اردو کلاسیکی شعرا کے ہاں ہندی فارسی ترکیبات

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اس گنگا جمنی تہذیب میں ہندی اور فارسی یا عربی کو ملا کر تراکیب بنانا غیرقانونی ہے۔ :) جبکہ میں اسے سراسر جائز سمجھتا ہوں اور میرا خیال تھا کہ کلاسیکی شعرا کے ہاں ایسی تراکیب مجھے مل جائیں گی۔ لہٰذا یہاں پر ایسے اشعار یا فقرات جمع کیے جائیں گے جن میں یہ تراکیب استعمال ہوئیں آپ احباب سے بھی گذارش ہے کہ اگر کوئی ایسی ترکیب نظر سے گزرے جو کہ کلاسیکی شعرا یا ادبا نے استعمال کی ہو تو براہِ مہربانی اسے یہاں درج کرتے جائیں۔ مجھے دو تراکیب ملی ہیں۔ ایک غالب کے ہاں سے اور ایک میر کے ہاں سے۔
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا
میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں
بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کِسے کے یارِ غار
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ
سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے
قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر۔ کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب
رشتۂ در گردنم افگندہ دوست
می بُرد ہر جا کہ خاطر خواہِ اوست
 

فرخ منظور

لائبریرین
گُل تھے سو سو رنگ پر ایسا شورِ طیور بلند نہ تھا
اس کے رنگِ چمن میں کوئی شاید پھول نظر آیا
میر تقی میرٰؔ
 
گُل تھے سو سو رنگ پر ایسا شورِ طیور بلند نہ تھا
اس ترکیب میں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ شور فارسی الاصل لفظ ہے.
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
مجھے یہ ترکیب عجیب معلوم ہو رہی ہے لیکن یہ بھی چل سکتی ہے کیونکہ اس میں ہندی/اردو کے مخصوص حروف یعنی ڈ، ٹ، ڑ وغیرہ میں سے کوئی موجود نہیں ہے.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے
مجھے یہ ترکیب عجیب معلوم ہو رہی ہے لیکن یہ بھی چل سکتی ہے کیونکہ اس میں ہندی/اردو کے مخصوص حروف یعنی ڈ، ٹ، ڑ وغیرہ میں سے کوئی موجود نہیں ہے.
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
ویسے پتنگ کا لفظ فارسی میں بھی ہے ، البتہ (روشندان چھوٹی کھڑکی ) کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔واللہ اعلم۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وکی پیڈیا تو علاوہ کوئی حوالہ؟
غزنوی دور میں اس زبان کو ہندی یا ہندوی کہا جاتا تھا۔ اس عہد کے مشہور شاعر مسعود سعد سلمان کے دیوان کو ہندوی بتایا گیا ہے۔ بعد کے پنجابی مصنفین بھی اس زبان کو ہندی یا ہندوی کہتے رہے ہیں۔
پنجابی زبان و ادب از حمید اللہ شاہ ہاشمی، صفحہ 10
 

سید عاطف علی

لائبریرین

فرخ منظور

لائبریرین
یہ لفظ برس۔ کال کی متغیر شکل ہے ۔ بمعنی بارش کا وقت ۔ یا برسات کاموسم ۔ (دھخدا)
فروز میکده باقر اگر حریف میی
رسید خم به ته و برشکال میگذرد

بارش بھی برش یا برس سے ہی نکلا ہے۔ یہ ہندی کے لہجے ہیں بعض علاقوں میں برس بولتے ہیں بعض میں برش۔ جیسے وسنت اور بسنت ایسے ہی بے شمار الفاظ ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بارش بھی برش یا برس سے ہی نکلا ہے۔ یہ ہندی کے لہجے ہیں بعض علاقوں میں برس بولتے ہیں بعض میں برش۔ جیسے وسنت اور بسنت ایسے ہی بے شمار الفاظ ہیں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ بارش ، باریدن سے بنا ہے ( جیسے خاراندن سے خارش بنا ہے ۔)
برسنے سے بارش کا تعلق لفظی نہیں بلکہ معنوی تعلق ہے ۔ واللہ اعلم۔
 

الف عین

لائبریرین
پتنگ کے بارے میں ایک بات مزید کیوں، کہ پتنگ ہمارے بچپن میں ہماری پر نانی کو اڑنے والے کیڑوں کے لیے بولتے ہوئے سنا تھا، اسی میں ہ/الف یا ے کے اضافے سے پتنگا/پتنگہ اور پتنگے( جمع) بھی بولتے ہیں۔ ان معنوں میں فارسی میں صرف پتنگا ملتا ہے آج کل تو!
 

فرخ منظور

لائبریرین
پتنگ کے بارے میں ایک بات مزید کیوں، کہ پتنگ ہمارے بچپن میں ہماری پر نانی کو اڑنے والے کیڑوں کے لیے بولتے ہوئے سنا تھا، اسی میں ہ/الف یا ے کے اضافے سے پتنگا/پتنگہ اور پتنگے( جمع) بھی بولتے ہیں۔ ان معنوں میں فارسی میں صرف پتنگا ملتا ہے آج کل تو!

غالب نے یقیناً جن معنوں میں لکھا ہے وہ واضح ہے۔
 
Top