تقریباً سال پہلے ڈاکٹر طارق رحمٰن کی کتاب ’ہندی سے اردو تک: ایک سماجی اور سیاسی تاریخ‘ (
From Hindi to Urdu: A Social and Political History) خریدی تھی، لیکن ابھی تک اسے مکمل طور پر پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ، جب بھی اس لڑی جیسی ابحاث نظر سے گزرتی ہیں تو میں یہ کتاب کھول کر متعلقہ حصوں پر ایک نظر مار لیا کرتا ہوں۔
(لگتا ہے کہ اس لڑی کے نتیجے میں کتاب کا جم کر مطالعہ کرنا ہی پڑے گا!)
کتاب کے کچھ حصے جو میں نے پڑھے ہیں، وہ کافی دلچسپ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس نظریے کے قطعاً مخالف ہیں کہ اردو ایک ’لشکری‘ زبان ہے۔ گیارہویں صدی میں ترک حملہ آوروں کی آمد سے قبل، پشاور سے لے کر بنگال تک برِّصغیر میں مختلف لہجوں میں بولی جانے والی ایک زبان موجود تھی، جسے مسلمانوں نے ’ہندی‘ یعنی ’ہند کی زبان‘ کا نام دیا۔ ہندی کے ان تمام لہجوں نے دوسرے علاقوں کے لوگوں (جن میں صرف سپاہی ہی نہیں بلکہ تاجر، مذہبی رہنما، صوفیاء، اور خانہ بدوش وغیرہ بھی شامل تھے) کی زبانوں سے الفاظ اخذ کرنے شروع کیے، لیکن دہلی میں استعمال ہونے والا لہجہ (’کھڑی بولی‘) نے سب سے زیادہ الفاظ درآمد کیے۔ چودھویں صدی کی صوفی تحریروں میں اسی زبان کا ذکر بطور ہندی یا ہندوی ملتا ہے۔ اس زبان کو دہلوی بھی کہا گیا، اور جب یہ زبان گجرات اور دکن تک پہنچی تو ’گجراتی‘ اور ’دکنی‘ کہلائی جانے لگی۔ اٹھارویں صدی میں اسے ’ریختہ‘ کہا جانے لگا۔ اٹھارویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں دہلی اور آگرہ کی اشرافیہ نے اس زبان کے فارسی شدہ لہجے کو اپنا لیا اور اسے ’زبانِ اردوئے معلّٰی‘ (’عالی مقام شہر—یعنی دہلی—کی زبان‘) کا نام دیا، جو بعد میں مختصر ہو کر ’اردو‘ رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس تمام تاریخ کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ابتدا افواج کے لشکر میں نہیں ہوئی تھی (اگرچہ ترک زبان میں اردو کا مطلب ’لشکر‘ ہی ہے)، بلکہ جب اس زبان کو ’اردو‘ کا نام دیا گیا تو اسے رائج ہوئے از کم پانچ صدیاں گزر چکی تھیں۔
اٹھارویں صدی کے اختتام کے دوران جب اردو اشرافیہ کی زبان بنی، اور جب اشرافیہ اور شعراء نے اس میں سے دکنی الفاظ اور گرامر کو ختم کر کے فارسی اور عربی الفاظ استعمال کرنا شروع کیے، تو اردو محض اشرافیہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی نمائندگی کرنے لگی۔ جدید اردو اسی اردو کا تسلسل ہے۔ جدید ہندی کی ایجاد بھی کچھ ہی عرصے کے بعد انیسویں صدی کے آغاز میں اِسی طرح ہوئی جب فارسی اور عربی کے الفاظ کی جگہ سنسکرت کے الفاظ نے لے لی، اور اسے لکھنے کے لیے فارسی-عربی خط کی بجائے دیوناگری خط کا استعمال شروع کیا گیا۔ یوں سنسکرت شدہ یہ زبان ہندوؤں کی نمائندگی کرنے لگی، اور جدید ہندی اسی سنسکرت/دیوناگری زبان کا تسلسل ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحب ان ماہرین میں شامل ہیں جو اردو اور ہندی کو
ایک ہی زبان کے دو
رجسٹرز (یا دو معیاری اشکال) سمجھتے ہیں۔ کتاب کے اختتامی باب میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے:
It is, after all, only the truth to say that even now—after about two hundred years of separation and drifting apart—spoken Urdu and Hindi are the same language.
اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے ایک بات جو ذہن میں رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان روایتی غیر دوستانہ فضا کو ختم کرنے کے لیے سیاسی معاملات تو حل طلب ہیں ہی، لیکن علمی سطح پر یہی ہندی-اردو زبان بھی ایک حد تک اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب ایسے ماہرین بھی ہیں جو اردو اور ہندی کو، ان کے مشترکہ آغاز سے قطع نظر،
دو مختلف زبانیں قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اردو کے برطانوی سکالر،
رالف رسل۔ سالنامہ مطالعۂ اردو (
Annual of Urdu Studies) کے ۱۹۹۶ء کے ایشو میں رالف رسل کا ایک مضمون،
Some Notes on Hindi and Urdu، شائع ہوا تھا، جو خاصا دلچسپ ہے۔ ایک اقتباس:
I do not know enough to date [Hindi’s] achievement of [the status of a fully-fledged language], but it is certain that this was the position by the outbreak of the First World War in 1914. And here it becomes relevant to say something about Prem Chand, who at about this time decided that he should, without abandoning Urdu, start to write in Hindi. The fact that he took this decision is in itself conclusive proof that Hindi was now a living, flourishing language. And if at this point anyone jumps in to say, “Oh, but Prem Chand’s Hindi is simply Urdu in Devanagari script,” let me say at once, “No, it isn’t.” Prem Chand’s Urdu is standard literary Urdu and his Hindi standard literary Hindi.
رالف رسل کا یہ مضمون محض چھ صفحات کا ہے، اور پڑھنے کے لائق ہے۔ ذاتی طور پر بھی رسل کے دلائل میرے دل کو زیادہ لگتے ہیں۔