متلاشی
محفلین
فوبیا کا مطلب زدہ ہو گا۔۔ ۔یا سحر میں گرفتار۔۔۔ یعنی اردو فوبیا ، اردو زدہ ، یا اردو کے سحر میں گرفتاربلکہ اگر آپ اردو کے حق میں کچھ مزید آگے بڑھیں تو لفظ فوبیا کا ترجمہ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
فوبیا کا مطلب زدہ ہو گا۔۔ ۔یا سحر میں گرفتار۔۔۔ یعنی اردو فوبیا ، اردو زدہ ، یا اردو کے سحر میں گرفتاربلکہ اگر آپ اردو کے حق میں کچھ مزید آگے بڑھیں تو لفظ فوبیا کا ترجمہ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
الجھن اور تذبذب بہت قریب المعانی ہیں، ان پر مشتمل ترکیب نہ بنانا بہتر۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ الجھن کے نتیجے میں فلاں تذبذب کا شکار تھا
"اردو سے خائف" درست معنی ہے۔فوبیا کا مطلب زدہ ہو گا۔۔ ۔یا سحر میں گرفتار۔۔۔ یعنی اردو فوبیا ، اردو زدہ ، یا اردو کے سحر میں گرفتار
"اردو سے خائف" درست معنی ہے۔
انگریزی میری بہت اچھی نہیں تاہم وہ لوگ فوبیا خوف کے معانی میں لاتے ہیں۔ مثلاً بلندی سے ڈرنا، پانی سے ڈرنا وغیرہ؛ ان کے لئے باقاعدہ مرکبات موجود ہیں۔ انگریزی والے کوئی دوست بہتر بتا سکیں گے۔
بہت شکریہ سید ذیشان اصغر صاحب۔claustrophobia تنگ یا بند جگہوں کا خوف۔
acrophobia اونچائی کا خوف۔
aquaphobia پانی کا خوف۔
وغیرہ۔
ایک اور لفظ اسلامو فوبیا بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اسلام یا مسلمانوں سے خوف یا بغض۔
یہی بات میں کہتا تو اس کو "جزوی اتفاق" کا نام دیتا۔ ذوق اپنا اپنا بھائی!یہاں ریٹنگ میں ایک بٹن”جزوی اختلاف“ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اکثر اوقات جزوی اختلاف کی وجہ سے ”غیر متفق“ کی ریٹنگ دینا پڑجاتی ہے جو مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے:فوبیا کوا پنانے میں کیا اعتراض ہے؟
کنفیوژن کے معنیٰ تلاش کرنےمیں اردودان اتنے کنفیوژڈ کیوں ہیں؟
اردو میں انگریزی اپنانے میں ہی نجات کی راہ ہے بلکہ یہ ہوہی رہا ہے
نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے:
میں نہیں سمجھتا کہ یہاں ان دو نکات پر کوئی کسی الجھن یا خوف کا شکار ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ انگریزی کے الفاظ لانا کچھ ایسا برا بھی نہیں۔
ہاں البتہ ۔۔۔ یہ "نجات کی راہ" والی بات ذرا مشکل ہے کہ حلق سے اترے۔
جی، اس فقیر کے بھی یہی عرض کیا ہے، کہ جہاں ضرورت ہے انگریزی، لاطینی، یونانی، چینی، کے الفاظ لائیے۔ اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم میں عملی طور پر کوئی تبدیلی آتی ہے تو وہ کئی متسلسل تبدیلیوں کی پیش خیمہ ہو گی۔سائنسی علوم کے اپنانے کے لحاظ سے کہہ رہا تھا۔ یعنی سائنس کو پڑھیں اگر اردو میں تو انگریزی الفاظ ہی اپنانے پڑیں گے
درست ۔ صد فی صد متفقجی، اس فقیر کے بھی یہی عرض کیا ہے، کہ جہاں ضرورت ہے انگریزی، لاطینی، یونانی، چینی، کے الفاظ لائیے۔ اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ ذریعۂ تعلیم میں عملی طور پر کوئی تبدیلی آتی ہے تو وہ کئی متسلسل تبدیلیوں کی پیش خیمہ ہو گی۔
ادب کی زبان اور لفظیات عام زبان سے ہمیشہ مختلف رہی ہے، اس سے قطع نظر کہ اس فرق کی سطح کیا ہے۔ مرزا غالب کا وہ مشہور قول آپ نے بھی پڑھا سنا ہو گا:درست ۔ صد فی صد متفق
مسئلہ دراصل شاید شاعروں کو پڑتا ہے۔ کہ قافیہ شاید گرجاتا ہو انگریزی میں۔ (مذاق)
ویسے اپ کی رائے صد فی صد درست ہے۔ میا فی میا
ایک دل چسپ بات ۔۔ میرے ایک انجینئر دوست جاپان سے لوٹے۔
ایک دن کہنے لگے: یار، میں نے جاپانی میں اردو دیکھی۔
پوچھا: کیسے؟
بولے: جاپانی میں آکسیجن کو ’’سانسو‘‘ کہتے ہیں۔