیہ // سماجیات //
تصادم // سماجیات //
تفاعلی تجزیہ // سماجیات //
تعاون // سماجیات //
تعصب // سماجیات //
تمدنی نفوذ یا انتشار // سماجیات //
جارج سمل // سماجیات //
جان م۔ کوپر // سماجیات //
جین بوڈن // سماجیات //
جدت // سماجیات //
جرم // سماجیات //
جرمیات // سماجیات //
جوا // قمار بازی // // سماجیات //

اگر تو ایسے ہی ٹائپ کرنا ہے تو یہ تو بہت ہی آسان ہے۔ یہ میں نے ایم ایس ورڈ میں ٹائپ کیا ہے۔ ورڈ کی فائل بھی منسلک ہے۔
 

Attachments

  • File Test.ZIP
    9 KB · مناظر: 16
جو پی ڈی ایف فائل بطور نمونہ ارسال کی گئی ہے، اگر اس سیریز کے تمام صفحات ویسے ہی ہیں تو اس کی ٹائپنگ کو مزید ایفیشئینٹ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب میں کئی علوم سے متعلقہ الفاظ کی ذخیرہ ہے۔ مثلاً سماجیات، معاشیات، فلکیات، طبعیات۔ اگر قصہ یوں ہی ہے جیسا ہم سمجھ رہے ہیں تو سہل ترین طریقہ یہ ہوگا کہ بجائے "الکاتب کالحمار" کے مصداق اس کی فوٹو کاپی کرنے کے محض اس کی اساس کو نقل کر لیا جائے، اس طرح کی اس میں موجود کوئی بھی معلومات ضائع نہ ہو۔ اس کا سہل ترین طریقہ یہ ہے کہ الگ الگ شعبہ جات کی علیحدہ ٹیکسٹ فائلیں بنا لی جائیں۔ اور ان میں محض الفاظ لکھ لئے جائیں، ہر سطر میں متعلقہ شعبہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کتابی متن اور ڈیجیٹل متن کے خواص ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی انھیں یکساں طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت کے مطابق تبدیلی میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح شمشاد بھائی کا کام ذیل میں موجود نمونے کے مثل ہو جائے گا۔ اور اس تبدیلی کے بعد اس فائل کو ٹائپ کرنے میں 1165 کیبورڈ ہٹ کے بجائے محض 483 بار انگلیوں کا کیبورڈ سے تصادم ہوگا۔

== سماجیات ==

آدم اسمتھ
آدم خوری
آبادی کا مسئلہ
ابن خلدون
اجتماعی برتاؤ
اجتنابی رشتے
اجنبیت
ادارہ
ارتقاء
ارسطو
اسکیمو
افلاطون
اقتدار اور خاندانی نظام
اقلیتیں
انتشار، ثقافتی
انجذاب
انجمن
انحرافی برتاؤ
انسانی ماحولیات
ایڈورڈ برنٹ ٹائلر
ایلس کننگھم فلیچر
ایمائیل درکھائم
بال سنگھار
برتاوی علوم
سماجی اتصال
برونسلامیلی نوسکی
بناؤ سنگھار
بنٹو
بین عمل
پٹرم الکٹنڈروچ سوروکن
تراش خراش
سماجی ترقی
سماجی انصاف
پختون
ترسیل
ترسیلی مواد کا تجزیہ
تصادم
تفاعلی تجزیہ
تعاون
تعصب
تمدنی نفوذ یا انتشار
جارج سمل
جان م۔ کوپر
جین بوڈن
جدت
جرم
جرمیات
جوا، قمار بازی
 

hackerspk

محفلین
ایک تو آپ اپنا نام ایسے چُھپا رہے ہیں جیسے لڑکیاں اپنی عمر چھپاتی ہیں۔ ارے بھائی نام معلوم ہو تو کلام کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

کتاب پر صفحہ نمبر ہونا ضروری ہے۔ وہ اس لیے کہ میں کسی کو کچھ صفحے ٹائپ کرنے کے لیے کہوں کہ فلاں صفحے سے فلاں صفحے تک ٹائپ کر دے تو یہ کیسے ممکن ہو گا۔
صفحہ نمبر دینے کے لیے ایک چھوٹی سی کمانڈ دینے کی زحمت کرنی پڑے گی۔

مزید یہ کہ کتاب کا نام بتا دیں۔

دوسری بات یہ کہ آپ نے جو پی ڈی ایف کے 40 صفحے rar. کے فارمیٹ میں بھیجے ہیں ان کا حجم 5 ایم بی ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

کتاب کا نام: جامع اردو انسائیکلوپیڈیا
حجم 600 ایم بی تقریبا
صفحات کی کمانڈ دینا نہیں آتی
آن لائن ربط : http://www.ildc.in/urdu/htm/UrduEncyclopidia.htm
نمونہ کی پی ڈی ایف انسائکلوپیڈیا کے ایک حصے کی فہرست ہے صرف انسائیکلوپیڈیا بھی مسودہ ہے مکمل کمپوز نہیں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۱

تاثیر، ڈاکٹر محمد دین // ۱۹۵۸ - ۱۹۰۲ // : آبا و اجداد کا قدیمی وطن کشمیر تھا۔ تاثیر لاہور میں پیدا ہوئے۔ دو برس کے تھے کہ ماں باپ کا انتقال ہو گیا۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ میں پائی۔ مشن کالج لاہور سے ایم۔اے پاس کرنے کے بعد سکریٹریٹ میں ملازم ہو گئے۔ پھر انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے اسلامیہ کالج لاہور میں کچھ عرصہ کام کیا۔ کچھ عرصہ حکیم یوسف حسین خاں کے رسالہ "نیرنگ خیال، لاہور" کی ادارت کی۔ ۱۹۳۴ میں انگلستان گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لی۔ واپسی پر ایم۔ اے۔ او کالج امرتسر کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۰ میں سری پرتاپ کالج سری نگر کے پرنسپل ہو کر کشمیر چلے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج لاہور کی پرنسپلی پر واپس آئے۔ لاہور میں انتقال کیا۔

ڈاکٹر تاثیر نہایت ذہن اور ذی علم شخص تھے۔ نظم و نثر کا اچھا مذاق رکھتے تھے۔ ادب اور فنون کے نقاد بھی تھے اور شاعر بھی۔ وہ اپنے عہد کے میلانات سے بھی متاثر ہوئے۔ ان کی نظموں میں نفسیاتی تجربوں سے شغف نمایاں ہے۔

تاج الفتوح // مفتاح الفتوح // : امیر خسرو کی تصنیف جو کو انھوں نے جلال الدین خلجی کے دربار میں پیش کر کے امیر کا خطاب پایا۔ اس میں جلال الدین خلجی کے پہلے سال یعنی ۱۲۹۰ سے ۱۲۹۱ تک کے حالات نظم کیے ہیں۔

امیر خسرو نے تاج الفتوح میں جلال الدین خلجی کی تمام فتوحات کو نظم کا پیرہن عطا کیا ہے۔ سلطان جلال الدین خلجی بڑی عظمت اور جاہ و جلال کا بادشاہ تھا۔ صاحب مذاق، رنگین طبع اور خوش صحبت تھا۔ شعر بھی کہتا تھا۔ معز الدین کیقیاد کے زمانے میں جب سلطان جلال الدین عارض تھا، اسی وقت اس نے امیر خسرو کو قدر  
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۲

دانی کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ چنانچہ معقول مشاہرہ مقرر کر کے خاص اپنا لباس عنایت کیا تھا۔ تخت پر بیٹھا تو امیر کو ندیم خاص بنایا اور مصحف داری اور امارت کا عہدہ دیا۔ اس کے ساتھ جامہ اور کمر بند جو امرائے کبار کا مخصوص لباس تھا، ان کے لیے مقرر کیا۔ امیر خسرو جو امیر کے خطاب سے پکارے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے۔

تاج المآثر : حسن نظامی نیشاپوری کی فارسی تصنیف ہے۔ اس میں ۱۱۹۱ سے ۱۲۱۷ تک یعنی شہاب الدین غوری سے شمس الدین التمش تک دور حکومت کے حالات ہیں۔ یہ فن تاریخ میں سب سے پہلی کتاب ہے جو فارسی میں دہلی میں لکھی گئی۔ اسلوب بیان بہت مرصع ہے۔ واقعات کی تحریر سے زیادہ زبان کی خوبی پر نظر رکھی گئی ہے۔ عربی الفاظ کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ کثرت سے اشعار بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔

تاجور نجیب آبادی // ۱۹۵۱ – ۱۸۹۴ // : احسان اللہ خاں نام، تاجور تخلص، والد کا نام رحمت اللہ خاں، مقام پیدائش نینی تال۔ عربی و فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بیس سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند سے درس نظامیہ کی تکمیل کر کے ۱۹۱۴ میں لاہور چلے گئے۔ جہاں اوریئنٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل پاس کیا۔ دیال سنگھ کالج لاہور میں ایک عرصہ تک فارسی و اردو کے پروفیسر رہے۔ زیادہ وقت درس و تدریس اور صحافت میں گزارا۔ لاہور میں انتقال ہوا۔

مولانا تاجور شاعر ہونے کے علاوہ اپنے وقت کے بہت بڑے ادبی صحافی بھی تھے۔ لدھیانہ سے ماہنامہ "آفتاب" اور تاج الکلام کا اجرا کیا۔ پھر ۱۹۱۶ میں رسالہ "مخزن" لاہور کی ادارت سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۲۲ میں "ہمایوں" کے جوائنٹ ایڈیٹر // Joint Editor // مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۹ میں اپنا رسالہ "ادبی دنیا" نکالا جو بعد میں عرصہ تک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۳

مولانا صلاح الدین کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ۱۹۳۴ میں "شاہکار" جاری کیا۔ انھوں نے لاہور میں "اردو مرکز" کے نام سے ایک ادارہ تصنیف و تالیف بھی قائم کیا تھا۔ اس مرکز کی وجہ سے اردو نظم و نثر کے بہترین انتخابات ۳۶ جلدوں میں شائع ہقئے۔

تاج امتیاز علی // ۱۹۷۰ – ۱۹۰۰ // : مشہور مدیر اور ناشر منشی ممتاز علی کے فرزند تھے۔ ان کا ادارہ "دارلاشاعت پنجاب، لاہور" میں مرکزی اشاعت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ امتیاز کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے۔ کر کے اشاعتی ادارے کی نگرانی اور تصنیف کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ جلد ہی مستند ادیبوں میں شمار کیے جانے لگے۔ ابتدا ہی سے ان کا رحجان ڈراموں کی طرف زیادہ تھا۔ کالج کی تعلیم کے زمانے میں کئی ڈرامے لکھے۔

۱۹۲۲ میں ان کا شاہ کار، نیم تاریخی ڈرامہ "انار کلی" منظر عام پر آیا۔ انار کلی ڈرامہ ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ایسی مقبولیت کسی اور ڈرامے کے حصہ میں نہیں آئی۔ اس ڈرامے میں اثر انگیزی بہت ہے۔

انار کلی کے بعد تاج نے کوئی مکمل اسٹیج ڈرامہ نہیں لکھا۔ البتہ یک یابی ڈرامے اور ریڈیو ڈرامے کافی تعداد میں لکھے۔ انھوں نے فلمی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے فلم سازی میں بھی حصہ لیا۔

اردو مزاح نگاری میں تاج کا سب سے نمایاں کام چچا چھکن کے مزاحیہ کردار کی پیش کش ہے۔ مزاح نگاری کا یہ اسلوب انھوں نے انگریزی سے اخذ کیا ہے۔

تارا شنکر بندو پادھیائے // ۱۸۹۸ – ۱۹۷۱ // : تارا شنکر بیر بھوم کے بنگالی زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دیہی علاقوں میں گزارا تھا۔ اس لیے زمینداروں کی زندگی کے بارے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۴

میں اُن کی واقفیت اچھی تھی۔ اس کے علاوہ تحریک آزادی اور قومی کاموں میں حصہ لینے کے سبب انھیں سماج کے نچلے طبقے کو لوگوں سے ملنے کا اچھا موقع ملا۔ ادب کو روزی کا ذریعہ بنا کر جب انھوں نے پہلی بار کولکتہ میں سکونت اختیار کی۔ اس وقت انھیں شدید ترین افلاس کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی کے اس نشیب و فراز نے انھیں کافی فائدہ پہنچایا۔ زندگی کو مختلف زاویوں سے خوب پرکھنے کے بعد زمان و مکاں کے حدود پار کر کے انھوں نے ایسے کرداروں کی تخلیق کی جو آفاقی حیثیت رکھتے ہیں۔

تارا شنکر نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز ناول نگاری سے کیا اور بنگلہ ادب میں تازہ اور حیات بخش ہوا کی طرح داخل ہوئے۔ پھر انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بنگالی ادب آج بھی اُن کے ادب سے متاثر ہے۔ وہ اپنے ناولوں میں گوشت پوست کے انسان اور ان کے دکھ درد لے کر ہمارے سامنے آئے۔ یہ لوگ ہمارے لیے نئے نہیں تھے۔ ان لوگوں کے جسم پر اس دیش کی مٹی اور آب و ہوا میں پروان چڑھنے کی واضح چھاپ تھی۔ یہ پریشانی اور غریبی کے بوجھ تلے دبے پڑے تھے۔ تارا شنکر نے اپنی تخلیقات کا مواد اپنے بچپن اور جوانی کے تجربوں اور مشاہدوں سے حاصل کیا۔ قومی خدمات انجام دینے اور جیل جانے کے باعث ان کی اکثر تحریروں میں آدرش کا رنگ اور خطیبانہ انداز زیادہ گہرا ہو گیا ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور کے سال وفات پر اُن کا شاہکار ناول "شاعر" شائع ہوا۔ اس نے بنگلہ ادب میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر لی۔ "شاعر" ایک خالص جذباتی ناول ہے۔ بظاہر یہ محبت و فرقت کی داستان ہے لیکن جس منفرد انداز میں یہ لکھا گیا ہے اس نے اپنی انفرادیت کے بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس ناول کی ایک اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جابجا جو گیت شامل کیے گئے ہیں اُن کے مصنف خود تارا شنکر ہیں۔ ترا شنکر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۵

بطور شاعر زیادہ معروف نہیں لیکن اس نوعیت کے گیت تخلیق کرنے میں وہ بے مثال شاعر ہے۔ اس کے علاوہ چیتالی چورن، پاشن پوری، نیل کنٹھ اور من ونتر ، پنچ گرام، دھرتی دیوتا، رائے کمل وغیرہ بھی ان کے مشہور ناول ہیں۔

تارا شنکر کی دیگر تخلیقات میں ان کا ناول "گن دیوتا" خاص طور پر قابل ذکر ہے، جس پر انھیں ۱۹۶۷ کا بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ ملا۔ "گن دیوتا" ایک نثری رزمیہ //Prose Epic // ہے۔ اس ناول کا پس منظر صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ تارا شنکر کے ناولوں نے بنگالی ادب کی سطح کو بلند کیا۔

تاریخ طبری : ابو جعفر محمد بن جریر بن خالد طبری // طبرستان // کا رہنے والا تھا۔ وہ ۸۳۸ میں پیدا ہوا اور ۹۲۲ میں وفات پائی۔ اس نے عربی کتاب التاریخ لکھی جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں ۹۱۴ تک کے حالات قلمبند کیے ہیں۔

تاریخ گزیدہ : حمد اللہ مستوفی قزوینی نے ۱۳۳۰ میں تصنیف کی۔ یہ نہایت سلیس فارسی زبان میں لکھی ہوئی دنیا کی تاریخ ہے۔ اس میں مختلف ادوار کے مشایخ، ائمہ، حکما، اطبا، شعرا اور مصنفین کا بھی ذکر ہے۔

تاریخ فیروز شاہی // برنی // : مملوک بادشاہ بلبن کے دور ۱۲۶۵ سے فیروز شاہ تغلق کے چھٹے سال جلوس ۱۳۵۷ تک سلاطین دہلی کی پچیانوے // ۹۵ // سال کی نہایت اہم تاریخ ہے۔ اس کا مصنف ضیاء الدین برنی // بلند شہر، اترپردیش جس کا قدیم نام بَرَن ہے // عہد بلبن کے اواخر میں ۱۲۸۵ کے آس پاس پیدا ہوا تھا۔ یہ امرائے وقت کے ایک ذی حیثیت خاندان کا فرد تھا۔ اس کے والد معید الملک، چچا ملک علاء الملک اور دادا سپہ سالار حسام الدین اپنے اپنے دور کے سلاطین کے درباروں سے وابستہ اور اہم عہدوں پر فائض تھے۔ ضیاء
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۶

الدین برنی بھی سترہ سال تین مہینے سلطان محمد بن تغلق // ۱۳۲۵ – ۱۳۵۱ // سے اس کے ندیم کی حیثیت سے وابستہ رہا۔ فیروز شاہ کے دور حکومت // 1351 – 1388 // میں اس کے مخالفین کی ریشہ دوانیوں نے اسے دربار سے دور کر دیا۔ اس لیے وہ اپنی تاریخ بھی بادشاہ کو، جسے تاریخ سے دلچسپی تھی، پیش نہ کر سکا۔ برنی کو سخت پریشانیوں اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ برنی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ کا مرید، امیر خسرو دہلوی اور حسن سجزی دہلوی کا قریبی دوست تھا۔ عمر کے آخری حصے میں اس نے تاریخ فیروز شاہی کے علاوہ فتاوای جہانداری، نعت محمدی وغیرہ تالیف کیں۔ تاریخ فیروز شاہی میں برنی نے صرف ان آٹھ سلاطین کی تاریخ لکھی ہے جن کے حالات کا وہ چشم دید گواہ تھا یا جن کے بارے میں اطلاعات دیگر معتبر افراد نے اسے بہم پہنچائی تھیں۔ یہ اصل میں منہاج سراج کی طبقاتِ ناصری کا تسلسل ہے۔ تاریخ فیروز شاہی کا یہ عیب ہے کہ اس میں نہ مضامین کا تسلسل ہے اور نہ دن تاریخ کا تعین۔ واقعات بھی سلسلے وار نہیں لکھے گئے۔ اس وجہ سے یہ ایک بے ترتیب کتاب ہے۔ اس کے باوجود برنی اس کتاب میں ایک مفکر مؤرخ نظر آتا ہے۔ وہ واقعات کا محض ناقل نہیں بلکہ ان کا مبصّر بھی ہے اور سماجی اور سیاسی امور میں اس کا اپنا ایک موقف ہے۔ سماج میں طبقاتی امتیازات کا وہ قائل ہے۔ تاریخ نویسی کے اصولوں کا سختی سے پابند ہے۔ اپنی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ بادشاہوں کے عیوب بھی کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے زمانے کے مؤرخین میں سب سے بہتر ہے۔ فارسی پر اسے عبور حاصل ہے۔ واقعات نگاری پر دسترس رکھتا ہے۔

تاریخ فیروز شاہی // عفیف // : اس کا مصنف شمس بن سراج الدین ہے جو شمس سراج عفیف کے نام سے زیادہ متعارف ہے۔ اس کے والد فیروز شاہ تغلق // م۔ ۱۳۸۸ // کے دربار میں "شب نویس خاصان" تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۷

اور پھر وزیر کے دفتر سے معلق رہے۔ اس طرح شمس سراج عفیف کو بچپن سے دربار اور اس کے کام کاج سے آشنائی حاصل رہی۔ عفیف نے فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت میں ایک سرکاری افسر کی حیثیت سے زندگی شروع کی۔ وہ فیروز شاہ کے بعد ایک طویل عرصے تک زندہ رہا۔ دہلی پر تیمور لنگ کے حملے // ۱۳۹۸ // سے ہونے والی تباہی کا عینی شاہد ہے۔ اس نے بڑھاپے میں مناقبِ مشائخ کے طرز پر ایک ضخیم تاریخ لکھی جس میں دہلی کے چار سلاطین علاء الدین خلجی، غیاث الدین تغلق، محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق کے مناقب بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں پہلے تین زمانے کی نذر ہو گئے اور آخری جلد جس میں صرف فیروز شاہ تغلق سے متعلق اطلاعات جمع کی گئی ہیں، دستیاب ہے۔ صنف نے اسے کوئی خاص نام نہیں دیا تھا، لیکن یہ تاریخ فیروز شاہی کے نام سے معروف ہے۔ اس میں فیروز شاہ تغلق کے عہد کے دیگر معروف اشخاص کے بار میں بھی اہم اطلاعات درج ہیں۔ یہ کتاب فیروز شاہ کے دور کی سماجی اور تہذیبی تاریخ کو بھی سمجھنے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

تاسو، تور کواتو // ۱۵۹۹ أ ۱۵۴۴، Tasso, Torquato // : تاسو نشاۃ ثانیہ کے دور آخر کا عظیم ترین اطالوی شاعر ہے۔ وہ سورینتو // Sorrento // میں ۱۵۴۴ میں پیدا ہوا اور ۱۵۹۵ میں رومہ میں اس کا انتقال ہو گیا۔ مشہور رزمیے "بیت المقدس کی نجات" // Jerusalem Liberated // کا مصنف اپنے باپ کے ساتھ نیپلز، پیزرَو // Pesaro // اور اربی نو // Urbino // گیا اور وہاں کے درباروں کی زندگی دیکھی۔ پادووا // Padva // اور بولولنا // Bologna // کی یونیورسٹیوں میں فلسفے اور انشا // Rhetoric // کی تعلیم حاصل کی۔ پادووا میں اپنی پہلی رزمیہ نظم "رینالدو" // Rinaldo // تصنیف کی۔ پادووا سے ٹاسو فرارا // Ferrara // چلا گیا جہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۸

اسے ڈیوک الفونسودیستے دوم // Duke Alfonso d’tsle II // کی بہنوں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ ان دو بہنوں کے لیے اس نے اپنی چند بہترین نظمیں لکھیں۔ ۱۵۷۳ میں ایک پاسٹورل ڈرامہ // Patoral Drama // "آمنتا" // Aminta // لکھا۔ ۱۵۷۴ میں اس نے اپنی شہکار رزمیہ نظم "بیت المقدس کی نجات" مکمل کی جو ۱۵۸۱ سے پہلے شائع نہیں ہو سکی۔ اسی زمانے میں تاسو نفسیاتی حزن میں مبتلا ہوا جس میں وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ لوگ اس کے در پہ آزار ہیں۔ ۱۵۷۹ سے ۱۵۸۶ تک اسے فرارا میں مقید رکھا گیا جس کے دوران اس نے نہایت عمدہ نثری تصانیف تخلیق کیں۔ ربائی کے بعد کچھ مذہبی نظمیں لکھیں جس میں "مونتے اولی ویتو "
Monte Oliveto
"اور تخلیق کائنات کے سات دن"
Creats Sette Giornate del Mondo
مشہور ہیں۔

تالستائے، لیو نکولائیوچ
Tolstoy, Leo Nikolayevich, 1828 – 1910
امیر خاندان کا چشم و چراغ، جس نے اعلی تعلیم اور فوجی منصب سے زندگی شروع کی۔ حق کی تلاش اس کی تمام تصنیفی اور غیر تصنیفی سرگرمی کا مرکزی نقطہ ہے۔ ۱۸۵۲ میں جب اس کی پہلی کوشش "بچپن" کے نام سے نکلی تو صاف گوئی اور تفصیلات کے احاطے کے علاوہ کرداروں کی جسمانی اور روحانی لرزشوں کی مکمل آمیزش نے بھی حلقوں کو چونکا دیا۔ بعد میں تین حصوں میں آپ بیتی مکمل کی اور گورکی نے بھی اسی نمونے کو قابل تقلید سمجھا ((اگرچہ دونوں کی زندگی کے حالات میں بعد المشرقین ہے))۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 429

اس نے اپنے وقت کی اعلٰی سوسائٹی کے تمام مشغلوں میں شرکت کی اور بعد میں سب کا بیباکانہ تجزیہ کیا۔ زندگی کے ہر مظہر سے اسے گہری وابستگی تھی۔ اس لیے بھی وہ اپنے تجربات کو برافگندہ نقاب بیان کرنے سے نہیں ہچکچایا۔ روسو کے بعد اس کے "اعترافات" ((۱۸۷۹)) فکر انگیز شمار ہوتے ہیں۔

عمر کا دو تہائی حصہ میدانِ جنگ، دربار، سیر و سیاحت اور جاگیردار خاندان میں گزارنے کے بعد حق کی تلاش نے اسے مسیح کی تعلیمات کے خلاصے اور اصل تک پہنچایا۔ جسے وہ زندگی کے اخلاقی معانی قرار دیتا ہے اور "میرا عقیدہ" میں اس نے اس تعلیم کا حاصل حصول بیان کر دیا ہے۔ اس عقیدے کے اعلان پر روسی کلیسا نے ((اور رومن چرچ نے بھی)) اسے خارج از مذہب قرار دیا۔ وہ کبھی کبھی ماسکو میں ٹھہرتا، ورنہ بیشتر وقت اپنی جاگیر "یاسناپاپولیانا" ٖضلع تولا میں کسانوں کے درمیان انھیں کے ساتھ محنت میں بسر کرتا۔ عقیدے کی تعمیل میں وہ اپنی ساری املاک غریب کسانوں میں بانٹ دینا چاہتا تھا جس کے باعث میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی اور تالستائے رات رات گئے آخری سانس کی آہٹ سنتے ہی گھر چھوڑ کر دور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ وہیں مر گیا اور جاگیر پر لا کر دفن کیا گیا۔

اس کی تصنیفات میں ناول : "انناکرے نینا"
Anne Karenina
"حیاتِ ثانیہ" "وس کری سسے نیی"، "جنگ اور امن" ((جو نپولین کے حملہ رُوس کے پس منظر میں ہے))، سوانح حیات ((۳ حصے))، افسانے : "قازق لوگ"، "سبستاپول کی کہانیاں"، "تین موتیں"، "گھریلو مسرت"، "حاجی مراد"، "اعترافات"، "ایوان ایلچ کی موت"، "آقا اور بندہ"، "لوک کتھا" ((سادہ افسانوں کا مجموعہ)) "اندھیرے کی قوت"، کروٹزر سوناتا"
Kreutzer Sonata
"آرٹ کیا ہے؟"، "تعلیم کا پھل"، "ڈائری"، "زندہ مردہ" کو آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت مل چکی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 430

مہاتما گاندھی نے عقیدے اور عمل میں اہنسا کے اصول کی تعمیل تالستائے کی تصانیف اور تجربوں سے سیکھی تھی اور اپنے ایک خط میں انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔

روس کے دو سب سے بڑے ناول نگاروں میں ہے، جنھوں نے عالمی ادب کی صف اول میں جگہ پائی، تالستائے کے ساتھ یا اس سے پہلے ہم عصر دستوئیفسکی کا نام لیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے باعث روسی نثر دنیا کی بڑی زبانوں کے برابر پہنچ گئی۔

تامبے، بھاسکر رام چندر (۱۸۷۴ – ۱۹۴۱)) : مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک صوفی منش، وحدت پرست، رومانٹک اور رجائی شاعر تھے جو ٹیگور، ہندی رشیوں اور اردو شاعری سے بے حد متاثر تھے۔ ان کی عشقیہ شاعری مراٹھی متوسط طبقہ کی زندگی کا جزو ہے۔ ان کی بعض نظموں سے انقلاب پسندی کا بھی اظہار ہوتا ہے جیسے ان کی نظم "رُدر سے خطاب" ((ردر دیوتا کا کام دنیا سے برائیوں کو اور نقصان پہنچانے والی چیزوں کو مٹانا ہے))۔ "نوودھوپریے می" میں دلہن کو استعارہ کے طور پر استعمال کر کے خدا اور انسان کے روحانی رشتے پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ بنیادی طور پر ادب برائے ادب کے قائل تھے۔ وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ ادب اخلاقی پابندیوں کا تابع رہے۔ فطری مناظر خاص طور سے مالوہ اور راجستھان کے مانظر کی عکاسی اور بامبے کی داخلی تصوریت تیسرے دہے کی مراٹھی شاعری کو ایک نیا افق فراہم کرتی ہے۔ ۱۹۷۴ میں مہارشٹر میں ان کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا گیا۔

تانا شاہ، ابو الحسن ((م۔ ۱۷۰۰)) : ابو الحسن تانا شاہ گولکنڈے کا آخری بادشاہ ((زمانہ حکومت ۱۶۷۲ – ۱۶۸۶)) تھا جو اپنے خسر عبد اللہ قطب شاہ کے انتقال کے بعد سیاسی افراتفری کے زمانے میں ۱۶۷۲ میں تخت نشیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۱

ہوا۔ شاہ راجو قتال کا مرید تھا اور ان کی خدمت کو وہ اپنے لیے باعث فخر سمجھتا تھا۔ شاہ راجو قتال ہی نے ابو الحسن کو "تانا شاہ" کے خطاب سے نوازا تھا اور پیشین گوئی کی تھی کہ ایک دن وہ گولکنڈے کا تاجدار بنے گا۔ علی بن طیفور نے ابو الحسن تانا شاہ کی خوش اخلاقی اور نیک اطواری کا ذکر کیا ہے۔ اس نے اپنے دور حکومت میں بہت سے فن کاروں کی سرپرستی کی تھی۔ ۱۶۸۶ میں گولکنڈہ مغلوں کے قبضے میں آ گیا اور ابو الحسن تانا شاہ کو گرفتار کر کے دولت آباد بھیج دیا گیا اور اس طرح قطب شاہی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ "بحر محیط" میں خلیل اللہ شطاری انے ابو الحسن تانا شاہ کے اشعار نقل کیے ہیں۔ وہ غزل گوئی کے علاوہ نظم نگاری سے بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ ابو الحسن تانا شاہ کے کلام میں سادگی و پرکاری اور دلکشی و جاذبیت پائی جاتی ہے۔

تبسم، غلام مصطفی ((۱۹۷۸ – ۱۸۹۹)) : امرتسر میں پیدا ہوئے۔ عربی صرف و نحو اور حدیث گھر پر پڑھی۔ دسویں جماعت تک چرچ مشن ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔ خالصہ کالج امرتسر اور ایف۔ ایس۔ سی۔ کالج سے بے۔ اے کیا۔ مشن کالج لاہور سے ایم۔ اے کی ڈگری لی۔ دو مہینے گورنمنٹ میڈیکل ڈائریکٹوریٹ میں ملازمت کی۔ پھر بی۔ ٹی کی سند حاصل کی۔ سنٹرل کالج لاہور میں علوم مشرقیہ کے استاد ہو گئے۔ ۴ سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے اور فارسی کے لکچرر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اس درمیان پاکستان کے ثقافتی مشن کے ممبر کی حیثیت سے ایران بھی گئے۔

تبسم شاعر بھی تھے اور اچھے ادیب بھی۔ فارسی کے بہت اچھے فاضل تھے۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔ فارسی کلام بہت بلند پایہ ہے۔ اردو کلام نہایت رواں اور سلیس ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۲

بھی کتابیں لکھیں۔ ان کی مطبوعہ نثری تصنیفات میں مسلمانوں کا علم جغرافیہ اور کارل چیپک کے ایک ڈرامہ کا ترجمہ "جاہ و جلال" ہے۔

تحسین، عطا حسین ((زمانہ اٹھارویں صدی)) : میر محمد حسین عطا خاں نام اور تخلص تحسین تھا۔ اٹاوہ، اتر پردیش کے رہنے والے تھے۔ نسبی اعتبار سے رضوی سید تھے۔ آپ کے والد میر محمد باقر خاں شوق فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے۔ چند تذکروں میں سرسری طور پر ان کا ذکر آیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی حیثیت سے کچھ شہرت حاصل تھی۔ آب حیات اور تذکرئہ طبقات سخن میں ان کا ذکر نثر نگار کی حیثیت سے آیا ہے۔ ان کی کتاب نوطرز مرصع کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ فن خطاطی میں مہارت کے سبب ان کا خطاب "مرصع رقم" تھا اور اس فن میں ان کے استاد "اعجاز رقم خاں" تھے جن کا نام ((غالباً)) مرزا محمد علی خطاب اعجاز رقم تھا جو آصف الدولہ کے جانشین وزیر علی خاں کے استاد تھے۔ نوطرز مرصع کے دیباچے میں انھوں نے اپنی تین فارسی کتابوں کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔ تاریخ قاسمی، ضوابط انگریزی اور انشائے تحسین لیکن ان کتابوں کا کوئی نسخہ دریافت نہیں ہو سکا۔

تحسین کی شہرت کا سبب ان کی کتاب نوطرز مرصع ہے جو قصہ چہار درویش کا اردو روپ ہے۔ تحسین نے اپنی ملازمت کے دوران جنرل رچرڈ اسمتھ کے ساتھ ۱۷۶۸ میں الہ آباد سے کولکتہ تک کا سفر کشتی سے کیا تھا۔ دوران سفر ہی کسی دوست نے یہ قصہ سنایا۔ اسی زمانے میں انھوں نے اس کے لکھنے کی ابتدا کی۔ ۱۷۶۹ میں جنرل اسمتھ کی انگلستان واپسی کے وقت اس کی سفارش سے انھیں عظیم آباد ((پٹنہ)) میں مقدمات نظامت مختار کا عہدہ حاصل ہو گیا۔ لیکن یہ ملازمت برقرار نہ رہی اور وہ اودھ کے دارالسلطنت فیض آباد چلے آئے جہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۳

انھوں نے کپتان ہارپر کی ملازمت اختیار کی جو وہاں کا ریزیڈنٹ تھا۔ اسی زمانے میں اس قصے کو مکمل کیا۔ وہ اسے شجاع الدولہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کے انتقال ((۱۷۷۵)) کی وجہ سے وہ پیش نہ کر سکے۔ بعد میں اس کے جانشیں آصف الدولہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس طرح یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس داستان کے لکھنے کی ابتدا ۱۷۶۸ میں ہوئی اور ۱۷۷۵ میں تکمیل کو پہنچی۔

اردو کی مشہور داستان "باغ و بہار" کا ماخذ یہی کتاب نوطرز مرصع ہے۔ باغ و بہار میں میر امن نے اس قصے کو امیر خسرو سے منسوب کیا ہے لیکن قصے کا متن اس کی نفی کرتا ہے اور امیر خسرو کی کوئی تصنیف اس نوعیت کی نہیں ملتی۔

"نوطرز مرصع" کی اہمیت اس کا مرصع اوور مسجع اسلوب ہے۔ شمالی ہند کی اردو نثر میں اس سے پہلے اس قسم کی نثر نہیں ملتی۔ تحسین کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فارسی پیرایہ اظہار کو اردو میں اپنا کر ایک نئے اسلوب کو جنم دیا۔ یہ ایک ایسا اسلوب تھا جو اس عہد کی تہذیب کی تصور حقیقت اور طرز احساس سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔

تحفۃ الاحرار : عبد الرحمن جامی کے مجموعہ "ہفت اورنگ" میں سے ایک مثنوی ہے جو نظامی کی مثنوی مخزن الاسرار کے وزن اور انداز میں فارسی میں لکھی گئی۔ اس میں سلسلہ نقش بندیہ کے بزرگ شیخ نصیر الدین عبید اللہ معروف بہ خواجہ احرار کی مدح بھی کی ہے اور مثنوی کا نام بھی انہی کے نام پر رکھا ہے۔ یہ ۱۴۸۱ میں تصنیف ہوئی۔

تحفۃ العراقین : افضل الدین ابراہیم بن علی نجار خاقانی شروانی کی تصنیف ہے۔ خاقانی نے جب شاہی ملازمت ترک کی اور حج کے ارادے سے نکلا تو یہ مثنوی فارسی میں تصنیف کی۔ اس میں عراق عجم اور عراق عرب کے حالات لکھے ہیں۔ سلوک اور تصوف کے مسائل اور اہل تصوف و سلوک کی مدح بھی کی گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۴

تذکرہ : اصطلاحاً "تذکرہ" اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں شعرا کے حالات اور نمونہ کلام جمع کیے گئے ہوں۔ تذکروں میں تنقید کے عناصر بھی مل جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد شعرا کا کلام یکجا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر تذکروں میں تاریخی یا حروف تہجی کے اعتبار سے کسی ترتیب کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔

اردو شعرا کے بارے میں تذکرہ نویسی کا آغاز اٹھارہویں عیسوی کے وسط میں ہوا۔ تذکروں کی زبان بالعموم فارسی ہے۔ اردو زبان میں پہلا تذکرہ مرزا علی لطف کا "گلشن ہند" ((تاریخ تکمیل ۱۸۰۱)) ہے۔

"نکات الشعرا" ((میر تقی میر)) "مخزن نکات" ((قائم چاند پوری، کم و بیش ۱۷۵۲))، "تذکرہ ریختہ گویاں" ((فتح علی حسینی گردیزی)) اردو کے قدیم ترین تذکروں میں سے ہیں۔ ۱۷۶۰ – ۱۷۸۵ تک کئی اہم تذکرے لکھے گئے۔ "چمنستانِ شعرا" ((لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی، ۱۷۶۵ ))، "تذکرہ عشقی" (( وجیہ الدین عشقی))، قذکرہ شورش ((غلام حسین شورش))، ان میں اہم ہیں۔ شفیق نے میر اور گردیزی کے تذکروں کو اپنے تذکرے کا محرک و ماخذ قرار دیا ہے۔ دوسرے تذکرہ نگاروں سے استفادے کے داخلی شواہد مل جاتے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے خاتمے سے پہلے کے کچھ اور تذکرے قابل ذکر ہیں۔ ان میں .طبقات الشعرا" ((قدرت اللہ شوق رامپوری))، "تذکرہ مسرت افزا" ((ابو الحسن امر اللہ الہ آبادی))، "گلشن سخن" ((مردان علی خاں قبلا ))، "گلزار ابراہیم" ((نواب علی ابراہیم خاں خلیل)) کا نام لیا جا سکتا ہے۔

موا الذکر نے معاصر اور پیش رو تذکروں سے استفادہ کے علاوہ معاصر شعرا سے خط و کتابت کے ذریعہ ان کے حالات اور انتخابات کلام بھی جمع کرنے کی کوسس کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۵

مصحفی کا "تذکرہ ہندی"، ۱۷۹۴ – ۱۷۹۵ اور "ریاض الفصما" اردو شاعری کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کی تصنیف ہیں جو خود بھی اچھا شاعر تھا۔ اور دوسروں کے بارے میں صاف گوئی سے اظہار رائے کر سکتا تھا۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں دہلی کی اردو شاعری اور اس صدی کے اواخر میں لکھنؤ کی اردو شاعری کے بارے میں ہماری بہت سی معلومات مصحفی کی تذکروں سے ماخوذ ہیں۔

"تذکرہ بے جگر" (( خیراتی لعل بے جگر )) جیسے تذکروں سے اواخر اٹھارویں صدے اور اوائل انیسویں صدی کے ادبی ماحول اور تہذیب کا پتہ چلتا ہے۔ تنقیدی اعتبار سے مصطفی خاں شیفتہ کے تذکرے "گلشن بے خار" ((۱۸۳۴)) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں سعادت خاں ناصر کا "خوش معرکہ زیبا" ((۱۸۴۷، ترمیمات و اضافے ۱۸۷۱ تک جاری رہے )) سامنے آیا۔ ناصر نے شعرا کے بارے میں سوانحی واقعات، لطائف اور تہذیبی کوائف کو خاص اہمیت دی۔ محمد حسین آزاد نے اپنی معرکہ آرا کتاب "آب حیات" ((اول ایڈیشن ۱۸۸۰) میں "خوش معرکہ زیبا" کا اثر قبول کیا ہے اور اس سے استفادہ بھی کیا ہے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر یا اس کے آس پاس لکھے جانے والے تذکروں میں مرزا قادر بخش صابر کا "گلستانِ بے خزاں"، کریم الدین اور ٹی۔ فیلن
T. Fallon
کا "طبقات شعرائے ہند" کے نام خصوصیت سے لیے جا سکتے ہیں۔

مندرجہ ذیل تین تذکرے اس لیے بالخصوص قابل ذکر ہیں کہ ان میں صرف شاعرات کا ذکر ہے۔ ((۱)) "گلدستہ نازنینان" ((درگا پرشاد نادر دہلوی))، ((۲)) "بہارستان ناز" ((فصیح الدین نج میرٹھی))، ((۳)) "شمیم سخن" ((عبد الحئ صفا بدایونی ۱۸۷۲))، موخر الذکر میں اردو زبان کی آغاز و ارتقا کے بارے میں بھی کئی صفحات کی بحث
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۶

ہے۔ اس باب میں صفا بدایونی اور مولانا محمد حسین آزاد کے خیالات میں خاصا توافق ہے۔ مندرجہ بالا تذکروں کے علاوہ بھی بہت سے تذکروں میں شاعرات کا ذکر ہے۔ تذکروں کا ایک بہت اہم ثقافتی پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں اٹھارویں صدی سے اوائل بیسویں صدی تک کی تہذیب، ادیبوں کے آپسی رشتوں، ان کے خاندانی اور سماجی پس منظر حتٰی کہ بعض مواقع پر سیاسی اور ملکی حالات کے بارے میں بھی قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہے۔

بیسویں صدی میں تذکروں کا رواج نہ رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تذکرہ نگاری کو تاریخ نگاری کا قائم مقام مانا گیا اور ہمارے یہاں اول تاریخ نگاری کا باقاعدہ آغاز "آب حیات" جیسی مقبول اور با اثر کتاب کے ذریعہ ۱۸۸۰ ہی میں ہو چکا تھا۔ "آب حیات" کو خود محمد حسین آزاد نے تذکرہ کہا ہے، لیکن اس میں تاریخی ادوار قائم کرنے کی کوشش، زبان میں عہد بہ عہد تبدیلیوں کے بیان اور اردو کے تہذیبی منظر نامے میں تبدیلی کے ذکر کے باعث تاریخ کا رنگ زیادہ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بعد کی تمام اردو ادبی تاریخوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر "آب حیات" کو اپنا نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا "آب حیات" کے معائب بھی ((مثلاً دکنی اور گجری شاعری کو نظر انداز کرنا)) اردو کی ادبی تاریخ نگاری کا حصہ بن گئے۔

بیسویں صدی میں لالہ سری رام دہلوی نے "خم خانہ جاوید" کے نام سے ایک ضخیم تذکرہ مرتب کرنا شروع کیا۔ اس کی پانچ ہی جلدیں شائع ہو سکی تھی کہ ان کے اچانک اور بے وقت انتقال کے باعث کام نامکمل رہ گیا۔ تذکروں کے بارے میں اکثر یہ کہا گیا ہے کہ ان میں تنقید بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بات یہ کہ تذکروں میں تنقید کا عنصر خاصا ہے۔ بعض میں زیادہ، بعض میں کم۔ مثلاً میر، قائم، میر حسن، مصحفی، شیفتہ وغیرہ کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۷

تذکروں میں تنقید کا عنصر معتدبہ ہے اور بہت اہم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تذکروں میں جو تنقیدی اصطلاحات بروئے کار آئی ہیں ان کے معنی اب عام طور پر معلوم نہیں ہیں۔ لہٰذا ان تذکروں کے مصنفین کے تنقیدی شعور، ادبی ترجیحات، نظریہ شعر، وغیرہ کے بارے میں وہی لوگ حکم لگا سکتے ہیں جنھیں ان اصطلاحوں کے مفہوم سے آگاہی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ تذکرے دراصل یادداشت اور بیاض قسم کی چیز ہیں۔ ان میں جو بھی تنقیدی یا تاریخی معلومات ہیں انھیں غنیمت سمجھنا چاہیے اور اگر یہ معلومات ان میں نہیں ہیں، یا کم ہیں، تو اس بات کو ان کا عیب نہ سمجھنا چاہیے۔

اگر بعض تذکروں میں ترتیب کا عنصر بہت کم ہے، تو بعض میں بہت دلچسپ نظام ترتیب ملتا ہے۔ مثلاً "خوش معرکہ زیبا" میں شعرا جا تذکرہ ان کے استاد کے تحت ہے۔ یعنی (( مثلاً)) سودا کے تمام شاگردوں کو سودا کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ میر حسن نے اپنے تذکرے میں ادوار قائم کیے ہیں اور ہر دور کے شعرا میں تقدیم و تاخیر کا بھی لحاظ رکھا ہے۔

تذکرۃ الاولیا : شیخ فرید الدین عطار کی فارسی تصنیف ہے۔ ابتدائے اسلام سے منصور حلاج تک کے اولیائے کرام کا تذکرہ ہے۔ حضرت عطار کو چنگیزی حملہ کے دوران ایک سپاہی نے ۱۲۲۵ میں شہید کر دیا۔ تصوف و عرفان کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے یہ تذکرہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

تذکرۃ الشعراء : دولت شاہ سمرقندی کی تصنیف ہے۔ شعرا کا یہ تذکرہ ۱۴۸۷ میں لکھا گیا۔ ایک مقدمہ دس عربی اور ایک پینتیس فارسی شعرا کا ذکر ہے۔ ایک خاتمہ ہے۔ جس میں چھ معاصر شعرا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی نام سے ایک تذکرہ ابو الفیض فیضی نے بھی لکھا ہے جو نایاب ہے اور اسی نام سے ایک تذکرہ محمد بقا سہارنپوری
 
Top