محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
اردو کی سب سے پہلی غزل
شاہجہاں ہی کے زمانے میں نئی دہلی میں وہاں کی پرانی زبان نئے سرے سے زندہ ہوتی ہے جو عہدِ عالمگیری میں برج بھاشا کے قدم ادبی حلقوں سے اُکھاڑ دیتی ہے۔ بعض مُحققوں ( کیفیہ صفحہ نمبر 25 از پنڈت دتاتریہ کیفی۔ پنڈت جی نے یہ حوالہ نہیں دیا کہ غزل مذکورہ کہاںسے دستیاب ہوئی) کے مطابق اردو کی اولین غزل جو اس وقت دستیاب ہے شاہ جہاں ہی کے عہد میں پنڈت چندر بھان برہمن ( 1574 تا 1662 ) نے لکھی تھی۔
خدا جانے یہ کس شہر اندر ہمن کو لاکے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناوں کی سِمرن کیا چاہوں کروں کیسے
نہ تسبیح ہے نہ سِمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
پیا کے ناوں عاشق قتل با عجب دیکھے ہوں
نہ برچھی ہے نہ کرچھی ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے
خوباں کی باغ میں رونق ہووے تو کس طرح یاراں
نہ دونا ہے نہ مردا ہے نہ سوسن ہے نہ لالہ ہے
برہمن واسطے اشنان کے بھرتا ہے بگیا سیں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہے نہ نالا ہے
غزل مذکورہ زبانِ دہلوی کی نشاط الثانیہ کا پہلا نقش کہا جا سکتا ہے۔نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناوں کی سِمرن کیا چاہوں کروں کیسے
نہ تسبیح ہے نہ سِمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
پیا کے ناوں عاشق قتل با عجب دیکھے ہوں
نہ برچھی ہے نہ کرچھی ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے
خوباں کی باغ میں رونق ہووے تو کس طرح یاراں
نہ دونا ہے نہ مردا ہے نہ سوسن ہے نہ لالہ ہے
برہمن واسطے اشنان کے بھرتا ہے بگیا سیں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہے نہ نالا ہے
حوالہ : مقدمہ تاریخِ زبانِ اردو
تالیف : ٍڈاکٹر مسعود حسین خان ایم اے پی ایچ ڈی ( علیگ ) ڈی لٹ ( پیرس ) صدر شعبہء اردو ۔ جامعہ عثمانیہ۔ حیدر آباد دکن
صفحہ نمبر : 125۔126
ناشر : اردو مرکز ۔ لاہور
آخری تدوین: