اردو نظم: تغیّر، از: شام حسین

کاشفی

محفلین
تغیّر
(شام حُسین)
پہلے
تھا محبت میں وہ بھی دَور کبھی
رات دن چاندنی برستی تھی
گرچہ ہرلمحہ وقفِ عشرت تھا
زندگی وقت کو ترستی تھی
راہِ اُلفت کی سخت منزل میں
ہر قدم اُستوار تھا اپنا
خوب پیتے تھے مَے اُن آنکھوں سے
نشہ پر اختیار تھا اپنا

اور اَب
اَب لرزتے ہیں ہر قدم پر پاؤں
اَب مجبت سُبک خرام نہیں
جن سے پی کر قرار آتا تھا

حیف ان آنکھوں میں اب وہ جام نہیں
ٹوٹ جاتی ہو بار بار جو ڈور
اس میں گرہیں لگائیں گے کب تک
عقل جب راستہ دکھاتی ہو
دل کے دھوکے میں آئینگے کب تک
دل تو دھوکے میں رہ بھی سکتا ہے
عقل کب تک فریب کھائیگی
یونہی گرٹوٹتی رہی تو یہ ڈور
آخری بار ٹوٹ جائے گی!
 
Top