arifkarim
معطل
ویسے تو یہ روداد کئی سال پہلے لکھی گئی البتہ آج اے خان بھائی کی روداد پڑھ کر دوبارہ یاد آ گئی۔ اُسوقت گھریلو مصروفیت اور دیگر امور کی وجہ سے اسے شائع کرنے سے قاصر رہا تھا۔ اسلئے آج وقت نکال کر ارسال کر رہا ہوں۔
سو دوستو! قصہ کچھ یوں کہ آج سے ٹھیک چار سال قبل جب ہم شادی خانہ بربادی کی رسومات ادا کر کے فارغ ہوئے تو خیال آیا کہ واپس ناروے جانے میں صرف ایک دن باقی ہے اور کسی محفلین سے ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا۔ یوں اسی وقت عبد المجید بھائی کا نمبر گھمایا اور ملاقات کی درخواست کی۔ آپ آگے سے مختلف بہانے لگے کہ مشکل ہے، نہیں ہو سکے گی۔ ہمیں پہلے ہی اپنی شادی میں انکی غیر حاضری کا شکوہ تھا۔ فوراً طیش میں آکر دھمکی دی کہ اگر اب آکر نہ ملے تو شاید ساری عمر نہ مل سکو گے۔ یہ کہہ کر ہم نے فون رکھ دیا۔ چندہی منٹوں میں جناب کی کال آ گئی کہ وہ کل عزت مآب شاکر القادری صاحب کے ہمراہ راولپنڈی کیلئے روانہ ہوں گے۔ یہ سُن کر ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم نے تو مذاقاً دھمکی دی تھی (نارویجن اسٹائل) وہ سچی مچی سمجھ کر ملاقات کیلئے تیار ہو گئے۔
اگلے روز شام کو ہم اپنے خالو کے ہمراہ پاکستان کے مصروف ترین بس اسٹاپ پیر ودھائی پہنچے۔ ہماری مت ماری گئی تھی جو وہاں ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ پاکستانی عوام کے اس جم غفیر میں دو محفلین کہاں ملنے والے تھے۔ اوپر سے ٹرکوں اور بسوں کے شور کی وجہ سے موبائل کی کال تک نہیں سنائی دےرہی تھی۔ بہرحال ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ایک پُل صراط کے نیچے دونوں مہمان گرامی کو ڈھونڈ کر بغل گیر ہو گئے۔ جب حواس ذرا بحال ہوئے تو خالو کو غائب پایا۔ الحمد للہ انکی گاڑی کا رنگ اتنا سر سبز و شاداب تھا کہ سخت رش کے باوجود ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔
گھر پہنچ کر بر آمدے میں براجمان ہوئے تو گھر والوں نے دسترخوان لگوا دیا۔ شاکر القادری صاحب شاید روزہ رکھ کر آئے تھے اسلئے انہوں نے سوائے پانی اور سگریٹ کے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جبکہ عبد المجید بھائی نے رج کر روٹیاں توڑیں۔
طعام و آرام کے بعد عبد المجید نے اپنے ہمراہ لائے بڑے سے بیگ میں سے کچھ نکالا۔ ہم نے سوچا شاید پشاور کی کوئی عمدہ چیز تحفہ میں لائے ہیں، لیکن اندر سے ایک ردی لیپ ٹاپ برآمد ہوا۔ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی ڈیل وغیرہ سائن کرنی ہے جو اتنی دور سے اسے ساتھ لائے۔ مگر ہماری حیرانی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب موصوف نے اپنے جدید فانٹ پراجیکٹ سے ہمیں’’ بور‘‘ کرنا شروع کیا۔ مانا کہ اردو فانٹ سازی سے ہمیں جنون کی حد تک لگاؤ ہے مگر آمنے سامنے ملاقات میں یہ سب ہو گا، ہمیں اسکی قطعی توقع نہ تھی۔
پھر بھی ہم نے انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساری پریزینٹیشن سنی یہاں تک کہ مغرب ہو گئی۔ اندھیرا ہونے والا تھا اور ہم نے کافی زور لگایا کہ رات یہیں گیسٹ ہاؤس میں گزار لیں۔ مگر مہمانان گرامی نے ہماری ایک نہ سنی اور جلد از جلد یہ یادگار تصویر بنا کر رفو چکر ہو گئے۔
شاکرالقادری عبدالمجید یاز محمد تابش صدیقی نیرنگ خیال عباس اعوان
سو دوستو! قصہ کچھ یوں کہ آج سے ٹھیک چار سال قبل جب ہم شادی خانہ بربادی کی رسومات ادا کر کے فارغ ہوئے تو خیال آیا کہ واپس ناروے جانے میں صرف ایک دن باقی ہے اور کسی محفلین سے ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا۔ یوں اسی وقت عبد المجید بھائی کا نمبر گھمایا اور ملاقات کی درخواست کی۔ آپ آگے سے مختلف بہانے لگے کہ مشکل ہے، نہیں ہو سکے گی۔ ہمیں پہلے ہی اپنی شادی میں انکی غیر حاضری کا شکوہ تھا۔ فوراً طیش میں آکر دھمکی دی کہ اگر اب آکر نہ ملے تو شاید ساری عمر نہ مل سکو گے۔ یہ کہہ کر ہم نے فون رکھ دیا۔ چندہی منٹوں میں جناب کی کال آ گئی کہ وہ کل عزت مآب شاکر القادری صاحب کے ہمراہ راولپنڈی کیلئے روانہ ہوں گے۔ یہ سُن کر ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم نے تو مذاقاً دھمکی دی تھی (نارویجن اسٹائل) وہ سچی مچی سمجھ کر ملاقات کیلئے تیار ہو گئے۔
اگلے روز شام کو ہم اپنے خالو کے ہمراہ پاکستان کے مصروف ترین بس اسٹاپ پیر ودھائی پہنچے۔ ہماری مت ماری گئی تھی جو وہاں ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ پاکستانی عوام کے اس جم غفیر میں دو محفلین کہاں ملنے والے تھے۔ اوپر سے ٹرکوں اور بسوں کے شور کی وجہ سے موبائل کی کال تک نہیں سنائی دےرہی تھی۔ بہرحال ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ایک پُل صراط کے نیچے دونوں مہمان گرامی کو ڈھونڈ کر بغل گیر ہو گئے۔ جب حواس ذرا بحال ہوئے تو خالو کو غائب پایا۔ الحمد للہ انکی گاڑی کا رنگ اتنا سر سبز و شاداب تھا کہ سخت رش کے باوجود ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔
گھر پہنچ کر بر آمدے میں براجمان ہوئے تو گھر والوں نے دسترخوان لگوا دیا۔ شاکر القادری صاحب شاید روزہ رکھ کر آئے تھے اسلئے انہوں نے سوائے پانی اور سگریٹ کے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جبکہ عبد المجید بھائی نے رج کر روٹیاں توڑیں۔
طعام و آرام کے بعد عبد المجید نے اپنے ہمراہ لائے بڑے سے بیگ میں سے کچھ نکالا۔ ہم نے سوچا شاید پشاور کی کوئی عمدہ چیز تحفہ میں لائے ہیں، لیکن اندر سے ایک ردی لیپ ٹاپ برآمد ہوا۔ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی ڈیل وغیرہ سائن کرنی ہے جو اتنی دور سے اسے ساتھ لائے۔ مگر ہماری حیرانی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب موصوف نے اپنے جدید فانٹ پراجیکٹ سے ہمیں’’ بور‘‘ کرنا شروع کیا۔ مانا کہ اردو فانٹ سازی سے ہمیں جنون کی حد تک لگاؤ ہے مگر آمنے سامنے ملاقات میں یہ سب ہو گا، ہمیں اسکی قطعی توقع نہ تھی۔
پھر بھی ہم نے انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساری پریزینٹیشن سنی یہاں تک کہ مغرب ہو گئی۔ اندھیرا ہونے والا تھا اور ہم نے کافی زور لگایا کہ رات یہیں گیسٹ ہاؤس میں گزار لیں۔ مگر مہمانان گرامی نے ہماری ایک نہ سنی اور جلد از جلد یہ یادگار تصویر بنا کر رفو چکر ہو گئے۔
شاکرالقادری عبدالمجید یاز محمد تابش صدیقی نیرنگ خیال عباس اعوان
آخری تدوین: