محمد تابش صدیقی
منتظم
اردو کالم نگاری کیسے کرتے ہیں
میں بچپن سے اخبار بینی کا مریض ہوں سو اب تک اتنے اخبارات اور کالم پڑھ چکا ہوں کہ پاکستانی صحافت کے ارتقاء پر چھوٹا موٹا تھیسس لکھ سکتا ہوں۔ بچپن میں میں ارشاد احمد حقانی اور پروفیسر وارث میر جیسے لوگوں کے خشک کالم پڑھ کر بے مزہ ہوا کرتا تھا لیکن وہ ابتدائی دور تھا اور اب اردو کالم نویسی ارتقاء کے بعد بہت دلچسپ ہو چکی ہے۔ سو میں نے سوچا کہ اپنے علم کی روشنی میں نئے اردو کالم نویسوں کو کامیابی کے کچھ گر سکھا دوں۔
پہلی پتے کی بات یہ ہے کہ کالم نویس کے لئے یہ قطعی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ درست بات لکھے۔ اس کے لئے ضروری صرف یہ ہے کہ وہ جو لکھے قاری اس پر اعتبار کر لے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ پاکستانی عوام شکی مزاج لوگ نہیں ہیں اور عمومی طور پر ہر لکھی ہوئی بات پر بلا تحقیق یقین کر لیتے ہیں اگر وہ انہیں پسند آئے تو۔ خود پر یقین پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے کالم میں پے در پے قرآنی آیات، احادیث اور اسلامی تاریخ کے واقعات کے حوالے دیں۔ اس سے آپ کے کالم کے گرد تقدس کا ایک ہالہ سا بن جائے گا۔ پھر آپ اس ہالے کے اندر جو بھی لکھیں وہ سچ لگے گا چاہے آپ چارلس ڈیگال سے نکسن کو مشورہ دلوا دیں اور وہ بھی چارلس ڈیگال کی وفات کے کئی برس بعد ۔ اسلامی تاریخ کے واقعات پر خصوصی زور دیں کیونکہ، اول، ایک ہی واقعہ بار بار لکھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا اور، دوم، تاریخی واقعات میں قرآنی آیات اور احادیث کے مقابلے میں تخلیقی صلاحیت دکھانے کا مارجن زیادہ ہے۔ آپ خود سے کوئی تفصیل بڑھا بھی دیں گے تو آپ پر کسی قسم کی توہین کا الزام نہیں لگے گا
اگر آپ سابق سینئر سرکاری افسر ہیں تو بطور کالم نویس آپ کی کامیابی شرطیہ ہے۔ اپنے کالموں میں کھل کر عوام کو بتائیں کہ کون سا کمینہ سرکاری افسر بدعنوان تھا اور کس سیاستدان کی کیا کیا کرتوت تھی۔ یہ سب سچ ہونا قطعی ضروری نہیں کیونکہ پاکستانی عوام ایسی باتوں کو سچ سمجھنے کے لئے اتاولی بیٹھی ہوتی ہے۔ ان سب کے بیان میں ضروری صرف یہ ہے کہ اپنی ملازمت اور اپنی حرکات کا ذکر کم سے کم رکھیں۔ اگر آپ کبھی پاک فوج کے کسی سینئر افسر کے ساتھ پانچ منٹ گزار چکے ہیں یا آئی بی کا کوئی رٹائرڈ اہلکار آپ کا دوست ہے تو پھر آپ کے پاس لائسنس ہے کہ ان شخصیات سے اپنے تعلق کا حوالہ دے دے کر آپ ملک کے تمام مسائل کی فرضی یا حقیقی وجوہات بیان کریں۔
ایک اور کامیابی کی کلید یہ ہے کہ ہر کالم نویس کے پاس ایک فرضی کردار ہونا چاہیے۔ اگر آپ کالم لکھ رہے ہیں اور کوئی سادہ سی بات بیان کرنا چاہتے ہیں جو دو یا تین سطور میں بیان ہو سکتی ہے تو اسے بیان کرنے کے لئے اس کردار کو استعمال کریں۔ اس سے ایک تو کالم کا سائز پورا ہو جائے گا اور دوسرا کالم میں ایک ڈرامائی رنگ آ جائے گا۔ اس فرضی کردار کی لازمی خصوصیات یہ ہیں کہ اسے جاہل اور بدھو ہونا چاہیے اور اسے سوال پر سوال کرنے کی عادت ہو۔ اور سوال بھی ایسے کہ ان کے جوابات دیتے ہوئے خود کالم نگار گھامڑ لگنے لگے۔
مثال کے طور پر ”حمید لاٹو بہت دنوں بعد ڈیرے پر آیا اورکچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔ میں نے لسی منگوا کر اس کے سامنے رکھی اور اس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو بولا ’بابو جی، ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں مل رہا اور اسی لئے پریشان ہوں‘۔ میں نے اسے کہا ’لاٹو یار ایسا کون سا سوال ہے؟ ‘۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’بابو، انسان محنت کیوں کرتا ہے؟ ‘ میں نے ہنس کر کہا ’یار یہ کیا احمقانہ سوال ہے؟ ظاہر ہے دنیوی کامیابی کے لئے، زندگی آسان بنانے کے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لئے‘۔ یہ سن کر لاٹو کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا اور پھر بولا ’بابو جی، یہ سب تو عمران خان نے بہت پہلے حاصل کر لیا تھا تو وہ اب کیوں اتنی محنت کرتا ہے؟ ‘۔ میرے پاس لاٹو کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا“
اگر آپ کوئی مستقل فرضی کردار تشکیل نہیں بھی دیتے تو بھی کردار نگاری اردو کالم نویسی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر کالم نگار عقل کل ہوتا ہے لیکن لوگ عقل کل ٹائپ بندوں کو پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ ہر وقت علم جھاڑتے رہیں گے تو قاری کا ردعمل ہو گا کہ یہ پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا یا سمجھتی ہے۔ سو وہ عقل کی بات جو آپ سے پہلے انسانی تاریخ میں کسی مفکر کو نہیں سوجھی وہ آپ اپنے کسی کردار کے منہ سے ادا کروائیں اور بہت ضروری ہے کہ جب کردار یہ بات کر رہا ہو تو اس میں لقمے مت دیں اور یوں محسوس کروائیں کہ یہ بات تو آپ کے سان گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس سب سے آپ کی بات میں وزن پیدا ہو گا۔
اگر آپ کو تاریخ سے شغف ہے اور آپ اپنے کالم میں تاریخی حوالے دینا چاہتے ہیں تو اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کبھی کوئی بھی ایسا حوالہ دینے سے گریز کریں جس سے مطالعہ پاکستان یا وہ اسلامی تاریخ جو سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے کے کسی پہلو کی تردید ہوتی ہو۔ نصاب کے فریم ورک میں رہ کر آپ جو چاہے لکھیں بلکہ اگر مبالغہ آرائی بھی کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔
مثال کے طور پر آپ لکھ سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر ایک دن ایک ٹوپی سی رہا تھا تو سوئی اس کی انگلی میں چبھ گئی اور خون نکل آیا جس پر اس نے سوچا کہ جب سوئی جیسی معمولی شے کے سامنے شہنشاہ ہند کی کوئی وقعت نہیں تو یہ سب تخت و تاج کس کام کا۔ اب عالمگیر آ کر تردید کرنے سے تو رہا کہ بھائی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا لیکن آپ کے کالم کی واہ واہ ہو جائے گی اور لوگ اس کی پوسٹس بنا کر دھڑا دھڑ فیس بک پر ٹھوکیں گے۔ تاریخ کے حوالے سے ہی ایک گر اور ہے کہ کسی بھی تاریخی شخصیت کی سوانح عمری کا نام جان لیں اور پھر اس کا حوالہ دے کر اس تاریخی شخصیت کے بارے میں جو من میں آئے لکھ ماریں۔ پچانوے فیصد لوگوں نے وہ سوانح عمری نہیں پڑھ رکھی ہوگی اور باقی کے پانچ فیصد آپ کے کالم کے قاری نہیں ہوں گے
جب آپ کالم نگاری میں اپنا مقام بنا چکیں اور آپ کے کالموں کے دو ایک مجموعے بھی چھپ جائیں تو اب آپ کی اگلی منزل بیرون ملک دورے اور سفری کالم لکھنا ہے۔ یاد رہے کہ اردو ادب کی صنف سفرنامہ اور سفری کالم نگاری میں بہت واضح فرق ہے۔ سفرنامے کا ادیب کسی دوسرے ملک کی تصویر کھینچتا ہے لیکن سفری کالم نویس ہر دوسرے ملک میں پاکستان کو تلاش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سفرنامہ نویس الپس کی پہاڑیوں میں جاتا ہے تو وہ وہاں کے دلکش نظاروں کا بیان کرتا ہے یا پھر کسی کافر حسینہ کو بقدر ضرورت اپنے عشق میں مبتلا کروا لیتا ہے۔
کامیاب سفری کالم نویس قدرتی مناظر کا بیان تو کرتا ہے لیکن سرسری انداز میں۔ اس کی نظر بہرحال الپس کی سیاح گاہوں میں سگریٹ کے ٹوٹوں، شاپر بیگوں اور جانوروں کے فضلے کی پیہم تلاش میں ہوتی ہے جسے نہ پا کر وہ اتھاہ مایوسی کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس مقام سے آگے کالم نگاری پاکستانی قوم کی مرثیہ نویسی کا روپ ڈھال لیتی ہے۔ سفری کالم نویسی کا ایک اور بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب آپ کے کالم کے فرضی کردار غیر ملکی بھی ہو سکتے ہیں۔ جب آپ پاکستان کے بارے میں اپنی کوئی عقل کی بات کسی گورے کردار سے ادا کروائیں گے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے گا
سفری کالم نویسی کا ایک بہت اہم پہلو بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کا بیان ہے جنہوں نے کسی بھی طور آپ کی میزبانی کی ہو۔ ان کے نام اور ہو سکے تو ان کے بچوں تک کے نام، پاکستان میں ان کے آبائی علاقے اور بیرون ملک ان کے ذریعہ معاش کو نوٹ کر لیں اور اپنے سفری کالم میں ان سب تفصیلات کا ذکر کریں۔ اگر ان کی شخصیت میں آپ کو کوئی کمی یا عیب نظر آیا ہو تو اس کا ذکر مت کریں۔ خدا نے عیب پوشی کا حکم دے رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب تفصیلات سے آپ کے قاری کو ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں لیکن اس سے آپ کے اگلے بیرون ملک سفر کے لئے ایک جہان امکانات کھل جائے گا۔ اب آپ جہاں جائیں گے، پاکستانیوں کو اپنی میزبانی کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے پائیں گے۔
ان چند ٹوٹکوں کے بعد جب آپ کی کالم نویسی کی دھاک بیٹھ جائے تو اگلی منزل ٹی وی اینکر بننا ہے جس کی کامیابی کے گر پھر کبھی بیان کروں گا۔
بشکریہ: ہم سب
میں بچپن سے اخبار بینی کا مریض ہوں سو اب تک اتنے اخبارات اور کالم پڑھ چکا ہوں کہ پاکستانی صحافت کے ارتقاء پر چھوٹا موٹا تھیسس لکھ سکتا ہوں۔ بچپن میں میں ارشاد احمد حقانی اور پروفیسر وارث میر جیسے لوگوں کے خشک کالم پڑھ کر بے مزہ ہوا کرتا تھا لیکن وہ ابتدائی دور تھا اور اب اردو کالم نویسی ارتقاء کے بعد بہت دلچسپ ہو چکی ہے۔ سو میں نے سوچا کہ اپنے علم کی روشنی میں نئے اردو کالم نویسوں کو کامیابی کے کچھ گر سکھا دوں۔
پہلی پتے کی بات یہ ہے کہ کالم نویس کے لئے یہ قطعی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ درست بات لکھے۔ اس کے لئے ضروری صرف یہ ہے کہ وہ جو لکھے قاری اس پر اعتبار کر لے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں کیونکہ پاکستانی عوام شکی مزاج لوگ نہیں ہیں اور عمومی طور پر ہر لکھی ہوئی بات پر بلا تحقیق یقین کر لیتے ہیں اگر وہ انہیں پسند آئے تو۔ خود پر یقین پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے کالم میں پے در پے قرآنی آیات، احادیث اور اسلامی تاریخ کے واقعات کے حوالے دیں۔ اس سے آپ کے کالم کے گرد تقدس کا ایک ہالہ سا بن جائے گا۔ پھر آپ اس ہالے کے اندر جو بھی لکھیں وہ سچ لگے گا چاہے آپ چارلس ڈیگال سے نکسن کو مشورہ دلوا دیں اور وہ بھی چارلس ڈیگال کی وفات کے کئی برس بعد ۔ اسلامی تاریخ کے واقعات پر خصوصی زور دیں کیونکہ، اول، ایک ہی واقعہ بار بار لکھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا اور، دوم، تاریخی واقعات میں قرآنی آیات اور احادیث کے مقابلے میں تخلیقی صلاحیت دکھانے کا مارجن زیادہ ہے۔ آپ خود سے کوئی تفصیل بڑھا بھی دیں گے تو آپ پر کسی قسم کی توہین کا الزام نہیں لگے گا
اگر آپ سابق سینئر سرکاری افسر ہیں تو بطور کالم نویس آپ کی کامیابی شرطیہ ہے۔ اپنے کالموں میں کھل کر عوام کو بتائیں کہ کون سا کمینہ سرکاری افسر بدعنوان تھا اور کس سیاستدان کی کیا کیا کرتوت تھی۔ یہ سب سچ ہونا قطعی ضروری نہیں کیونکہ پاکستانی عوام ایسی باتوں کو سچ سمجھنے کے لئے اتاولی بیٹھی ہوتی ہے۔ ان سب کے بیان میں ضروری صرف یہ ہے کہ اپنی ملازمت اور اپنی حرکات کا ذکر کم سے کم رکھیں۔ اگر آپ کبھی پاک فوج کے کسی سینئر افسر کے ساتھ پانچ منٹ گزار چکے ہیں یا آئی بی کا کوئی رٹائرڈ اہلکار آپ کا دوست ہے تو پھر آپ کے پاس لائسنس ہے کہ ان شخصیات سے اپنے تعلق کا حوالہ دے دے کر آپ ملک کے تمام مسائل کی فرضی یا حقیقی وجوہات بیان کریں۔
ایک اور کامیابی کی کلید یہ ہے کہ ہر کالم نویس کے پاس ایک فرضی کردار ہونا چاہیے۔ اگر آپ کالم لکھ رہے ہیں اور کوئی سادہ سی بات بیان کرنا چاہتے ہیں جو دو یا تین سطور میں بیان ہو سکتی ہے تو اسے بیان کرنے کے لئے اس کردار کو استعمال کریں۔ اس سے ایک تو کالم کا سائز پورا ہو جائے گا اور دوسرا کالم میں ایک ڈرامائی رنگ آ جائے گا۔ اس فرضی کردار کی لازمی خصوصیات یہ ہیں کہ اسے جاہل اور بدھو ہونا چاہیے اور اسے سوال پر سوال کرنے کی عادت ہو۔ اور سوال بھی ایسے کہ ان کے جوابات دیتے ہوئے خود کالم نگار گھامڑ لگنے لگے۔
مثال کے طور پر ”حمید لاٹو بہت دنوں بعد ڈیرے پر آیا اورکچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔ میں نے لسی منگوا کر اس کے سامنے رکھی اور اس سے پریشانی کا سبب پوچھا تو بولا ’بابو جی، ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں مل رہا اور اسی لئے پریشان ہوں‘۔ میں نے اسے کہا ’لاٹو یار ایسا کون سا سوال ہے؟ ‘۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’بابو، انسان محنت کیوں کرتا ہے؟ ‘ میں نے ہنس کر کہا ’یار یہ کیا احمقانہ سوال ہے؟ ظاہر ہے دنیوی کامیابی کے لئے، زندگی آسان بنانے کے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لئے‘۔ یہ سن کر لاٹو کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا اور پھر بولا ’بابو جی، یہ سب تو عمران خان نے بہت پہلے حاصل کر لیا تھا تو وہ اب کیوں اتنی محنت کرتا ہے؟ ‘۔ میرے پاس لاٹو کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا“
اگر آپ کوئی مستقل فرضی کردار تشکیل نہیں بھی دیتے تو بھی کردار نگاری اردو کالم نویسی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر کالم نگار عقل کل ہوتا ہے لیکن لوگ عقل کل ٹائپ بندوں کو پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ ہر وقت علم جھاڑتے رہیں گے تو قاری کا ردعمل ہو گا کہ یہ پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا یا سمجھتی ہے۔ سو وہ عقل کی بات جو آپ سے پہلے انسانی تاریخ میں کسی مفکر کو نہیں سوجھی وہ آپ اپنے کسی کردار کے منہ سے ادا کروائیں اور بہت ضروری ہے کہ جب کردار یہ بات کر رہا ہو تو اس میں لقمے مت دیں اور یوں محسوس کروائیں کہ یہ بات تو آپ کے سان گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس سب سے آپ کی بات میں وزن پیدا ہو گا۔
اگر آپ کو تاریخ سے شغف ہے اور آپ اپنے کالم میں تاریخی حوالے دینا چاہتے ہیں تو اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کبھی کوئی بھی ایسا حوالہ دینے سے گریز کریں جس سے مطالعہ پاکستان یا وہ اسلامی تاریخ جو سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے کے کسی پہلو کی تردید ہوتی ہو۔ نصاب کے فریم ورک میں رہ کر آپ جو چاہے لکھیں بلکہ اگر مبالغہ آرائی بھی کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔
مثال کے طور پر آپ لکھ سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر ایک دن ایک ٹوپی سی رہا تھا تو سوئی اس کی انگلی میں چبھ گئی اور خون نکل آیا جس پر اس نے سوچا کہ جب سوئی جیسی معمولی شے کے سامنے شہنشاہ ہند کی کوئی وقعت نہیں تو یہ سب تخت و تاج کس کام کا۔ اب عالمگیر آ کر تردید کرنے سے تو رہا کہ بھائی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا لیکن آپ کے کالم کی واہ واہ ہو جائے گی اور لوگ اس کی پوسٹس بنا کر دھڑا دھڑ فیس بک پر ٹھوکیں گے۔ تاریخ کے حوالے سے ہی ایک گر اور ہے کہ کسی بھی تاریخی شخصیت کی سوانح عمری کا نام جان لیں اور پھر اس کا حوالہ دے کر اس تاریخی شخصیت کے بارے میں جو من میں آئے لکھ ماریں۔ پچانوے فیصد لوگوں نے وہ سوانح عمری نہیں پڑھ رکھی ہوگی اور باقی کے پانچ فیصد آپ کے کالم کے قاری نہیں ہوں گے
جب آپ کالم نگاری میں اپنا مقام بنا چکیں اور آپ کے کالموں کے دو ایک مجموعے بھی چھپ جائیں تو اب آپ کی اگلی منزل بیرون ملک دورے اور سفری کالم لکھنا ہے۔ یاد رہے کہ اردو ادب کی صنف سفرنامہ اور سفری کالم نگاری میں بہت واضح فرق ہے۔ سفرنامے کا ادیب کسی دوسرے ملک کی تصویر کھینچتا ہے لیکن سفری کالم نویس ہر دوسرے ملک میں پاکستان کو تلاش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سفرنامہ نویس الپس کی پہاڑیوں میں جاتا ہے تو وہ وہاں کے دلکش نظاروں کا بیان کرتا ہے یا پھر کسی کافر حسینہ کو بقدر ضرورت اپنے عشق میں مبتلا کروا لیتا ہے۔
کامیاب سفری کالم نویس قدرتی مناظر کا بیان تو کرتا ہے لیکن سرسری انداز میں۔ اس کی نظر بہرحال الپس کی سیاح گاہوں میں سگریٹ کے ٹوٹوں، شاپر بیگوں اور جانوروں کے فضلے کی پیہم تلاش میں ہوتی ہے جسے نہ پا کر وہ اتھاہ مایوسی کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس مقام سے آگے کالم نگاری پاکستانی قوم کی مرثیہ نویسی کا روپ ڈھال لیتی ہے۔ سفری کالم نویسی کا ایک اور بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب آپ کے کالم کے فرضی کردار غیر ملکی بھی ہو سکتے ہیں۔ جب آپ پاکستان کے بارے میں اپنی کوئی عقل کی بات کسی گورے کردار سے ادا کروائیں گے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے گا
سفری کالم نویسی کا ایک بہت اہم پہلو بیرون ملک مقیم ان پاکستانیوں کا بیان ہے جنہوں نے کسی بھی طور آپ کی میزبانی کی ہو۔ ان کے نام اور ہو سکے تو ان کے بچوں تک کے نام، پاکستان میں ان کے آبائی علاقے اور بیرون ملک ان کے ذریعہ معاش کو نوٹ کر لیں اور اپنے سفری کالم میں ان سب تفصیلات کا ذکر کریں۔ اگر ان کی شخصیت میں آپ کو کوئی کمی یا عیب نظر آیا ہو تو اس کا ذکر مت کریں۔ خدا نے عیب پوشی کا حکم دے رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب تفصیلات سے آپ کے قاری کو ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں لیکن اس سے آپ کے اگلے بیرون ملک سفر کے لئے ایک جہان امکانات کھل جائے گا۔ اب آپ جہاں جائیں گے، پاکستانیوں کو اپنی میزبانی کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے پائیں گے۔
ان چند ٹوٹکوں کے بعد جب آپ کی کالم نویسی کی دھاک بیٹھ جائے تو اگلی منزل ٹی وی اینکر بننا ہے جس کی کامیابی کے گر پھر کبھی بیان کروں گا۔
بشکریہ: ہم سب