سید عاطف علی
لائبریرین
لیکن بھئی پھر بھی ۔ یہ نہ بھولے کہ۔شاہ صاحب سیریس ہو گئے!
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں ۔
لیکن بھئی پھر بھی ۔ یہ نہ بھولے کہ۔شاہ صاحب سیریس ہو گئے!
اردو میں چاند مذکر ہے لیکن چاندنی مونث ہے۔اُردو زبان پر غور کر لیں جس میں سورج بھی مذکر ہے اور چاند بھی مذکر
اور کڑوا سچ بھی یہی ہے کہ بہت کم زبانوں میں تذکر و تانیث کے باقاعدہ اصول موجود ہیں۔تلور اور اردو زبان کی تذکروتانیث میں فرق کرنے کیلئے چھٹی حس درکار ہے
اردو و پشتو کے مذکر مونث میں کافی فرق ہے۔ تو ظاہر ہے دیگر زبانوں میں بھی ہوگا۔ اس حوالہ سے ایک لطیفہ نما سچا واقعہ یاد آیا۔کئی پختون احباب تذکیر و تانیث کے حوالے سے اُردو زبان سے کچھ زیادہ متاثر معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمیں لاجواب کر دیا۔ فرمانے لگے، بتاؤ، چاند اور سورج میں سے مذکر کون معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے کہا، سورج کو ہم کم از کم مونث نہیں کہہ سکتے۔چاند رعنائی اور دلکشی کے باعث اس کا زیادہ سزاوار ہے تو فرمایا، پشتو زبان میں چاند مونث اور سورج مذکر ہے۔ اب آپ ذرا اُردو زبان پر غور کر لیں جس میں سورج بھی مذکر ہے اور چاند بھی مذکر ہے اور الزام ایک پختون پر ہے کہ اسے اردو زبان کے مذکر و مونث کی سمجھ نہیں ہے۔ کیا انصاف ہے!
بھائی اگر آپ کو یہ پتہ نہیں کہ فاعل مذکر ہے یا مؤنث تو آپ اس کا کھانے کا طریقہ دیکھیں۔اگر آپ کو یہی نہیں پتہ کہ فاعل مذکر ہے یا مونث تو چگتا یا چگتی میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ ؟
بھائی ماسٹر صاحب ! نہ تو نخرے دکھانا تانیث کی علامت ہے نہ سر جھکانا اور بے خوف ہونا تذکیر کی علامت ہے ( خصوصا اس زمانے میں ) ۔ البتہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اس زمانے میں ہو کر بھی کسی بھلے زمانے میں رہتے ہیں ۔ آپ اس زمانے میں اگر یہ اصول لاگو کر کے بولیں گے تو آپ کی گفتگو یکسر دگرگوں ہو جانے کا اندیشہ ہو گا ۔بھائی اگر آپ کو یہ پتہ نہیں کہ فاعل مذکر ہے یا مؤنث تو آپ اس کا کھانے کا طریقہ دیکھیں۔
اگر وہ نخرے دِکھا دِکھا کر تھوڑا تھوڑا چگتی ہے تو مؤنث ہے۔
اگر وہ سر جھکا کر بیبا بچہ بن کر بے خوف ہو کر چگتا ہے تو مذکر ہے۔
درست کیا ہے؟
آنکھوں کو کھلا رکھنے تلقین یا آنکھوں کو کھلی رکھنے کی تلقین
بہت شکریہ۔ کچھ وضاحت ہو سکتی کہ آنکھوں کے ساتھ کھلا اور آنکھیں کے ساتھ کھلی کیوں ہے؟آنکھوں کو کھلا رکھنے کی تلقین اور
آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین
آیا کو -- آیس
گیا کو -- گئیس
آئے گا کو -- آبے گا
کہتے ہیں
(1) امتیاز (2) خورشید (3) فرحت (4) تحسین (5) ممتاز (6) کوثر
"آنکھیں کھلی رکھنے" میں تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آنکھیں مؤنث ہے۔ "آنکھوں کو کھلا رکھنے" کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جب کہ سپنا "کھلی آنکھوں" سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت سے بات کچھ کچھ سمجھ میں آ گئی ہے۔گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
ویسے آپ کی رائے کیا ہے ؟
۔
آنکھیں کھلی اس لیے کہ کھلی یہاں آنکھوں کی صفت ہے جو موصوف سے متصل ہے اور اس لیے موصوف کے تابع ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آنکھیں کھلا رکھو۔آنکھیں کھلا رہ گئیں وغیرہ۔
اب جب "کو" استعمال ہو گا تو کھلا ایک براہ راست متصل صفت نہیں بلکہ ایک حال کا بیان ہے جس کا موصوف سے بے نیاز ہونا زیادہ قرین بیان ہے یعنی اب جنس میں صفت کا تابع ہونا ضروری نہیں رہا ۔
واللہ اعلم ۔ یہ میری اپنی ہی رائے (ہانک) ہے ۔
اس میں اپنے اساتذہ کی رائے بھی لی جائے تو اچھا ہو ۔
الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن
اگر آپ کو یہی نہیں پتہ کہ فاعل مذکر ہے یا مونث تو چگتا یا چگتی میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ ؟
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
ویسے آپ کی رائے کیا ہے ؟
۔
آنکھیں کھلی اس لیے کہ کھلی یہاں آنکھوں کی صفت ہے جو موصوف سے متصل ہے اور اس لیے موصوف کے تابع ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آنکھیں کھلا رکھو۔آنکھیں کھلا رہ گئیں وغیرہ۔
اب جب "کو" استعمال ہو گا تو کھلا ایک براہ راست متصل صفت نہیں بلکہ ایک حال کا بیان ہے جس کا موصوف سے بے نیاز ہونا زیادہ قرین بیان ہے یعنی اب جنس میں صفت کا تابع ہونا ضروری نہیں رہا ۔
واللہ اعلم ۔ یہ میری اپنی ہی رائے (ہانک) ہے ۔
اس میں اپنے اساتذہ کی رائے بھی لی جائے تو اچھا ہو ۔
الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن
"آنکھیں کھلی رکھنے" میں تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آنکھیں مؤنث ہے۔ "آنکھوں کو کھلا رکھنے" کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جب کہ سپنا "کھلی آنکھوں" سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت سے بات کچھ کچھ سمجھ میں آ گئی ہے۔
کیا نکاح کی تقریب میں شرکت کر کے آ رہے تھے؟فہد بھائی ، مسئلۂ مذکور کا تعلق حروفِ ربط سے ہے ۔ حروفِ ربط کو حروفِ عامل بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو میں نو حروفِ ربط ہیں: کا ، کی ، کے ، کو ، نے ، پر ، سے ، میں ، تک ۔ پہلے تین تو حروفِ اضافت ہیں (مثلاً نکاح کا چھوہارا ، چھوہارے کی گٹھلی ، گٹھلی کے ٹکڑے وغیرہ) ۔ آخری چار حروف علاماتِ ظرف ہیں اور زمان و مکان کو ظاہر کرتے ہیں ( چوبارے سے چھوہارے تک ، چھوہارے میں گٹھلی ، گٹھلی پر جھگڑا وغیرہ) ۔ جبکہ "نے" علامتِ فاعل ہے اور "کو" علامتِ مفعول ۔ مثلاً بکری نے دنبے کو ٹکر ماری ۔
ان حروف کو حروفِ عامل اس لئے کہا جاتا ہے کہ جملے میں ان کی آمد سے اسم اور فعل کی لفظی ہیئت میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ یعنی یہ حروف اسم اور فعل پر عمل کرکے ان میں لفظی تغیر پیدا کرتے ہیں ۔ ویسے تو یہ موضوع قواعد کی کتابوں میں کئی صفحات پر محیط ہوتا ہے لیکن میں تفصیلات میں جائے بغیر چند متعلقہ بنیادی نکات مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تفصیل کے لئے قواعد کی کوئی بھی کتاب دیکھ لیجئے ۔ مسئلۂ مذکور میں علامتِ مفعول "کو" کی وجہ سے جو صرفی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دیکھئے:
1۔ کتاب پڑھی جاتی ہے ، کتابیں پڑھی جاتی ہیں (کتاب اور کتابیں مؤنث ہیں اور ان کا فعل بھی مؤنث ہے)
2۔ کتاب کو پڑھا جاتا ہے ، کتابوں کو پڑھا جاتا ہے ( یہاں علامتِ مفعول "کو" لگانے سے فعل کی جنس بھی تبدیل ہوگئی اور کتابیں بھی کتابوں میں تبدیل ہوگئیں ۔)
3۔بجلی گرائی جاتی ہے ۔ (بجلی مؤنث ہے سو اس کا فعل بھی مؤنث )
4۔ بجلی کو گرایا جاتا ہے ۔( "کو" لگانے کی وجہ سے فعل مذکر ہوگیا)
5۔بجلیاں گرائی جاتی ہیں ( فعل اور مفعول دونوں مؤنث ہیں )
6۔ بجلیوں کو گرایا جاتا ہے ( فعل مذکر کی شکل اختیار کرگیا ۔ مفعول کی شکل بھی تبدیل ہوگئی۔)
7۔ آنکھ کھلی رکھئے ۔ آنکھ کو کھلا رکھئے
8۔ آنکھیں کھلی رکھئے ۔ آنکھوں کو کھلا رکھئے
9۔ آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین ۔ آنکھوں کو کھلا رکھنے کی تلقین
خلاصہ ان ساری مثالوں کا یہ ہے کہ جب جملۂ مجہول میں مفعول کے بعد حرفِ عامل "کو" آجائے تو فعل مذکر بن جائے گا خواہ مفعول مؤنث ہی کیوں نہ ہو ۔ مفعول مذکر کی صورت میں تو فعل مذکر ہی رہتا ہے ۔ مثلاً مضمون لکھا جاتا ہے اور مضمون کو لکھا جاتا ہے ۔ لیکن کتاب لکھی جاتی ہے اور کتاب کو لکھا جاتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
فہد بھائی ، امید ہے اب وضاحت ہوگئی ہوگی ۔ اب بھی کوئی بات تشریح طلب رہ گئی ہو تو بلا تکلف لکھ دیجئے ۔ ان شاء اللہ روزوں میں دعا کروں گا اور عید بعد مزید کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا ۔
اعجاز بھائی ، فاعل تبدیل نہیں ہوتا ۔ "کو" علامت مفعول ہے اس لئے مفعول اور اس سے متعلق فعل میں تغیر پیدا کرتا ہے ۔ یہ تغیر ہر زمانے میں نہیں بلکہ چند مخصوص زمانوں ہی میں پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً دلہن کتابیں پڑھتی ہے ، دلہن کتابوں کو پڑھتی ہے ۔ فعل میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ، صرف مفعول منصرف ہوگیا ۔ دلہن نے کتابیں پڑھیں ، دلہن نے کتابوں کو پڑھا ۔ یہاں زمانہ ماضی مطلق میں مفعول اور فعل دونوں منصرف ہوگئے ۔ جیسا کہ پہلے لکھا کہ مفعول مذکر کیلئے فعل ہمیشہ مذکر ہی رہتا ہے ۔ دولہا نے چھوہارا کھایا ، دولہا نے چھوہارے کو کھایا وغیرہ ۔بالفاظ دیگر، 'کو' لگانے سے فاعل بدل جاتا ہے۔ پڑھنا فعل مذکر ہے اس لئے کتاب/کتابوں کو پرھا جاتا ہے۔ یعنی فاعل اس صورت میں کتاب نہیں رہی، بلکہ پرھنے کا فعل ہو گیا ہے
بالکل ایسا ہی تھا اعجاز بھائی ۔ حیرت کی بات ہے ۔ آپ کو کیسے پتہ چلا؟!کیا نکاح کی تقریب میں شرکت کر کے آ رہے تھے؟