اردو میں تذکیر و تانیث کو سمجھنا

اس سلسلے میں مرحوم معین اختر کا ایک ٹی وی کلپ نظر سے گزرا‘ جس میں صاحب نے ایک لطیفہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ :-
ایک پارک میں دو اشخاص بیٹھے تھے‘ اچانک ایک بول اُٹھا،
’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولی‘‘
دوسرے نے فوراً لقمہ دیا، ’’نہیں صاحب! ایسے نہیں بولتے‘‘ آپ کو کہنا چاہیے کہ ’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولا‘‘
خیر پہلے نے کہا نہیں بھائی صحیح یہ ہے کہ
’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولی‘‘
دوسرے صاحب بھی اَڑ گئے کہ ’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولا‘‘
خیر دونوں میں تکرار بڑھی تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ پاس سے جاگنگ کرکے گزرتے ایک بڑے میاں سے پوچھیں، جو اُن کے خیال میں زیادہ پڑھے لکھے تھے اور پختہ عمری کے باعث اُردو زبان دانی کو زیادہ جانتے ہوں گے‘ چنانچہ بڑے میاں کو روکا تاکہ اُن سے تصحیح کروائی جاسکے کہ کون صحیح کہہ رہا ہے‘
بڑے میاں نے دونوں کو غور سے سنا
ایک نے کہا کہ
’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولی‘‘
دوسرے نے کہا کہ ’’درخت کی شاخ پہ بیٹھ کے بلبل بولا‘‘
بڑے میاں نے کہا، جی نہیں آپ دونوں ہی غلط بول رہے ہو۔
دونوں نے حیرانگی سے اُن سے استفسار کیا کہ اچھا آپ فرما دیں کہ دُرست جملہ کیا ہوسکتا ہے۔
بڑے میاں نے ایک لمحہ توقف کیا‘ گہری سوچ میں خود کو غرق کیا پھر طویل اور گہری سانس لی اور بولے کہ لغت کے اعتبار سے بالکل ٹھیک جو ہے وہ یہ ہے کہ

’’درختاں کی شاخ پہ بیٹھ کو بُلبُلا بولاتئیں‘‘
اور بڑے میاں کی پختہ عمری کے باعث اُن سے اُردو زبان دانی کی بابت مستند معلومات ملنے کا تصور کرکے اُن سے پوچھنے کی غلطی کرنے والے دونوں افراد سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
مرشدی یوسفی صاحب نے بھی ""زرگزشت"" میں ""خان سیف الملوک خان"" والے باب میں یہ بات لکھی ہے الفاظ میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن مدعا یہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ""تلور اور اردو زبان کی تذکروتانیث میں فرق کرنے کیلئے چھٹی حس درکار ہے""
 

جاسم محمد

محفلین
کئی پختون احباب تذکیر و تانیث کے حوالے سے اُردو زبان سے کچھ زیادہ متاثر معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمیں لاجواب کر دیا۔ فرمانے لگے، بتاؤ، چاند اور سورج میں سے مذکر کون معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے کہا، سورج کو ہم کم از کم مونث نہیں کہہ سکتے۔چاند رعنائی اور دلکشی کے باعث اس کا زیادہ سزاوار ہے تو فرمایا، پشتو زبان میں چاند مونث اور سورج مذکر ہے۔ اب آپ ذرا اُردو زبان پر غور کر لیں جس میں سورج بھی مذکر ہے اور چاند بھی مذکر ہے اور الزام ایک پختون پر ہے کہ اسے اردو زبان کے مذکر و مونث کی سمجھ نہیں ہے۔ کیا انصاف ہے!
اردو و پشتو کے مذکر مونث میں کافی فرق ہے۔ تو ظاہر ہے دیگر زبانوں میں بھی ہوگا۔ اس حوالہ سے ایک لطیفہ نما سچا واقعہ یاد آیا۔
میرے نانا جان مرحوم دوسری جنگ عظیم کے دوران سنگاپور میں جاپانیوں کی جیل میں قید تھے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں دیگر ہندوستانی فوجی بھی تھے جو برما کے محاذ پر شکست کھا کر جاپانیوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جیل کی اذیت اور بوریت کم کرنے کیلئے قیدی ایک ساتھی پٹھان کو تقریبا روزانہ تختہ مشق بناتے۔
اسی سلسلہ میں ایک روز سب نے مل کر اس سے پوچھا کہ شیر انڈہ دیتی ہے یا بچہ دیتی ہے؟ اپنا کافی ریکارڈ لگوانے کے بعد بولے: "خوچا تم ہم کو بیوقوف سمجھتا! شیر انڈہ دیتی ہے نہ بچہ دیتی ہے، اس کی عورت دیتی ہے!" :)
 
اگر آپ کو یہی نہیں پتہ کہ فاعل مذکر ہے یا مونث تو چگتا یا چگتی میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ ؟
بھائی اگر آپ کو یہ پتہ نہیں کہ فاعل مذکر ہے یا مؤنث تو آپ اس کا کھانے کا طریقہ دیکھیں۔
اگر وہ نخرے دِکھا دِکھا کر تھوڑا تھوڑا چگتی ہے پھر اِدھر اُدھر دیکھتی ہے پھر تھوڑا تھوڑا چگتی ہے تو مطلب اُس کو اپنی ڈائیٹ کا خیال ہے لہٰذا مؤنث ہے۔
اگر وہ سر جھکا کر بیبا بچہ بن کر بغیر نخرے دِکھائے دَھڑلّے سے نان سٹاپ چگتا ہے اور کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے تو مذکر ہے۔
وما علینا الا البلغ ۔۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھائی اگر آپ کو یہ پتہ نہیں کہ فاعل مذکر ہے یا مؤنث تو آپ اس کا کھانے کا طریقہ دیکھیں۔
اگر وہ نخرے دِکھا دِکھا کر تھوڑا تھوڑا چگتی ہے تو مؤنث ہے۔
اگر وہ سر جھکا کر بیبا بچہ بن کر بے خوف ہو کر چگتا ہے تو مذکر ہے۔
بھائی ماسٹر صاحب ! نہ تو نخرے دکھانا تانیث کی علامت ہے نہ سر جھکانا اور بے خوف ہونا تذکیر کی علامت ہے ( خصوصا اس زمانے میں :) :) :) ) ۔ البتہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اس زمانے میں ہو کر بھی کسی بھلے زمانے میں رہتے ہیں ۔ آپ اس زمانے میں اگر یہ اصول لاگو کر کے بولیں گے تو آپ کی گفتگو یکسر دگرگوں ہو جانے کا اندیشہ ہو گا :) ۔
در اصل قاعدے کسی بھی زبان میں زبان میں زبان بولنے اور لکھنے والوں کی اتباع سے سیکھے جائیں گے اور بس ۔اس کا کوئی اور طریقہ نہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
ویسے آپ کی رائے کیا ہے ؟
۔
آنکھیں کھلی اس لیے کہ کھلی یہاں آنکھوں کی صفت ہے جو موصوف سے متصل ہے اور اس لیے موصوف کے تابع ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آنکھیں کھلا رکھو۔آنکھیں کھلا رہ گئیں وغیرہ۔
اب جب "کو" استعمال ہو گا تو کھلا ایک براہ راست متصل صفت نہیں بلکہ ایک حال کا بیان ہے جس کا موصوف سے بے نیاز ہونا زیادہ قرین بیان ہے یعنی اب جنس میں صفت کا تابع ہونا ضروری نہیں رہا ۔

واللہ اعلم ۔ یہ میری اپنی ہی رائے (ہانک) ہے ۔
اس میں اپنے اساتذہ کی رائے بھی لی جائے تو اچھا ہو ۔
الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن
 

فہد اشرف

محفلین
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
ویسے آپ کی رائے کیا ہے ؟
۔
آنکھیں کھلی اس لیے کہ کھلی یہاں آنکھوں کی صفت ہے جو موصوف سے متصل ہے اور اس لیے موصوف کے تابع ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آنکھیں کھلا رکھو۔آنکھیں کھلا رہ گئیں وغیرہ۔
اب جب "کو" استعمال ہو گا تو کھلا ایک براہ راست متصل صفت نہیں بلکہ ایک حال کا بیان ہے جس کا موصوف سے بے نیاز ہونا زیادہ قرین بیان ہے یعنی اب جنس میں صفت کا تابع ہونا ضروری نہیں رہا ۔

واللہ اعلم ۔ یہ میری اپنی ہی رائے (ہانک) ہے ۔
اس میں اپنے اساتذہ کی رائے بھی لی جائے تو اچھا ہو ۔
الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن
"آنکھیں کھلی رکھنے" میں تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آنکھیں مؤنث ہے۔ "آنکھوں کو کھلا رکھنے" کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جب کہ سپنا "کھلی آنکھوں" سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت سے بات کچھ کچھ سمجھ میں آ گئی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
ویسے آپ کی رائے کیا ہے ؟
۔
آنکھیں کھلی اس لیے کہ کھلی یہاں آنکھوں کی صفت ہے جو موصوف سے متصل ہے اور اس لیے موصوف کے تابع ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آنکھیں کھلا رکھو۔آنکھیں کھلا رہ گئیں وغیرہ۔
اب جب "کو" استعمال ہو گا تو کھلا ایک براہ راست متصل صفت نہیں بلکہ ایک حال کا بیان ہے جس کا موصوف سے بے نیاز ہونا زیادہ قرین بیان ہے یعنی اب جنس میں صفت کا تابع ہونا ضروری نہیں رہا ۔

واللہ اعلم ۔ یہ میری اپنی ہی رائے (ہانک) ہے ۔
اس میں اپنے اساتذہ کی رائے بھی لی جائے تو اچھا ہو ۔
الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن

"آنکھیں کھلی رکھنے" میں تو کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ آنکھیں مؤنث ہے۔ "آنکھوں کو کھلا رکھنے" کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جب کہ سپنا "کھلی آنکھوں" سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت سے بات کچھ کچھ سمجھ میں آ گئی ہے۔

فہد بھائی ، مسئلۂ مذکور کا تعلق حروفِ ربط سے ہے ۔ حروفِ ربط کو حروفِ عامل بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو میں نو حروفِ ربط ہیں: کا ، کی ، کے ، کو ، نے ، پر ، سے ، میں ، تک ۔ پہلے تین تو حروفِ اضافت ہیں (مثلاً نکاح کا چھوہارا ، چھوہارے کی گٹھلی ، گٹھلی کے ٹکڑے وغیرہ) ۔ آخری چار حروف علاماتِ ظرف ہیں اور زمان و مکان کو ظاہر کرتے ہیں ( چوبارے سے چھوہارے تک ، چھوہارے میں گٹھلی ، گٹھلی پر جھگڑا وغیرہ) ۔ جبکہ "نے" علامتِ فاعل ہے اور "کو" علامتِ مفعول ۔ مثلاً بکری نے دنبے کو ٹکر ماری ۔

ان حروف کو حروفِ عامل اس لئے کہا جاتا ہے کہ جملے میں ان کی آمد سے اسم اور فعل کی لفظی ہیئت میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ یعنی یہ حروف اسم اور فعل پر عمل کرکے ان میں لفظی تغیر پیدا کرتے ہیں ۔ ویسے تو یہ موضوع قواعد کی کتابوں میں کئی صفحات پر محیط ہوتا ہے لیکن میں تفصیلات میں جائے بغیر چند متعلقہ بنیادی نکات مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تفصیل کے لئے قواعد کی کوئی بھی کتاب دیکھ لیجئے ۔ مسئلۂ مذکور میں علامتِ مفعول "کو" کی وجہ سے جو صرفی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دیکھئے:
1۔ کتاب پڑھی جاتی ہے ، کتابیں پڑھی جاتی ہیں (کتاب اور کتابیں مؤنث ہیں اور ان کا فعل بھی مؤنث ہے)
2۔ کتاب کو پڑھا جاتا ہے ، کتابوں کو پڑھا جاتا ہے ( یہاں علامتِ مفعول "کو" لگانے سے فعل کی جنس بھی تبدیل ہوگئی اور کتابیں بھی کتابوں میں تبدیل ہوگئیں ۔)
3۔بجلی گرائی جاتی ہے ۔ (بجلی مؤنث ہے سو اس کا فعل بھی مؤنث )
4۔ بجلی کو گرایا جاتا ہے ۔( "کو" لگانے کی وجہ سے فعل مذکر ہوگیا)
5۔بجلیاں گرائی جاتی ہیں ( فعل اور مفعول دونوں مؤنث ہیں )
6۔ بجلیوں کو گرایا جاتا ہے ( فعل مذکر کی شکل اختیار کرگیا ۔ مفعول کی شکل بھی تبدیل ہوگئی۔)
7۔ آنکھ کھلی رکھئے ۔ آنکھ کو کھلا رکھئے
8۔ آنکھیں کھلی رکھئے ۔ آنکھوں کو کھلا رکھئے
9۔ آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین ۔ آنکھوں کو کھلا رکھنے کی تلقین

خلاصہ ان ساری مثالوں کا یہ ہے کہ جب جملۂ مجہول میں مفعول کے بعد حرفِ عامل "کو" آجائے تو فعل مذکر بن جائے گا خواہ مفعول مؤنث ہی کیوں نہ ہو ۔ مفعول مذکر کی صورت میں تو فعل مذکر ہی رہتا ہے ۔ مثلاً مضمون لکھا جاتا ہے اور مضمون کو لکھا جاتا ہے ۔ لیکن کتاب لکھی جاتی ہے اور کتاب کو لکھا جاتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

فہد بھائی ، امید ہے اب وضاحت ہوگئی ہوگی ۔ اب بھی کوئی بات تشریح طلب رہ گئی ہو تو بلا تکلف لکھ دیجئے ۔ ان شاء اللہ روزوں میں دعا کروں گا اور عید بعد مزید کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا ۔ :):):)
 

الف عین

لائبریرین
فہد بھائی ، مسئلۂ مذکور کا تعلق حروفِ ربط سے ہے ۔ حروفِ ربط کو حروفِ عامل بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو میں نو حروفِ ربط ہیں: کا ، کی ، کے ، کو ، نے ، پر ، سے ، میں ، تک ۔ پہلے تین تو حروفِ اضافت ہیں (مثلاً نکاح کا چھوہارا ، چھوہارے کی گٹھلی ، گٹھلی کے ٹکڑے وغیرہ) ۔ آخری چار حروف علاماتِ ظرف ہیں اور زمان و مکان کو ظاہر کرتے ہیں ( چوبارے سے چھوہارے تک ، چھوہارے میں گٹھلی ، گٹھلی پر جھگڑا وغیرہ) ۔ جبکہ "نے" علامتِ فاعل ہے اور "کو" علامتِ مفعول ۔ مثلاً بکری نے دنبے کو ٹکر ماری ۔

ان حروف کو حروفِ عامل اس لئے کہا جاتا ہے کہ جملے میں ان کی آمد سے اسم اور فعل کی لفظی ہیئت میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ یعنی یہ حروف اسم اور فعل پر عمل کرکے ان میں لفظی تغیر پیدا کرتے ہیں ۔ ویسے تو یہ موضوع قواعد کی کتابوں میں کئی صفحات پر محیط ہوتا ہے لیکن میں تفصیلات میں جائے بغیر چند متعلقہ بنیادی نکات مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ تفصیل کے لئے قواعد کی کوئی بھی کتاب دیکھ لیجئے ۔ مسئلۂ مذکور میں علامتِ مفعول "کو" کی وجہ سے جو صرفی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں دیکھئے:
1۔ کتاب پڑھی جاتی ہے ، کتابیں پڑھی جاتی ہیں (کتاب اور کتابیں مؤنث ہیں اور ان کا فعل بھی مؤنث ہے)
2۔ کتاب کو پڑھا جاتا ہے ، کتابوں کو پڑھا جاتا ہے ( یہاں علامتِ مفعول "کو" لگانے سے فعل کی جنس بھی تبدیل ہوگئی اور کتابیں بھی کتابوں میں تبدیل ہوگئیں ۔)
3۔بجلی گرائی جاتی ہے ۔ (بجلی مؤنث ہے سو اس کا فعل بھی مؤنث )
4۔ بجلی کو گرایا جاتا ہے ۔( "کو" لگانے کی وجہ سے فعل مذکر ہوگیا)
5۔بجلیاں گرائی جاتی ہیں ( فعل اور مفعول دونوں مؤنث ہیں )
6۔ بجلیوں کو گرایا جاتا ہے ( فعل مذکر کی شکل اختیار کرگیا ۔ مفعول کی شکل بھی تبدیل ہوگئی۔)
7۔ آنکھ کھلی رکھئے ۔ آنکھ کو کھلا رکھئے
8۔ آنکھیں کھلی رکھئے ۔ آنکھوں کو کھلا رکھئے
9۔ آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین ۔ آنکھوں کو کھلا رکھنے کی تلقین

خلاصہ ان ساری مثالوں کا یہ ہے کہ جب جملۂ مجہول میں مفعول کے بعد حرفِ عامل "کو" آجائے تو فعل مذکر بن جائے گا خواہ مفعول مؤنث ہی کیوں نہ ہو ۔ مفعول مذکر کی صورت میں تو فعل مذکر ہی رہتا ہے ۔ مثلاً مضمون لکھا جاتا ہے اور مضمون کو لکھا جاتا ہے ۔ لیکن کتاب لکھی جاتی ہے اور کتاب کو لکھا جاتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

فہد بھائی ، امید ہے اب وضاحت ہوگئی ہوگی ۔ اب بھی کوئی بات تشریح طلب رہ گئی ہو تو بلا تکلف لکھ دیجئے ۔ ان شاء اللہ روزوں میں دعا کروں گا اور عید بعد مزید کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا ۔ :):):)
کیا نکاح کی تقریب میں شرکت کر کے آ رہے تھے؟
بالفاظ دیگر، 'کو' لگانے سے فاعل بدل جاتا ہے۔ پڑھنا فعل مذکر ہے اس لئے کتاب/کتابوں کو پرھا جاتا ہے۔ یعنی فاعل اس صورت میں کتاب نہیں رہی، بلکہ پرھنے کا فعل ہو گیا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بالفاظ دیگر، 'کو' لگانے سے فاعل بدل جاتا ہے۔ پڑھنا فعل مذکر ہے اس لئے کتاب/کتابوں کو پرھا جاتا ہے۔ یعنی فاعل اس صورت میں کتاب نہیں رہی، بلکہ پرھنے کا فعل ہو گیا ہے
اعجاز بھائی ، فاعل تبدیل نہیں ہوتا ۔ "کو" علامت مفعول ہے اس لئے مفعول اور اس سے متعلق فعل میں تغیر پیدا کرتا ہے ۔ یہ تغیر ہر زمانے میں نہیں بلکہ چند مخصوص زمانوں ہی میں پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً دلہن کتابیں پڑھتی ہے ، دلہن کتابوں کو پڑھتی ہے ۔ فعل میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ، صرف مفعول منصرف ہوگیا ۔ دلہن نے کتابیں پڑھیں ، دلہن نے کتابوں کو پڑھا ۔ یہاں زمانہ ماضی مطلق میں مفعول اور فعل دونوں منصرف ہوگئے ۔ جیسا کہ پہلے لکھا کہ مفعول مذکر کیلئے فعل ہمیشہ مذکر ہی رہتا ہے ۔ دولہا نے چھوہارا کھایا ، دولہا نے چھوہارے کو کھایا وغیرہ ۔
کیا نکاح کی تقریب میں شرکت کر کے آ رہے تھے؟
بالکل ایسا ہی تھا اعجاز بھائی ۔ حیرت کی بات ہے ۔ آپ کو کیسے پتہ چلا؟!
:D
 

زیک

مسافر
دنیا میں تذکیر و تانیث کا سٹینڈرڈ ہونا چاہیئے۔ اردو اور فراسیسی میں ایک شے ایک ہی جنس ہو یہ نہیں کہ زبان کے ساتھ جنس بھی بدل جائے
 
Top