اردو اور غلامی

ثناءاللہ

محفلین
اردو ايک مکمل زبان ھے۔ ايک محتاط اندازے کے يہ دنيا ميں بولي جانے والي تين بڑي زبانوں ميں سے ايک ھے۔ ويسے آپ اسے دنيا کي دوسري بڑي زبان کہہ سکتے ہيں۔ گزشتہ قريباً چار سو سالوں ميں اردو جن ادوار سے گزري ھے اس ميں شعوري اور لا شعوري طور پر ترقي ھوئي ھے۔ اس کا ذکر تفصيل کے ساتھ ساتھ دنيا بھر کے ماھرين لسانيات نے کيا ھے۔ اس کي ترقي اور فروغ کي ايک طويل داستان ھے اس زبان کي بنيادي خوبي يہ ھے کہ اس کا خمير ھر طرح کي عصبيت سے پاک ھے۔ دوسري زبانوں کي ترقي ميں کبھي رکاوٹ نہیں بني حالانکہ اس پر دنيا بہر کے ظلم و ستم ھوئےاس کو ختم کرنے کيلئے بڑي بڑي تحريکوں نے جنم لئے اور پھر اپني موت آپ مر گئيں۔ اردو کيونکہ اپنے فطري اصولوں سے کبھي منحرف نھيں ھوئي اس ليے ھر حال ميں اپنا سفر جاري رکہا دوسري زبانوں سے ھر حال ميں دوستي ھي رھي اس کي فراخ دلي کي انتہا ھے۔ کہ يہ دوسري زبانوں ميں گھل مل گئي ليکن کبھي اپني ڈگر نہيں چھوڑي۔ اس نے دوسري زبانوں کے الفاظ اس طرح اپنائے کہ وہ اس کے ھي ھو کر رہ گئے اس طرح اردو کے الفاظ ميں ذخيرہ ھوا اس ميں جو جو اور جہاں جہاں کمي تھي وہ اس نے اپني صلح پسندي کي عادتوں کے تحت قبول کي۔ کہيں کہيں پيچيدگياں بھي آئي ھوں گي ليکن برس ہا برس کي جدوجہد اور مسلسل کاوشوں سے ايسي صورت نکل آئي کہ اس کي دلکشي ميں اضافہ ھي ھوا ھے۔ فارسي، ھندي، عربي الفاظ اس طرح آئے کے وہ اردو کي رگ رگ ميں سما گئے۔ مقامي زبانوں نے اردو اور اردو نے ان سے استفادہ کيا۔ پرتگالي اور ترکي کے ھزارہا الفاظ اب اردو ميں اس طرح مروج ھوگئے ھيں جيسے وہ اردو کے ھي ھيں ھندوستان ميں ھندي کو سياسي طور پر ھر ممکن انداز ميں عام کرنے کي کو شش کي گئي نتيجہ يہ نکلا کہ زبردستي کے اس عمل سے ھندي عوامي زبان نہ بن سکي بلکہ اس سے اردو کو ھي مقبوليت حاصل ھوئي عوام بولتے ھيں تو سمجھتے ھيں کے وہ ھندي بول رھے ھيں ليکن جب تجزيہ کيا گيا تو علم ھوا کہ سوائے چند مخصوص الفاظ کے وہ اردو ھي بول رھے ھوتے ہيں۔ اسي وجہ سے ماھر لسانيات کے قريب ھندي کوئي زبان نہيں ھےاوراس کو رائج کرنے والے مذھبي تعصب کا شکار ھو گئے تہے شايد کہ وہ يہ نہ سمجھ سکے کے زبان کا کوئي مذھب نہيں ھوتا بلکہ اس کا تعلق جغرافيائي لحاظ سے ھوتا ھے۔ اردو محض مسلمانوں کي زبان نہيں بلکہ جنوبي ايشياء کے تمام بسنے والوں کي زبان ھے۔ اردو زبان کو فروغ دينےميں ھندو قوم کسي طرح بھي پيچھے نہيں اور يھی طرز عمل برصغير ميں باقي مذاھب کا رھا ھے۔
ھندي زبان کا عوامي لہجہ اردو کے بہت قريب ھے۔ يہ بھي ممکن ھے کہ يہ ھندي الفاظ اپني شکل و شبہات تبديل کر کے اردو ميں ھي ضم ھوکر رہ جائيں گے۔ رسم الخط کا مسئلہ ضرور ھے ليکن ھندي رسم الخط ميں جو تحريريں سامنے آ رھي ھيں وہ زبان کے لحاظ سے اردو ھي ھے۔ جسے گاندي جي ھندوستاني کے نام سے ياد کرتے تھے۔ ھندي ميں جب سنسکرت کے الفاظ کو ٹھونسا گيا تو وہ بول چال ميں ايک بڑا مسئلہ بن گئي۔ اس لئے کہ سنسکرت کي ھندو مت کے حوالے سے کچہ بھي حيثيت رھي ھو ليکن اب اس کا شمار مردہ زبانوں ميں ھوتا ھے اس ليے کہ اس کا عوامي حيثيت سے استعمال اب متروک ھے۔ اسي زمانے ميں شايد فراق گورکھپوري نے نعرہ لگايا تھا کہ "اگر اردو کا فروغ چاھتے ھو تو اردو پڑھو اردو لکھو اردو بولو"۔
وہ لوگ جن کي مادري زبان انگريزي نہيں مگر وہ بولتے اور لکھتے ھيں ان کي دو ہي صورتيں ہيں انہيں انگريزوں نے غلام قوم کا فرد سمجھ کر اپنا دفتري نظام برقرار رکھنے کے ليے کالے بابوؤں کے طور پر ادارے قائم کر کے تيار کيا تھا يہ عرصہ طويل ھے۔ جس ميں برصغير کي عوام کو کالے بابو بنانے ميں سر سيد احمد خان نے اھم قردار ادا کيا جس کے بعد آج تک عوام کے ذھنوں سے غلامي نہيں نکالي جا سکي اور آج تک برصغير کي عوام اس کا خميازہ بھگت رھي ھے اور نہ جانے کب تک بھگتے گي۔ محض روزي کمانے کي خاطر يہ کالے بابوؤں کا طبقہ تيار ھوگيا اس کا نتيجہ يہ نکلا کہ مقامي زبان کي طرف برائے نام بھي توجہ نہيں کي گئي دوسراطبقہ بھي ايسے حالات کا پروردہ تھا انھوں نے انگريزي زبان سيکھنے کے ساتھ ساتھ انگريزي تہذيب و تمدن پر زيادہ توجہ دي۔ مذھب، زبان اورتہذيب و تمدن کو غلامي کي علامت سمجھ کر اپنایا۔ يہ طبقہ انگريزوں اور ان کي حکومت کيلئے زيادہ سود مند رھا۔ تاريخ بتاتي ھے ايسے لوگوں نے مالي فائدہ تو حاصل کيا ليکن ذھني اور نفسياتي طور پر بے حد خسارے ميں رھے۔
اردو ايک ايسي زبان ھے جس ميں دنيابھر کا ادب، ھر قسم کے مضامين کي کتابيں تراجم کي شکل ميں موجود ھيں عثمانيہ يونيورسٹي حيدرآباد دکن نے اس حوالے سے يہ ثابت کر کے عملي طور پر دنيا کو بتا ديا کہ تمام مروج علوم کو اردو ميں پڑھايا جا سکتا ھے۔ ان ترجم کي مدد سے يونيورسٹي کے معيار پر ھر مضمون ميں درس وتدريس کو ممکن بنايا گيا يہ سلسلہ آج بھي رائج ھے۔ جو لوگ يہ راگ الاپتے ھيں کہ بہت سے مضامين اس ميں پڑھائے ھي نہيں جا سکتے وہ دراصل نفسياتي مريض ھيں احساس کمتري کا شکار ھيں صرف ايک محدود طبقہ انگريزي بولنے کے جنون ميں مبتلا ھے اور بد قسمتي يہ ھے کہ يھي برسراقتدار طبقہ ھے اور ان ھي لوگوں کو ترقي دي جاتي ھےجو انگريزيت کے جنون ميں مبتلا ھيں۔ ان حالات ميں بھي ايسے لوگ موجود ھيں جو برصغير کي عوام کے ليے زبان اور تہذيب و تمدن کي ترقي کے لئے کو شاں ھيں اپني فکروعمل سے انھوں نے برصغير ميں اپنا مقام بنا ليا ھے۔ اس کے با وجود اب بھي انقلاب کي ضرورت ھے۔
دنيا بھر کي قوميں اپني زبان کے فروغ اور اسے ذريعہ تعليم بنانے کيلئے روز اول سے ہي اپنا دين ايمان بنائے ھوئے ھيں۔ وہ بات اور جذبہ جو اپني مادري زبان ميں محسوس کيا جا سکتا ھے وہ غير ملکي زبان ميں نہيں کيا جا سکتا۔ يہ ھماري پرلے درجے کي پسماندگي ھے بلکہ اسے نفسياتي معذوري بھي کہا جا سکتا ھے کہ ھم ھر جگہ انگريزي ميں کام کر کے خوش ھوتے ھيں کہ ھم نے سائن بورڈ انگريزي ميں لکھ لئے سڑکوں کا نام انگريزي ميں لکھ ليا۔ انگريزوں کو خوش کرنے کے لئے انگريزي ميں کتابيں لکھ ليں۔ يہ کبھي نہيں سنا گيا کہ لندن ميں اردوميں سڑکوں کے نام يا کسي اور جگہ اردو کا استعمال ہميں خوش کرنے کے لئے کيا گيا ھے۔ يہ ذھني غلامي کي ايک شکل ھے۔ ورنہ لندن ميں بھي لاکھوں کي تعداد ايسے لوگ ھيں جو اردو بولتے اور سمجھتے ھيں وھاں کي حکومت کے ذھن ميں کبھي نھيں آيا کہ ان لاکھوں انسانوں کي سھولت کے لئے اردو ميں کچھ لکھا جائے۔
کسي بھي ملک کي زبان جاننا، پڑھنا، بولنا عيب نھيں ہاں نفسياتي طور پر خود کو کم تر سمجھنا اوريہ سمجھنا کہ غير ملکي زبان کے بغير ھم ايک کم تر قوم ھيں محض اس وجھ ھم ترقي نہيں کر سکتے يہ ايک نفسياتي معذوري کي صورت ھے جو ايک آزاد ملک کے شہريوں کو قطعي زيب نہيں ديتي۔ ھم اتنے مفلوج ھو کر رہ گئے ھيں کہ نہ سمجھنے اور ضرورت نہ ھونے کے باوجود ھم انگريزي کے پيچھے ديوانگي ميں دوڑ رھے ھيں۔ معذور ذھنوں نے اس بات کو اپنے لئے اھم سمجھ ليا ھے کہ اس زبان کو سيکھنے کے لئے انگريزي تہذيب و تمدن کوممکن حد اپنانا ضروري ھے۔ جو قوميں اپني زبان اور تہذيب و تمدن اور روايات کا پاس نہيں کر تيں ان کي مثال ايسي ھے جو سراسر خسارے ميں ھو۔ برصغير سے انگريزوں کو گئے ھوئے ٥٨ سال ھو چکے ھيں اور اب تک ھميں يہ خبر نہيں کہ آزادي کا مفہوم کياھےجن لوگوں کي مادري يا قومي زبان اردو ھے اور وہ نفسياتي عوارض ميں مبتلا ھيں ان کے سامنے زندگي کا واضح مقصد کسي طور زندہ رھنا ھے اور بس۔
سر سيداحمد خان کے زمانے ميں انگريزوں کو حکومت چلانے کے لئے کالے بابوؤں کي ضرورت تھي انگريز کو اس بات ميں ملکہ حاصل تھا کہ وہ جہاں جاتے اور حکومت کرتے وہ اس طرح کے کالے انگريز تيار کرتے تھے۔ نفسياتي طور پر ايسے بابوآزادي کا شعور کھو بيٹھے تھے۔ اور انگريزوں کے جانے کے بعد يہي طبقہ حکمران بن بيٹھا اور اس نے آج تک قوم کو اپنے جيسا نفسياتي مريض بنايا ھوا ھے۔ يھ طبقہ آج تک اسي قيد میں ھے۔ يہ نفسياتي بيماري انھيں آزادي نھيں ديتي سونے پہ سہاگہ يہ ھوا کہ غلامي ميں رھنے کي تاويلات گھڑ ليں اس کي خاص وجہ ھے کہ انگريزوں نے غلاموں کے لئے جو فريم تيار کيا تھا آج ذھني غلام اسے اتارنے کے لئے قطعي تيار نھيں۔ زندہ رھنے کے لئے اس کي خود اعتمادي سسک سسک کر دم توڑ رھي ھے اس ميں زيادہ حصہ اس تھذيب کے پروردہ لوگوں کا ھے جو برسراقتدار بھي ہيں۔ آزاد قوميں اپني زندہ تہذيبوں اور تمدنوں کا احترام کرتي ھيں اردو ھماري شناخت ھے اس ميں برصغير ميں بسنے والي تمام قوموں کا ديني اور تہذيبي سرمايہ ھے۔ ھميں اپني اردو زبان کا ہر ممکن تحفظ کرنا ھے دوسري زبانيں سيکھنا گناہ نہیں ليکن انھيں اپني اردو زبان پر ترجيح دينا قطعي مناسب نھیں۔ اپني زبان اور تھذيب کو حقير سمجھنا ذھني غلامي کے مترادف ھے۔ اردو کے مشاھير نے ھميں اس غلامي سے آزاد کرانے کي جدوجہد کي ھميں ان کي اس کاوش کو آگے بڑھا کر اردو زبان کو بھي آزاد کرانا ھے۔

خصوصی شکریہ
محترم جناب ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی
 

منہاجین

محفلین
اِعزاز یا اِعزازیہ

اِعزاز صاحب تو عرصہ گزرا پرلوک سدھار گئے، آپ کون سے اِعزاز کی بات کر رہے ہیں؟ کہیں آپ کی مُراد اِعزازیہ تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو اپنی اِملا درست کرو جی۔
 

رضوان

محفلین
ثنااللہ صاحب آپ ماشاءاللہ پرانے بندے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صرف پرانی چیزوں پر اکتفا کریں۔ نئے مضامین کا دروازہ بھی چوپٹ کھلا ہے۔ آپ نے جو ہانڈی پکائی ہے باقی لوگوں نے اس میں شوربہ ڈالا ہے اب آپ ہی کچھ بوٹیاں ڈالیں تو دیگ چڑھی رہے گی۔ نان روٹی کا بندوبست ہوتا رہے گا جہاں نان روٹی ہوگی وہاں میرے اور محب جیسے ملنگ بھی آئیں گے اور دھمال بھی ہوگا دمادم مست قلندر
 

ثناءاللہ

محفلین
جناب رضوان صاحب: :D
کوشش تو کافی کرتا ہوں کہ محفل سے غیر حاضر نہ ہوں لیکن کچھ حالات اور دفتری کاموں میں اس طرح الجھ جاتا ہوں‌کہ ۔۔۔۔۔ بس نہ پوچھیں
باقی جہاں تک شوربے اور بوٹیوں کی بات ہے ۔۔۔۔ اب ماشاءاللہ یہ اس دور سے آگے نکل آئی ہے اب تو مجھے یہاں مرغ مسلم، بریانی، قورمہ، دیگی مرغ، مچھلی، تندوری مرغ، حلیم، نہاری، سجی اور نہ جانے کیا کچھ میسر ہے جو ابھی تک میں چکھ نہیں سکھا اب آپ درویشی چھوڑ چھاڑ کہ باقی چیزوں پر بھی ہاتھ صاف کریں :lol:
ان شاءاللہ ان سب چیزوں کا شوربہ بنانے کے لیے پانی ہم مہیا کرنے کی کوشش کریں گے۔
 
بات تو ٹھیک ہے آپ کی مگر ملنگوں کو شوربے اور دھمال ڈالنے میں زیادہ مزہ آتا ہے ویسے آپ نے کسی میٹھی ڈش کا ذکر نہیں کیا ، کوئی کھیر ، سویاں، حلوہ ، گجریلا ، کسٹرڈ ، رس ملائی ، فیرنی :lol:
 

ثناءاللہ

محفلین
میٹھی ڈش کی کمی آپ نے پوری کر دی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے آ پ کو عرض کروں کہ میں جب بھی کھانے پر بیٹھتا ہوں تو اکثر میٹھی ڈش کھائے بغیر ہی اٹھ جاتا ہوں یعنی بھول جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ اگر آپ جیسا کوئی مہربان یاد کرا دے تو الگ بات ہے جیسا کہ آج ہوا ہے ۔
 
Top