اوریا انگریزی کے خلاف نہیں اس کو زبردستی اور منافقانہ طور سے عوام پر تھوپنے کے خلاف ہیں۔ہر بات میں منفی پہلو نکالنا درست فعل نہیں۔اگر اوریا ساتویں یا آٹھویں صدی میں ایران میں ہوتا تو اس زمانے کی فارسی کے حق میں اور عربی کے خلاف مضامین لکھتا؟
اوریا انگریزی کے خلاف نہیں اس کو زبردستی اور منافقانہ طور سے عوام پر تھوپنے کے خلاف ہیں۔ہر بات میں منفی پہلو نکالنا درست فعل نہیں۔
دوسری بات کہ اردو ، عربی، فارسی ، پشتو، سندھی ، پنجابی ، اور دیگر پاکستانی زبانیں عرب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ انگریزی اور دیگر یورپی زبانیں رومن سے لہذا اُردو اور عربی فارسی کا امتزاج عین فطری ہے اس پراعتراض نہیں کیاجاسکتا ۔ جبکہ انگریزی ”بدیسی“ یا یوں سمجھ لیں کہ ”بد -دیسی“ زبان ہے۔
بلکہ اردو اور انگریزی انڈو یورپی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ عربی کا تو اس خاندان سے بھی تعلق نہیں۔اردو، پشتو، وغیرہ زبانوں کے انڈو-ایرانی (انڈو-یورپی) خاندان سےتعلق رکھتی ہیں جبکہ عربی سامی خاندان (افرو-ایشیائی) سے تعلق رکھتی ہے۔
مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا کیوں کہ بتانے کا مقصد صرف یہ تھا اردو اور انگریزی یکسر مختلف زبانیں ہیں لہذا مقامی اور ہم شجرہ زبانوں کو چھوڑ کر انگریزی کی لنگوٹی پکڑنا کسی بھی طور پر صحیح نہیں۔اردو، پشتو، وغیرہ زبانوں کے انڈو-ایرانی (انڈو-یورپی) خاندان سےتعلق رکھتی ہیں جبکہ عربی سامی خاندان (افرو-ایشیائی) سے تعلق رکھتی ہے۔
اوپر مبصر نے آپ کو یہی تفصیل بتائی ہے کہ اردو اپنی لسانی ساخت کے اعتبار سے انگریزی سے قربت رکھتی ہے، عربی سے نہیں۔ اردو اور عربی ہم شجرہ نہیں۔مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا کیوں کہ بتانے کا مقصد صرف یہ تھا اردو اور انگریزی یکسر مختلف زبانیں ہیں لہذا مقامی اور ہم شجرہ زبانوں کو چھوڑ کر انگریزی کی لنگوٹی پکڑنا کسی بھی طور پر صحیح نہیں۔
بغیر دلیل کے مباحثہ نہیں ہوتا۔بلکہ اردو اور انگریزی انڈو یورپی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ عربی کا تو اس خاندان سے بھی تعلق نہیں۔
دلیل کے ساتھ ہی بات کی گئی ہے۔ اور زبانوں کے خاندان کے باقاعدہ نام بتائے ہیں۔ لسانیات کی کسی بھی کتاب سے رجوع کیجیے۔بغیر دلیل کے مباحثہ نہیں ہوتا۔
عربی چونکہ جغرافیائی اور مذہبی اعتبار سے ہم سے قریب ہے اس لیے بادی النظر میں کچھ قربت دیکھائی دینا کوئی ایسی عجیب بات نہیں۔عثمان بھائی اردو کے اندر عربی کے جتنے زیادہ الفاظ ہیں اور رسم الخط جتنا قریب ہے دونوں رشتہ دار لگتی ہیں۔
لیکن یہ درست ہے کہ اردو اور عربی کی گرامر میں کافی فرق ہے۔ اردو کی گرامر فارسی کے قریب ہے۔
بچوں کے پلے کچھ پڑے گا تو محنت کریں گے خصوصا مڈل لیول تک جس بچے کو انگریزی کا ہی نہیں پتا وہ سائنس کیسے سمجھے گا انگریزی میں اور اسی کو بنیاد بنا کر اس نے آگے بھی چلنا ہے۔غیر متفق۔
یاد رکھیں ترقی کسی زبان سے مشروط نہیں ہے۔ ترقی کا تعلق محنت، دیانت اور ریاضت سے ہے۔
جو قوم ترقی کرجاتی ہے اسکی کی زبان کا راج ہوجاتا ہے۔
بہتر ہے کہ قوم کے اخلاق، دیانت اور محنت پر توجہ دی جاوے۔ زبان اپے ہی راج کرنے لگے گی۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ اتنا قدیم کہ جب کوئی زبان ابھی موجود ہی نہیں تھی ، کیوں چلا جائے؟ ہمیں اس شجرے سے نہیں پھلوں سے لینا دینا ہے۔عربی چونکہ جغرافیائی اور مذہبی اعتبار سے ہم سے قریب ہے اس لیے بادی النظر میں کچھ قربت دیکھائی دینا کوئی ایسی عجیب بات نہیں۔
تاہم ماہرین لسانیات کے ہاں زبانوں کی قربت طے کرنے کا کرائیٹیریا کچھ پیچیدہ ہے۔ اس لیے ایک عام آدمی کو حیرانی ہوتی ہے جب اسے بتایا جائے کہ انگریزی لسانی اعتبار سے اردو کے لیے کوئی ایسی اجنبی نہیں۔
مستند تفصیلات تو آپ کو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں