مغزل
محفلین
’’ کاٹھ کے اُلّو‘‘
گزشتہ کئی ماہ سے شادمان نارتھ کراچی اور نارتھ ناظم آبا د کے سنگم پر واقع ایک چائے خانے میں اہلِ ادب کا چوپال سجتاہے۔جس میں شہر بھر کے نامور شعرا اور ادباء دن بھر کے اعصاب شکن کام کاج کے بعد اور مصروفیات میں سے وقت نکال کر تشریف لاتے ہیں۔۔اسی چائے خانے میں گزشتہ رات میں اور میرے بزرگ و محترم شاعر جناب لیاقت علی عاصم بیٹھے تھے۔گفتگو کاسلسلہ جاریتھاہماری نشستوں کے قریب چند منچلے بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے ۔۔ان کے قہقہوں میں عجیب سی چیخ کی بازگشت بھی شامل تھی جس سے وہ قطعاً بے خبر تھے ایسے میں یکسوئی تو خیر کیا ممکن ہوتی ،خود اپنی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔ہم کبھی کبھار سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھتے اور پھر سے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کرتے جہاں سے ٹوٹاتھا۔۔اسی اثنا میں رات کے مہیب سناٹے میں ایک زوردار آواز کے ساتھ چیخ بلند ہوئی ۔۔ہائے۔۔۔عاصم صاحب اور میں ہڑبڑا اٹھے۔۔۔۔دل جیسے اچھل کر حلق میں آن اٹکا تھا۔۔۔ہم سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر ایک موٹر سائیکل سوار اپنی ٹانگ پکڑے دوہرا ہورہاتھا۔۔سڑک کے کنارے لگے برقی قمقے تاریکی کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔۔ قریب بیٹھے منچلوں نے پہلے تو یہ منظر دیکھ کر’’ ایک اور گیا‘‘ کہہ کر بھرپور قہقہہ لگا یا۔۔اورپھر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔۔میں واضح کرتاچلوں کہ اسی جگہ چار دن پہلے ایک نوجوان مخالف سمت اور تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک کار سے ٹکرا کر شدید زخمی ہوگیا تھا ۔۔۔ٹائون انتظامیہ نے ’’نیکی ‘‘کرتے ہوئے یہاں کوئی چھ انچ اونچا اور دس انچ چوڑا خطرنا ک ’اسپیڈ بریکر ‘‘ بنوادیا ۔۔۔جس سے ہمار ے دیکھتے دیکھتے چار پانچ افراد ٹکراکر گرتے گرتے بچے ۔۔(نوجوانوں کی ٹولی اسی بات پر بار بار قہقہے لگارہی تھی )نوجوانوں کو جب معاملے کی سنگینی کا احسا س ہوا۔۔تو وہ ادھر بڑھنے لگے جہاں وہ شخص گرا پڑا تھا قریب ہی اسکی موٹر سائیکل پڑی تھی۔۔۔میں بھی ایک گلاس میں پانی بھر کے لے گیا۔۔اس بھیڑ میں مضروب کا ایک شناسا بھی نکل آیا جو اسے ساتھ لے گیا۔۔۔۔ہم بھی اپنی نشستوں پر آ بیٹھے ۔۔ نوجوان بھی۔۔۔چیخ سناٹا مکمل کرچکی تھی۔۔۔فضا اب پہلے کی طرح ’’ہموار‘‘ہوگئی ۔۔تھوڑی تھوڑی دیر میں نوجوانوں کے حلق سے قہقہے ابلتے ۔۔ ’’ ابے بچ گیا ‘‘۔۔ ’’یہ بھی گرا‘‘۔۔۔’’اندھا ہے کیا؟‘‘۔۔۔مجھ سے رہا نہ گیا ۔۔میں ان لڑکو ں کے پاس گیا اور کہا بھائی اگرکوئی چیز مل جاتی ہے تو آئیں ۔۔ اس ’’اسپیڈبریکر‘‘ کو توڑ دیتے ہیں۔۔گرنے والا ہم میں سے بھی کسی کا عزیزہوسکتاہے۔۔تو لڑکو ں نے کہا ۔۔صبح توڑ دیںگے ابھی ناظم صاحب بیٹھے ہیں ۔۔ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔۔کہ ناظم بھی یہاں موجود ہے ۔۔۔بہر حال میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ناظم صاحب کے پاس گیا سلام ومصافحہ کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ حضور ایک مسئلے کی طر ف آپکی توجہ مبذول کرانامقصود ہے۔۔یہ کہتے ہوئے میں نے اس سمت اشارہ کیا جہاں یہ واقع ہواتھا۔۔یہ سنتے ہی ’’ناظم‘‘ صاحب کے لب ہائے مبارک سے پھولوں کی جھڑی برآمد ہوئی۔۔’’ اڑے جائو یار ۔۔۔ہوشیار نہیںبنو‘‘ صبح دیکھیں گے۔۔۔ میں نے ایک نظر پچاس پچپن برس کے اس سفیدریش ناظم کی طرف دیکھا جس نے چہرے پر بڑی گھنی داڑھی جما رکھی تھی۔۔۔۔ اور واپس اپنی نشت پر آبیٹھا۔۔قارئین اس کے بعدمیرے ہونٹوں پر جو کچھ آیا ۔۔ وہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں۔۔۔اُسے تحریر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔۔مزے کی بات یہ حادثہ ہونے کے بعد سڑک کے کنارے لگے برقی قمقے روشن کر دئےے گئے۔۔خیر میں بڑبڑا تا ہوا اور عاصم صاحب یہ شعر پڑھتے ہوئے وہاں سے چل پڑے۔
اس قدر مایوس کیوںہو اس اندھیرے موڑ پر
روشنی ہوگی ، مگر اک حادثہ ہونے کے بعد
بہر حال ہم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔ مجھے اس موقع پر ایک واقعہ یاد آگیا۔۔۔ایک بادشاہ انتہائی ظالم و جابر تھا آئے دن رعایا پر کوئی نہ کوئی محصول ( ٹیکس) لگادیتا تھا۔۔مگررعایا تھی کی بس چپ چاپ مظالم سہے جا رہی تھی۔۔۔ایک دن بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ رعایا کو آزمایا جائے ۔۔ آخران کے ضبط کی کوئی انتہا تو ہوگی۔۔ اس نے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مزید بڑھانے کا حکم دے دیا۔۔۔ روٹی مہنگی کردی گئی۔۔ دیگر اجناس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں۔۔۔۔۔۔ مگر عوام کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔۔۔ بادشاہ نے مزید محصول ( ٹیکس) لگا دیا ۔۔۔ عوام پھر بھی کچھ نہ بولے ۔۔۔۔ تو بادشاہ نے نیا حکم جاری کیا۔۔۔ اور راستوں پر ہرکارے کھڑے کردیئے جو ہر آنے جانے والے سے رہ گزر استعمال کرنے کا ٹیکس وصولتے ۔۔۔
عوام بھر بھی کچھ نہ بولے ۔۔۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اب راستوں سے گزرنے والوں سے نہ صرف ٹیکس وصول کیا جائے بلکہ ایک ایک کوڑہ بھی مارا جائے ۔۔۔۔عوام تو جیسے کچھ نہ بولنے کی قسم کھا چکے تھے۔۔۔۔ بادشاہ بڑا غضبناک ہوا ۔۔۔ اس نے ایک اور حکم دیا کہ اب ایک کی بجائے دس دس کوڑے رسید کئے جائیں۔۔۔کچھ دن گزرے تو بادشاہ کو خبر ملی کی بیس پچیس افراد محل کی طرف آرہے ہیں ۔۔ ۔۔۔ لوگ جب دربار میں پہنچے تو بادشاہ نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔ کہو کس لیے آئے ہو۔۔ایک نے آگے بڑھ کے کہا۔۔۔۔ حضور آپ نے راہ میں ہرکارے کھڑے کر دیئے ہیں جو محصول کے ساتھ ساتھ کوڑے بھی مارتے ہیں۔۔۔۔۔تو کیا تم احتجاج کرنے آئے ہو بادشاہ بات کاٹتے ہوئے بولا۔۔ ۔۔۔ لوگوں نے کہا نہیں حضور۔۔۔۔۔ بلکہ ایک گزارش کرنے حاضر ہوئے ہیں۔۔۔۔ کہ آپ ان ہرکاروں کی تعداد میں اضافہ کردیں قطار میں لگ کر دس دس کوڑ ے کھانے میں ہمارا کافی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔۔ اگرہرکاروں کی تعداد بڑھادی جائے تویہ کام کم وقت میں پورا ہوسکتا ہے۔
(قارئین میں آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا ۔۔نیاز مشرب : م۔م۔مغل)
کینڈا کے اخبار کارواں کے بعد یہی کالم کراچی کے روزنامہ مقدمہ میں شائع ہوا ربط:
تصویری متن