اردو ہماری جان (ترمیمی)-

رشید حسرت

محفلین
اردو ہماری جان۔



اُردو ہے ذرا سوچ سمجھ کے ہی غزل کر

کم کم ہے تُجھے شعر کا عرفان سنبھل کر۔



دکنؔ کا ولیؔ اِس کے بہُت ناز اُٹھائے

الفاظ نئے طرز کے ہیں اِس میں کھپائے

ساجن کے لیئے گِیت نئے جُھوم کے گائے

نکھرے ہیں نئے شعر نئے سانچوں میں ڈھل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



خُسروؔ نے بھری مانگ سِتاروں سے رفِیقو

سوداؔ نے قصِیدوں سے نِکھارا بہُت اِس کو

پِھر ذوقؔ نے الفاظ عقِیدت سے چُنے جو

یا فیضؔ، عطاؔ آئے نئی راہ پہ چل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر





غالبؔ نے جو گہرائی بھرے شعر کہے ہیں

کیا کہہ کے گئے جوشؔ ابھی سوچ رہے ہیں

اشعار ہیں یہ مِیرؔ کے یا موتی جڑے ہیں

کہتے ہیں جگرؔ شعر کسی دُھن میں مچل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



اقبالؔ نے جو حق کا ہمیں درس دیا ہے

انداز الگ داغؔ نے اِیجاد کیا ہے

حسرتؔ نے بجا فیض کِسی سے تو لیا ہے

آغوش سے حالیؔ کی نکل آئی ہے پل کر

کم کم ہے تُجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



مومنؔ کے کمالات یا مِیراؔ کی کوئی بات

گُلزارؔ کے ہوں پُھول یا ساحِرؔ کے سوالات

رہتے ہیں ہمیں یاد فِراقؔ آج بھی دِن رات

شعروں میں ملیں رنج ہمیں روپ بدل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



ماہرؔ سے بلا نوش سے، اخگرؔ سے لیا فیض

بہزادؔ کے بیٹے ہیں جو افسرؔ سے لیا فیض

بیرمؔ سے بھی، عرفانؔ سے، انورؔ سے لیا فیض

دیکھا ہے منیرؔ رئیسانی کو آنکھوں کو مل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



تسنیم صنمؔ ہو کہ جہاں آرا تبسّم

ذکیہؔ کے تو اشعار ہمیں کرتے ہیں گُم سُم

فیاضؔ! عجب شعر کا رکھتے ہو ہنر تم

محسنؔ کے تو اشعار رکھیں دل کو مسل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



تھے رازؔ کوئی ہمدمؔ و مضطرؔ بھی کبھی تھے

راغبؔ بھی قلم کار شرافتؔ بھی کوئی تھے

تھے عین سلام محفلیں تھیں اور سبھی تھے

گوہرؔ بھی، گئے نوجواں طریرؔ نکل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



افضلؔ کی کریں بات یا ہم ریاض قمرؔ کی

عارفؔ کے ہوں افکار یا امداد نظامی

آفاقؔ۔ صدفؔ، سرورؔ و اُستادِ گرامی

حسرتؔ جی تِرا نام سبھی لیتے ہیں جل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر







رشِید حسرتؔ۔
 
اردو ہماری جان۔



اُردو ہے ذرا سوچ سمجھ کے ہی غزل کر

کم کم ہے تُجھے شعر کا عرفان سنبھل کر۔



دکنؔ کا ولیؔ اِس کے بہُت ناز اُٹھائے

الفاظ نئے طرز کے ہیں اِس میں کھپائے

ساجن کے لیئے گِیت نئے جُھوم کے گائے

نکھرے ہیں نئے شعر نئے سانچوں میں ڈھل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



خُسروؔ نے بھری مانگ سِتاروں سے رفِیقو

سوداؔ نے قصِیدوں سے نِکھارا بہُت اِس کو

پِھر ذوقؔ نے الفاظ عقِیدت سے چُنے جو

یا فیضؔ، عطاؔ آئے نئی راہ پہ چل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر





غالبؔ نے جو گہرائی بھرے شعر کہے ہیں

کیا کہہ کے گئے جوشؔ ابھی سوچ رہے ہیں

اشعار ہیں یہ مِیرؔ کے یا موتی جڑے ہیں

کہتے ہیں جگرؔ شعر کسی دُھن میں مچل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



اقبالؔ نے جو حق کا ہمیں درس دیا ہے

انداز الگ داغؔ نے اِیجاد کیا ہے

حسرتؔ نے بجا فیض کِسی سے تو لیا ہے

آغوش سے حالیؔ کی نکل آئی ہے پل کر

کم کم ہے تُجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



مومنؔ کے کمالات یا مِیراؔ کی کوئی بات

گُلزارؔ کے ہوں پُھول یا ساحِرؔ کے سوالات

رہتے ہیں ہمیں یاد فِراقؔ آج بھی دِن رات

شعروں میں ملیں رنج ہمیں روپ بدل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



ماہرؔ سے بلا نوش سے، اخگرؔ سے لیا فیض

بہزادؔ کے بیٹے ہیں جو افسرؔ سے لیا فیض

بیرمؔ سے بھی، عرفانؔ سے، انورؔ سے لیا فیض

دیکھا ہے منیرؔ رئیسانی کو آنکھوں کو مل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



تسنیم صنمؔ ہو کہ جہاں آرا تبسّم

ذکیہؔ کے تو اشعار ہمیں کرتے ہیں گُم سُم

فیاضؔ! عجب شعر کا رکھتے ہو ہنر تم

محسنؔ کے تو اشعار رکھیں دل کو مسل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



تھے رازؔ کوئی ہمدمؔ و مضطرؔ بھی کبھی تھے

راغبؔ بھی قلم کار شرافتؔ بھی کوئی تھے

تھے عین سلام محفلیں تھیں اور سبھی تھے

گوہرؔ بھی، گئے نوجواں طریرؔ نکل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر



افضلؔ کی کریں بات یا ہم ریاض قمرؔ کی

عارفؔ کے ہوں افکار یا امداد نظامی

آفاقؔ۔ صدفؔ، سرورؔ و اُستادِ گرامی

حسرتؔ جی تِرا نام سبھی لیتے ہیں جل کر

کم کم ہے تجھے شعر کا عرفان سنبھل کر







رشِید حسرتؔ۔

رشید صاحب ، سلام عرض ہے!

آپ کی نظم پر کئی روز قبل نگاہ پڑی تھی . میں تب سے کچھ عرض کرنا چاہ رہا ہوں لیکن اب تک وقت نہیں ملا . میرا خط کچھ لمبا ہو گیا ہے . وجہ یہ ہے کہ آپ کی اِس ترمیم شدہ نظم میں بھی بقول مؔصحفی ’بہت کام رفو کا نکلا‘ جس كے لیے تفصیلی تبصرہ درکار ہے .
clip_image001.png
امید ہے آپ یہ معروضات برداشت فرمائیں گے .
clear.png
clear.png
:)

آپ نے اِس مرتبہ سارے مصرعے ایک ہی بحر میں کہنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ایک خوش آئند قدم ہے . اِس سے نظم نے کلاسیکی یعنی پابند شکل اختیار کی ہے جو آپ كے مضمون كے لیے موزوں ہے . لیکن اب بھی کچھ مصرعے خارج اَز بحر ہیں . آپ سے گزارش ہے کہ تقطیع پر اور توجہ دیں .

مجھ پر یہ واضح نہیں ہوا کہ نظم کا بنیادی خیال کیا ہے . ظاہر ہے کہ آپ نے متعدد شعراء كے نام اِس نظم میں پرونے کی کوشش کی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اِس نظم كے ذریعے آپ قاری کو پیغام کیا دینا چاہتے ہیں . اپنی بات کی وضاحت كے لیے میں اقبال اشہر کی نظم "اُرْدُو" کی مثال دینا چاہونگا جس میں انہوں نے کئی نامور اُرْدُو شعراء اور اُرْدُو کی شاندار تاریخ کا ذکر کرنے كے بعد انڈیا میں اُرْدُو کی موجودہ حالت پر اظہار افسوس کیا ہے (اردو - اقبال اشہر)

آپ کی نظم کا، خاص طور پر ٹیپ كے مصرعے کا معاینہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصد اُرْدُو كے مشہورشعراء کا حوالہ دے کر قاری کو ان كے جیسی عمدہ شاعری پر آمادہ کرنا ہے . اگر یہ سچ ہے توصرف شعراء کی فہرست فراہم کرنا کافی نہیں ہے . ان کی شاعری کی خصوصیات کا ذکر بھی آنا چاہیے جیسے آپ نے ولیؔ كے نئے طرز كے الفاظ اور غؔالب کے اشعار کی گہرائی کا ذکر کیا ہے .

نظم میں زبان و بیان میں بھی بہتری کی گنجائش ہے . مجھے محسوس ہوا کہ کئی الفاظ محض بحراور قافیہ کا تقاضہ پُورا کرنے كے لیے برتے گئے ہیں، مثلاً ذوقؔ، غالبؔ اور اؔقبال والے مصرعوں میں ’جو‘، جوشؔ والے مصرعے میں ’ابھی‘ اور حسرتؔ والے مصرعے میں ’بجا.‘ کئی الفاظ کا استعمال وضاحت طلب ہے مثلاً گُلزارؔ کے پُھول سے کیا مراد ہے اور ان کا سؔاحر كے سوالات سے کیا جوڑ ہے، یہ صاف نہیں ہوا . کچھ ایک جگہ آپ نے مناسب فعل نہیں برتا، مثلاً حؔالی والے مصرعے میں ’نکل آئی‘ سے محسوس ہوتا ہے کہ حؔالی کا آغوش کوئی نا پسندیدہ جگہ تھی . ولیؔ والا مصرع زمانہ ء حال کا ہے جب کہ اگلے دو مصرعے زمانہ ء ماضی میں ہیں .

آخر میں عرض ہے کہ نظم کی طوالت بھی ملحوظ خاطر رکھیے . ایک زمانہ تھا جب لمبے لمبے قصیدے اور مثنوی رائج الوقت تھے . لیکن اب کا مشینی دور اور ہے . اب یا تو موضوع اتنا دلچسپ اور بیان اتنا چست ہو کہ قاری آخر تک آپ كے ساتھ رہے، یا پِھر بقول جاوید اؔختر:

چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو
اس کو کب فرصت سنے فریاد سب

امید ہے اِس تبصرے سے آپ دِل برداشتہ نہیں ہونگے . میرا مقصد آپ کی رہنمائی ہے جس کی ہَم سب کو ضرورت ہے اور مجھے تو سب سے زیادہ ہے .
clip_image001.png


نیازمند،
عرفان عؔابد
 

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر میں ہی 'غزل کرنا' محاورے کے خلاف ہے
دوسرے مصرعے میں محض 'سنبھل کر' کیا کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے یہ واضح نہیں ہوتا۔
باقی عرفان سے متفق ہوں
 
Top