'اردو کے ضرب الامثال اشعار'۔ محمد شمس الحق

فرحت کیانی

لائبریرین
تقریباً ایک سال قبل 'اردو کے ضرب الامثال اشعار' کے عنوان سے لکھی گئی ایک کتاب کا تعارف پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ 'محمد شمس الحق' نے لکھی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بہت سے اشعار جو ضرب المثل بن چکے ہیں وہ مؤلف کی تحقیق کے مطابق اپنے اصل متن سے کافی مختلف ہیں۔صاحب تبصرہ'قاضی اختر جونا گڑھی' کے مطابق اس کتاب میں اشعار کے اس متن اور شعراء کا کھوج بھرپور علمی تحقیق کا نتیجہ ہے اور اصل متن اور شاعر کا نام پیش کرتے ہوئے مکمل تحقیقی جواز پیش کیا گیا ہے۔

مضمون میں شامل چند اشعار۔

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری ہو جائے

جبکہ اس شعر کا مصرع ثانی یوں مشہور ہے۔
کہ آگ لینے کو جائیں، پیمبری مل جائے
اس شعر کے خالق 'نواب امین الدولہ مہر' ہیں۔

ایک اور شعر عموماً ایسے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے ، دیکھو چاند بن گہنے

اصل شعر کچھ یوں ہے۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنما لگتا ہے ، جیسے چاند کو گہنا

شاعر: شاہ مبارک آرزو

مشہور شعر جو راجہ رام نرائن نے نواب سراج الدولہ کی وفات پر لکھا تھا۔ ہم نے تو اس کو یوں پڑھا تھا۔
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟
مؤلف کی تحقیق کے مطابق مصرع ثانی یہ ہے۔
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزرا؟

اسی طرح مرزا رفیع سودا کے مشہور شعر
گل پھینکو ہو اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
میں پہلا مصرعہ یوں بتایا گیا ہے۔
'گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی'

میر تقی میر کا یہ شعر ہمیشہ یوں ہی پڑھا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
جبکہ مؤلف کے مطابق اصل شعر ہے
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

میر ہی کا ایک اور شعر۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اصل متن
میر کیا سادے ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں'

'شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'

یہ میر کا شعر سمجھا جاتا ہے لیکن صاحبِ تالیف کے مطابق یہ شعر ایک اور شاعر 'محمدیار خان امیر' کا ہے اور اصل شعر یوں ہے۔
شکست و فتح میاں اتفاق ہے ، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا


'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی' اس کا مصرع اولیٰ اور شاعر کا نام تو معلوم ہوا ہی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مصرعے میں بھی الفاظ کی کچھ ترمیم ہو چکی ہے۔
صاحبِ کتاب کے بقول یہ شعر ایک گمنام شاعر ‘جہاندار شاہ جہاندار’ کا ہے اور اصل میں کچھ یوں ہے۔
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک، جہاں کا خمیر ہو'

اسی طرح
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ سے
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
کتاب میں اس شعر کے اصل شاعر کا نام 'عظیم بیگ عظیم' اور اصل شعر یوں نقل کیا گیا ہے۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

ابراہیم ذوق کا شعر
پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے
یوں بیان کیا گیا ہے۔
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھِلے مرجھا گئے

'سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے' کا پہلا مصرعہ اور شاعر کا نام یوں بیان کیا گیا ہے کہ
اگر بخشے، زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

شاعر اصغر خان اصغر

بہادر شاہ ظفر سے منسوب مشہورِ زمانہ غزل 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں' کو صاحبِ تالیف نے شاعر'جاں نثار حسین اختر' کے والد 'مضطر خیر آبادی' سے منسوب کیا ہے۔ اور اس غزل کے چار مزید اشعار بھی درج کئے ہیں۔

میں نہیں نغمۂ جانفزا، کوئی مجھ کو سن کے کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا ، مرا رنگ و روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا ، میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں مضطر ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطر ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں

ایک بار فاتح نے بھی یہ مضمون محفل پر پوسٹ کرنے کی تاکید کی تھی لیکن مجھے ریفرنس کے لئے ربط نہیں مل رہا تھا۔ اب مل گیا ہے تو یہاں پوسٹ کر رہی ہوں۔ یہ مضمون 28 نومبر 2007 کے جنگ مڈویک میگزین میں چھپا تھا۔

2200_11-28-2007_2.jpg

2200_11-28-2007_3-1.jpg

2200_11-28-2007_4-1.jpg
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ فرحت۔
میں‌کسی مصرع کو گوگل کرتے کرتے آپ کے بلاگ تک پہنچا تھا اور جب سے آپ کے بلاگ پر پڑھا تب سے اس کتاب کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترمہ فرحت کیانی جی
سدا خوش و آباد رہیں آمین
بہت شکریہ اس مفید اور معلوماتی تحریر کا ۔
اک موضوع مل گیا محفل دوستاں میں بحث کرنے کو ،
اللہ کرے ذوق علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم فرحت ، بہت عمدہ مضمون ہے ۔ آج نظر سے گذرا ، تسلی سے بیٹھ کر دوبارہ بھی پڑھوں گی ، تحقیقی تحریریں جب بھی پڑھی جائیں نئی محسوس ہوتی ہیں ۔
 

مغزل

محفلین
قاضی اختر جونا گڑھی ، رئیس فاطمہ کے شوہرِ نامدار ہیں ، اس موضوع پر مضمون روزنامہ ایکسپریس میں بتاریخ آٹھ اکتوبر دو ہزار نو کو شایع ہوا۔عنوان: اردو کے ضرب المثل اشعار،مضمون نگار: رئیس فاطمہ
کراچی میں ہماری سکونت قریب ہی ہے ۔ فون نمبر ذپ میں ارسال کردیا جائے گا، تاکہ شکوک و شبہات پر بات کی جاسکے
 
اَربابِ علم دانش سے گذارش ہے کہ

یہ چند اشعار کے پہلے مصرعے ہیں جو اس پوسٹ میں شامل نہیں کیے گئے اگر آپ کے علم میں ہوں تو اِن کو بھی مکمل کر دیجیئے۔ میں بذات خود انٹرنیٹ پر ان

کو تلاش کرنے کی سعی کرچکا ہوں لیکن ناکامی ہوئی،

)ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمکو بھی لے ڈوبیں گے1)

کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت حسین تھی۔(2)

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے (3)

وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا (4)

پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی (5)

اگر اب بھی نہیں سمجھے تو پھر تم سے خدا سمجھے (6)
 

کاشف اختر

لائبریرین
اس کتاب کی کاپی رائٹ کا کیا مسئلہ ہے ہمیں قطعا معلوم نہیں ابھی چند روز قبل میرے ایک فیس بک فرینڈ نے اپنی وال پر شیر کیا تھا ، سو ہم بھی یہاں ربط شامل کردیتے ہیں !
 
ایک مصرعہ کہ،
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی
پر بندہء ناچیز نے کچھ طبع آزمائی کی ہے تصحیح اور اصلاح کی درخواست ہے۔
۔
رانی محل سرا کی بہت مہ جبین تھی
کہتے ہیں اہل علم ، یہیں پر مقیم تھی
گو،، حال خستہ حال ہے ماضی تو خوب تھا
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی
 

جاوید کاشف

محفلین
شکریہ فرحت کیانی صاحبہ۔ ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ بذات خود محقق کی رائے سے متفق ہیں یا نہیں۔ عثمان مظطر صاحب نے *کھنڈر* کو بر وزن فعلن باندھا ہے جبکہ بیشتر اساتذہ اسے بر وزن فعو لیتے ہیں۔
یہ کس کی قبر ہے ویراں، کھنڈر سی، بے کتبہ
سنا رہی ہے ہوا کس کا مرثیہ اب تک
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں اوزان میں سے کوئی ایک وزن مرجح ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرحت کیانی صاحبہ۔ ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ بذات خود محقق کی رائے سے متفق ہیں یا نہیں۔ عثمان مظطر صاحب نے *کھنڈر* کو بر وزن فعلن باندھا ہے جبکہ بیشتر اساتذہ اسے بر وزن فعو لیتے ہیں۔
یہ کس کی قبر ہے ویراں، کھنڈر سی، بے کتبہ
سنا رہی ہے ہوا کس کا مرثیہ اب تک
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں اوزان میں سے کوئی ایک وزن مرجح ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟
میرے خیال میں درست مصرع یہ ہے۔
آثار بتاتے ہیں عمارت عظیم تھی
 

سیما علی

لائبریرین
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
مرزا اسد اللہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بار فاتح نے بھی یہ مضمون محفل پر پوسٹ کرنے کی تاکید کی تھی لیکن مجھے ریفرنس کے لئے ربط نہیں مل رہا تھا۔ اب مل گیا ہے تو یہاں پوسٹ کر رہی ہوں
بہت اعلیٰ فرحت بٹیا !!!
شکریہ فرحت کیانی بٹیا بے حد معلوماتی بہت شکریہ آپکا
جیتی رہیے ۔۔۔
 
Top