فرخ منظور
لائبریرین
اردو شاعری کا شہابِ ثاقب ۔۔۔ اطہر نفیس
رضوان احمد
پٹنہ
February 24, 2009
کنور اطہر علی خاں کی پیدائش علی گڑھ کے قصبہ پٹل کے ایک معزز خاندان میں22فروری سنہ 1933کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہی ہوئی۔علی گڑھ کے قصبہ پٹل سے ہجرت کر کے وہ سنہ 1949میں کراچی چلے گئے تھے او روہاں مشہور اخبار ” جنگ “ کے انتظامی شعبے سے وابستہ ہوئے او رترقی کر کے چیف اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر پہنچے۔
اطہر نفیس نے ایک منفرد شاعر کی حیثیت سے ادب میں اپنا مقام بنایا۔ اطہر نفیس کو کم وقت ملا اور صرف 47برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی زندگی میں تو ان کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہو سکا لیکن انتقال کے بعد احمد ندیم قاسمی نے اسے”کلام“ کے نام سے شائع کیا۔کم عرصے میں ہی انہوں نے اپنی منفرد آواز کے نقوش چھوڑے۔
اطہر نفیس صرف شاعر نہیں بلکہ صحافی بھی تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مشہور اخبار ”جنگ“ میں کالم اور حالاتِ حاضرہ پر مضامین بھی لکھے۔ لیکن اطہر نفیس پر اس اخبار میں انتظامی ذمہ داریاں بھی تھیں ا س لیے وہ لکھنے، پڑھنے پر بہت زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اطہر نفیس کے اندر ایک منفرد شاعر موجودتھا۔ جس کی فکر الگ تھی، محسوسات الگ تھے، سوچنے کا انداز الگ تھا اور ادائیگی بھی الگ تھی۔ وہ منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ ان کے احساسات ہی نہیں، لفظیات بھی الگ تھیں اور انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار بھی الگ انداز میں کیا ہے:
اب میری غزل کا بھی تقاضا ہے یہ تجھ سے
انداز و ادا کا کوئی اسلوب نیا ہو
یا پھر اپنی انفرادیت کا احساس وہ کچھ یوں دلاتے ہیں:
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہٴ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں ا ن سے فیض احمد فیض، منیر نیازی، حبیب جالب وغیرہ تھے تو ہم عصروں میں ابن انشا،مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامدمدنی وغیرہ تھے۔ لیکن اطہر نفیس نے ان کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلوکاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ کیوں کہ یہ اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔ ا ن کی مشہور غزلوں میں:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں کوئی سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تادیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار دیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
اطہر نفیس کی اس غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے غزلیات میں کوئی مشکل لفظ کم ہی آتا ہے۔ جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لیے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کر دیتا ہے۔
در اصل اطہر نفیس صرف ایک حساس شاعر ہی نہیں، صحافی بھی تھے اور انہوں نے چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھا اور پرکھا ہے۔ اس لیے جب وہ انہیں اشعار میں بیان کرتے ہیں تو ان کی لفظیات تبدیل ضرور ہو جاتی ہیں لیکن ان کے پرکھنے کا انداز نہیں بدلتا:
تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا
میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق تیری راہ میں
دھوپ تھی، صحرا تھا اور اک مہرباں سایہ بھی تھا
عشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حسن کے شہر نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا
ہر فسردہ آنکھ سے مانوس تھی اپنی نظر
دکھ بھرے سینے سے ہم رشتہ مرا سینہ بھی تھا
تھک بھی جاتے تھے اگر صحرا نوردی سے تو کیا
متصل صحرا کے اک وجد آفریں صحرا بھی تھا
یا پھر یہ غزل لے لیجئے، جس کے اندر ایک اضطراری اور اضطرابی کیفیت کروٹیں لے رہی ہے:
پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہو تا
شعلہ مرے دل کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو
کب عشق کیا کس سے کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو
اطہر نفیس کے یہاں عصری مسائل تو موجود ہیں ہی جن کو انہوں نے اپنے احساسات میں تپا کر نیا اسلوب بخشا ہے، لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے تصوف کے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا معرفت سے گہرا لگاؤ تھا۔ احمد حسین صدیقی ’دبستانوں کا دبستان کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ اطہر نفیس کو بابا ذہین شاہ تاجی سے بے حد عقیدت تھی۔ مذہب سے بھی ان کا گہرا لگاؤ تھا۔ حالانکہ وہ زندگی بھر ناکتخدا رہے،لیکن اپنے بھانجوں اور بھتیجوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے زندگی کے درد کو بخوبی سمجھا تھا۔ “
اطہر نفیس کا کلاسیکی شاعری سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ حالانکہ وہ جدید اسلوب کے شاعر ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے یہاں کلاسیکی روایات کا التزام ملتا ہے اور اس نے ان کی شاعری کو نفاست عطا کی ہے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی لکھتے ہیں ”اطہر نفیس کی غزل میں ذائقہ اورنیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں گد اختگی ہے، زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائیگی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے:
سکوتِ شب سے اک نغمہ سنا ہے
وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے
غنیمت ہے کہ اپنے غم زدوں کو
وہ حسنِ خود نگر پہچانتا ہے
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا
مری ہر سانس میری ابتدا ہے
اطہر نفیس نئے پیکر تراشتے ہیں، نئی لفظیات کی تشکیل کر تے ہیں اور ادائیگی کا منفرد التزام کرتے ہیں:
اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
راہ وفا میں جاں دینا بھی پیش روں کا شیو ہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کا رِ مثال ہوا
عشق افسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہو تے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرا کمہلایا اور رنگِ حنا پامال ہوا
اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہا رکے لیے نئی زمینیں تلاش کر کے لاتے ہیں:
دم بد م بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں شہرِ بلا شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہوگیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحہٴ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا شہر والو سنو
اس کی بے خو ف آنکھوں میں جھانکوں کبھی اس کو سمجھوں کبھی
اس کو بیدار رکھتا ہے کیا واقعہ شہر والو سنو
21نومبر سنہ 1980کو صرف 47سال کی عمر میں اطہر نفیس کا کراچی میں انتقال ہو گیا اور وہیں سخی حسن قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر کے کتبے پر ان کا اپنا شعر کندہ ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا
رضوان احمد
پٹنہ
February 24, 2009
کنور اطہر علی خاں کی پیدائش علی گڑھ کے قصبہ پٹل کے ایک معزز خاندان میں22فروری سنہ 1933کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہی ہوئی۔علی گڑھ کے قصبہ پٹل سے ہجرت کر کے وہ سنہ 1949میں کراچی چلے گئے تھے او روہاں مشہور اخبار ” جنگ “ کے انتظامی شعبے سے وابستہ ہوئے او رترقی کر کے چیف اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر پہنچے۔
اطہر نفیس نے ایک منفرد شاعر کی حیثیت سے ادب میں اپنا مقام بنایا۔ اطہر نفیس کو کم وقت ملا اور صرف 47برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی زندگی میں تو ان کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہو سکا لیکن انتقال کے بعد احمد ندیم قاسمی نے اسے”کلام“ کے نام سے شائع کیا۔کم عرصے میں ہی انہوں نے اپنی منفرد آواز کے نقوش چھوڑے۔
اطہر نفیس صرف شاعر نہیں بلکہ صحافی بھی تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مشہور اخبار ”جنگ“ میں کالم اور حالاتِ حاضرہ پر مضامین بھی لکھے۔ لیکن اطہر نفیس پر اس اخبار میں انتظامی ذمہ داریاں بھی تھیں ا س لیے وہ لکھنے، پڑھنے پر بہت زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اطہر نفیس کے اندر ایک منفرد شاعر موجودتھا۔ جس کی فکر الگ تھی، محسوسات الگ تھے، سوچنے کا انداز الگ تھا اور ادائیگی بھی الگ تھی۔ وہ منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ ان کے احساسات ہی نہیں، لفظیات بھی الگ تھیں اور انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار بھی الگ انداز میں کیا ہے:
اب میری غزل کا بھی تقاضا ہے یہ تجھ سے
انداز و ادا کا کوئی اسلوب نیا ہو
یا پھر اپنی انفرادیت کا احساس وہ کچھ یوں دلاتے ہیں:
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہٴ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
اطہر نفیس جس دور میں شاعری کر رہے تھے اس زمانے میں کئی ایسے شعرا موجود تھے جو اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد انداز رکھتے تھے۔ ان میں ا ن سے فیض احمد فیض، منیر نیازی، حبیب جالب وغیرہ تھے تو ہم عصروں میں ابن انشا،مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی، اقبال ساجد اور عزیز حامدمدنی وغیرہ تھے۔ لیکن اطہر نفیس نے ان کے درمیان سے ایک نئی راہ نکالی۔ ان کے یہاں بہت سادگی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام اہم گلوکاروں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی ہے۔ کیوں کہ یہ اشعار بہت آسانی سے سامعین کے ذہن میں اتر جاتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں۔ ا ن کی مشہور غزلوں میں:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں کوئی سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تادیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار دیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
اطہر نفیس کی اس غزل میں جو کیفیت موجود ہے اس کی تفسیر بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کے غزلیات میں کوئی مشکل لفظ کم ہی آتا ہے۔ جو ترسیل میں دشواری پیدا کرے۔ اس لیے اطہر نفیس کا ہر شعر اپنی کیفیت خود بیان کر دیتا ہے۔
در اصل اطہر نفیس صرف ایک حساس شاعر ہی نہیں، صحافی بھی تھے اور انہوں نے چیزوں کو ان کی جزئیات کے ساتھ دیکھا اور پرکھا ہے۔ اس لیے جب وہ انہیں اشعار میں بیان کرتے ہیں تو ان کی لفظیات تبدیل ضرور ہو جاتی ہیں لیکن ان کے پرکھنے کا انداز نہیں بدلتا:
تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا
میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق تیری راہ میں
دھوپ تھی، صحرا تھا اور اک مہرباں سایہ بھی تھا
عشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حسن کے شہر نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا
ہر فسردہ آنکھ سے مانوس تھی اپنی نظر
دکھ بھرے سینے سے ہم رشتہ مرا سینہ بھی تھا
تھک بھی جاتے تھے اگر صحرا نوردی سے تو کیا
متصل صحرا کے اک وجد آفریں صحرا بھی تھا
یا پھر یہ غزل لے لیجئے، جس کے اندر ایک اضطراری اور اضطرابی کیفیت کروٹیں لے رہی ہے:
پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہو تا
شعلہ مرے دل کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو
کب عشق کیا کس سے کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو
اطہر نفیس کے یہاں عصری مسائل تو موجود ہیں ہی جن کو انہوں نے اپنے احساسات میں تپا کر نیا اسلوب بخشا ہے، لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے تصوف کے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا معرفت سے گہرا لگاؤ تھا۔ احمد حسین صدیقی ’دبستانوں کا دبستان کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ اطہر نفیس کو بابا ذہین شاہ تاجی سے بے حد عقیدت تھی۔ مذہب سے بھی ان کا گہرا لگاؤ تھا۔ حالانکہ وہ زندگی بھر ناکتخدا رہے،لیکن اپنے بھانجوں اور بھتیجوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے زندگی کے درد کو بخوبی سمجھا تھا۔ “
اطہر نفیس کا کلاسیکی شاعری سے بھی بہت لگاؤ تھا۔ حالانکہ وہ جدید اسلوب کے شاعر ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے یہاں کلاسیکی روایات کا التزام ملتا ہے اور اس نے ان کی شاعری کو نفاست عطا کی ہے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی لکھتے ہیں ”اطہر نفیس کی غزل میں ذائقہ اورنیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں گد اختگی ہے، زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائیگی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے:
سکوتِ شب سے اک نغمہ سنا ہے
وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے
غنیمت ہے کہ اپنے غم زدوں کو
وہ حسنِ خود نگر پہچانتا ہے
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا
مری ہر سانس میری ابتدا ہے
اطہر نفیس نئے پیکر تراشتے ہیں، نئی لفظیات کی تشکیل کر تے ہیں اور ادائیگی کا منفرد التزام کرتے ہیں:
اطہر تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
راہ وفا میں جاں دینا بھی پیش روں کا شیو ہ تھا
ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کا رِ مثال ہوا
عشق افسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہو تے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
راہ وفا دشوار بہت تھی تم کیوں میرے ساتھ آئے
پھول سا چہرا کمہلایا اور رنگِ حنا پامال ہوا
اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہا رکے لیے نئی زمینیں تلاش کر کے لاتے ہیں:
دم بد م بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو
جیسے آئے دبے پاؤں شہرِ بلا شہر والو سنو
خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا اس کو کیا ہوگیا
دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ شہر والو سنو
عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحہٴ مختصر
کس نے کیا کھو دیا کس نے کیا پا لیا شہر والو سنو
اس کی بے خو ف آنکھوں میں جھانکوں کبھی اس کو سمجھوں کبھی
اس کو بیدار رکھتا ہے کیا واقعہ شہر والو سنو
21نومبر سنہ 1980کو صرف 47سال کی عمر میں اطہر نفیس کا کراچی میں انتقال ہو گیا اور وہیں سخی حسن قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی قبر کے کتبے پر ان کا اپنا شعر کندہ ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا