با ادب
محفلین
اردو ہے جس کانام
کہتے ہیں گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اس مقولے کی صداقت پہ ہمیں چنداں شبہ نہ ہوتا اگر ہمارا کوئی ایسا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا شومئی قسمت پیدا بھی ہم انسان ہی ہوئے اور اوپر سے مسلمان اگر مذہب کوئی اور ہوتا تو چاچا ڈارون کے نظریے کی بنا پر بندر ہوتے لیکن تب بھی گیدڑ نہ ہوتے اب بندر کی موت کہاں آتی ہے یہ تو ٹارزن ہی جانتا ہوگا ...
ہم تو اپنے تجربے سے اتنا جان پائے کہ کسی پٹھان کی موت آئے تو اسے اردو کا استاد مقرر فرما دیجیے اور وہ بھی اسکے اپنے پیارے خیبر پختونخواہ میں ... اس سے بھی زیادہ اگر اذیت دے کر مارنا چاہتے ہیں تو اسکی شادی کسی اہل زبان سے کروادیجیے بس خیال رکھیے گا اہل زبان اردو دان ہو. اب بس اسکی زندگی کے دن گنیے جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جاوویں گے ..
ہم سمجھتے تھے ہمیں اگر اردو پڑھانے کا موقع مل گیا تو اردو کی خدمت و ترویج میں ہمارا بھی لہو شامل ہو جائے گا لیکن یہ کب جانتے تھے کہ لہو شامل نہیں ہوگا لہو رونا پڑے گا ...وہ لہو جو آنکھ سے رواں ہوتا ہے درد کی زیادتی کے سبب
اور جس کے لیے اسد فرماتے ہیں
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا ہو وہ لہو کیا ہے
وہ بھی جان جاتے اگر پیارے کے پی کا دورہ فرما لیتے.
ہمیں اردو پڑھانے کا فریضہ سونپا گیا تو پہلے ہی دن جماعت میں جلوہ گر ہو کر یازدہم کی طالبات کو ثقیل اردو میں پر مغز تقریر سنائی وہ ایسے سر دھنتی رہیں کہ ہمیں لگا ہم سے خوب تو کیا ہی کوئی بولتا ہوگا .. جب طالبات کو متأثر کرنے کی ناکام سعی فرما لی تو کہا کل آپ جملے لکھیں گے اور ہر بچہ یہ کارخیر خود سر انجام دے گا رٹا لگانے کی ممانعت ہے
استاد کی بات پر من و عن عمل کیا اور جو جملے سرزد ہوئے ملاحظہ فرمائیے
رونگٹے کھڑے ہونا ...
میں نے دروازہ کھولا تو سامنے رونگا ٹا کھڑا تھا
بے چارہ
عارف بہت بے چارہ ہے اس کی ایک ہی بیوی ہے
ہوائیاں اڑنا
اسلم کی پتنگ ہوائیاں اڑ رہی تھی
سرسید احمد خان پہ لکھے ہوئے مضمون کی اہم سطر ..
سرسید کی پیدائش میں انکی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا ..
( پرورش کو پیدائش سے بدل ڈالا تھا)
امتحان میں جو تشریح کی گئی اس کو پڑھ کر آپ اگر دل کے عارضے میں مبتلا نہ ہوں تو فشار خون کے مریض ضرور بن سکتے ہیں
یہ تو رہی طالبات کی بات اردو کے استادوں کے بھی کیا ہی کہنے ... سوال کیا آپ کی کتاب کہاں ہوگی اگر کچھ دیر کو مل جاتی تو
... ارے جی جی کیوں نہیں میری کتاب میرے ساتھ ہے ..
غضب خدا کا کتاب پاس کیوں نہیں ہے ساتھ کیوں ہے .. اسی جملے کو پشتو میں ترجمہ کیجیے تو انکا بھی قصور نہیں
زما کتاب ما سرہ دے
سرہ بمعنی ساتھ ..
تو جب بھی کسی ایک زبان کو دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو ترجمہ لفظی نہیں ہوتا بلکہ جملے کی سینس کا ترجمہ کیا جاتا ہےاور یہاں یہی بات مفقود تھی بلکہ اکثر ترجمے ایسے ہی ہوتے ہیں اسی لیے تراجم قابل اعتبار نہیں ہوتے ..
بچے پشتو میں کسی کا مذاق اڑاتے تو فرماتے
دے تہ دے خیال دے ..
اب اسی جملے کو وہ اردو میں ترجمہ کر کے ارشاد کیا کرتے
اسے خیال ہے ( انھیں ہی دیکھ لیجیے / ذرا ان کی بھی سن لیجیے ...اصل مطلب جملے کا یہ بنتا ہے لیکن ترجمہ اسے مضحکہ خیز بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا.)
اسی طرح کے ترجمے پشتو محاوروں کے ہوا کرتے ..
ہم اسی منجدھار میں زندگی تمام کر لیتے اگر وہ آخری سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا جس کے نتیجے میں ہم نے اردو کی استادی سے توبہ فرما لی ..
کہا گیا اردو کے لیے نئی استانیاں درکار ہیں آپ ان سے انٹرویو فرما لیں اور ذرا پڑھانے کا طریقہ کار بھی دیکھ لیجیے گا. خیر ہم اور ہماری ایک کولیگ دونوں اپنی نشستوں پہ براجمان ہوئے کہ لیجیے اردو کی استانی آئیں اور ہماری جان چھوٹی اللہ اللہ خیر صلا
انٹرویو کا پہلا سوال ..
بیٹا کس جامعہ کی طالبہ ہیں؟ ؟
جی وہ مردان کی فلاں جامعہ جس میں وہ فلاں خان کا واقعہ ہوا تھا ..
اب ہم کیا جانیں کیسی جامعہ نئی نئی ظہور میں آئی جامعہ تھی ہم پرانے دور کے ..
خیر اگلا سوال داغا ..
کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
جی میں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے
اللہ اللہ شرم کا مقام ہم آب آب ہو گئے ہم نے تو ماسٹرز بھی نہ کیا تھا اردو میں .. ماسٹرز کی کیا کہتے ہیں مجال ہے جو کبھی اردو ایڈوانس ہی پڑھی ہو .. بارھویں تک ہم پری میڈیکل کی طالبہ رہیں اسکے بعد شریعہ کو سدھاریں اور عربی انگریزی میں غوطے کھاتے عمر تمام کی
کیسی اردو کہاں کا ادب ... ہم کیا جانیں.... اب بھرم تو رکھنا تھا. دل سنبھالا جان بچانے کی ترکیب سوچی....
کہا آپ نے کوئی لیکچر تیار کیا ہے؟
جی غالب کی غزل ہے .. ابتداء کروں؟ ؟
جی جی بسم اللہ
ایک سانس میں سبق کی طرح غزل پڑھ گئیں
کہا ابھی سمجھائیں گی .. مطلع سے مقطع تک حرف حرف بیان فرما دیں گی .. چلیے ان سے پہلے ہم ہی کچھ پوچھ لیتے ہیں.
بیٹا یہ مطلع کسے کہتے ہیں؟ ؟
کچھ دیر توقف ہوا اور پھر ایک ٹیپ ریکاڈر چلا جس میں نہایت تیزی سے مطلع کی تعریف سنائی گئی
وہ شعر جو غزل کا آخری شعر ہو مطلع کہلاتا ہے.
ہم سمجھے سننے میں غلطی ہوئی ہے .. ساتھ والی پہ نگاہ ڈالیں انکے تأثرات بھی ہماری طرح تھے یعنی کہ غلطی سننے میں نہیں بولنے میں تھی
درگزر کیا بندہ بشر سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اگلا معصومانہ سوال
غالب کا تخلص کیا تھا
جی اسد اللہ خان
علامت تخلص کسے کہتے ہیں
شاعر کے نام کو
علم العروض سے واقف ہیں
جی نہیں میں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے
مقالہ کس پہ لکھا تھا؟
پروفیسر طاہر القادری کی تفسیر کی جلد اول پہ
( یہ کیسا مقالہ تھا .. حیرت تو تھی لیکن خیر)
مثمن کسے کہتے ہیں.
جی
اچھا رہنے دیجیے یہ بتائیے اردو ادب میں کس ادیب کو زیادہ پڑھا ہے
جی وہی جو کتابوں میں ہیں
واہ واہ ماشاءاللہ کیا کہنے .. اور پھر اسکے بعد ہمارے چراغوں میں روشنی نہ رہی
ایک اور سانحہ بھی ایسا ہی رونما ہوا .. بیالوجی کی استاد کا انٹرویو ہو رہا تھا ہمیں خواہ مخواہ میں ہر انٹرویو میں برکت کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے
وہ محترمہ بھی اسی فلاں جامعہ سے پی ایچ ڈی تھیں
ساری بیالوجی پشتو اور انگریزی میں پڑھی تھی جملے بھی اسی قسم کے تھے
وائرس کی جملہ خصوصیات بتائے گئے کسی خاصیت کے تذکرے پہ فرمایا پھر وائرس ڈز( bhurst) کر جاتا ہے .. اللہ اکبر کیا دلپذیر انداز تھا نہ ہنس سکتے تھے نہ رو سکتے تھے
اور اختتام اپنے ہی مضمون پہ ہوا ..
کہا چلیے آپ اسلامیات میں طبع آزمائی کیجیے ...ہم.بہت خوش کہ چلیے جان چھوٹی اردو سے
اسی گیارھویں جماعت کی بچیوں کو مقرب فرشتے پڑھائے
پرچے میں سوال آیا چار مشہور فرشتوں کے کام لکھیے
حضرت جبرائیل اور عزرائیل علیہ السلام تک تو خیریت رہی
لیکن حضرت میکائیل گندم کا ٹنے کا کام کرتے ہیں
پڑھ کر فشار خون کی بیماری کی ابتداء ہونے ہی کو تھی کہ اگلے جملے سے ہم مفلوج زدہ ہوگئے
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن سور بجائیں گے جب سور بجے گا تو لوگ اٹھیں گے ...
پرچے کے ورق پرتتے جائیے .. اگلا سوال
شرک پر نوٹ لکھیے
شرک کے لغوی معنی ہیں اللہ کو کسی کا ہمسفر( ہمسر) ماننا
تدوین قرآ ن پر نوٹ لکھیے ..
قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا پھر حضرت ابو بکر رضہ کے دور میں ان ہر نازل ہوا ...
ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ... ان طالبات کو بلوایا اور ان ہی اسباق کو پشتو میں سنا بالکل صحیح سنایا گیا ... لیکن اردو کے ساتھ یہ مور دہ میرے ( سوتیلی ماؤں والا) والے سلوک نے ہمیں گنگ کر دیا تھا ...
اس پر طرہ یہ کہ اہل زبان میاں سے اگر نہایت خوشگوار مزاج میں بات کر رہے ہوں اور اردو کا کوئی لفظ غلط کہہ دیں تو رومانس جائے بھاڑ میں وہیں اصلاح شروع ہو جاتی ہے ...
جب ہمارے خطے میں ہی اردو درست نہیں تو ہم کاہے تکلف کریں شین کاف کی ... محبت کو محبت کہیں یا مُخَبت .. ہونی تو انھیں ہم سے نہیں ہم زبان کو توڑ مروڑ کے لقوہ زدگان ہو جائیں گے. ...
ہم گھر گے ...
بیگم گے نہیں گئے ہوتا ہے ..
آج کل کے پروگرامز
بیگم اردو میں لفظ کے آخر میں ز لگا دینے سے لفظ جمع نہیں ہو جاتا
ہم نے لکھا جان جوکھم میں ڈالنا
ارشاد ہوا .. جوکھم.ہندی لفظ ہے جوکھوں لکھیے( لکھنے کو لکھ دیا مگر سچ پوچھیے تو ہماری تو جوکھم میں ہے)
اردو پہ تو صبر کے گھونٹ پی لیتے لیکن اسکا کیجیے .. ہم نے جملہ لکھا
موئے ہندوستان کی سازش کی وجہ سے .....
تیوریاں چڑھا کے فرمایا ہندوستان کیوں لکھا بھارت لکھیے ہندوستان تو ہمارا ہے ( آپکا ہوگا ہمارا تو افغانستان ہے ہم کیوں ہندوستانی ہونے لگے نعوذباللہ)
ہمیں جلدی ہے کہیں جانا ہے بات روانی سے کر بیٹھیں تو مسئلہ ...
بیگم پنجابی لہجے میں بات مت کیجیے ..
ارے نکاح پڑھوایا تھا یا جامعہ میں داخلہ لیا تھا اردو سیکھنے کو؟ ؟
کسی دن ہم غصے سے ڈز کر گئے تو سمجھ جائیے گا قصور ہمارا نہیں اہل علاقہ کا ہے ...
یقین نہ آئے تو .....
کبھی آئیے نا خشبو لگا کے
سمیرا امام
کہتے ہیں گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اس مقولے کی صداقت پہ ہمیں چنداں شبہ نہ ہوتا اگر ہمارا کوئی ایسا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا شومئی قسمت پیدا بھی ہم انسان ہی ہوئے اور اوپر سے مسلمان اگر مذہب کوئی اور ہوتا تو چاچا ڈارون کے نظریے کی بنا پر بندر ہوتے لیکن تب بھی گیدڑ نہ ہوتے اب بندر کی موت کہاں آتی ہے یہ تو ٹارزن ہی جانتا ہوگا ...
ہم تو اپنے تجربے سے اتنا جان پائے کہ کسی پٹھان کی موت آئے تو اسے اردو کا استاد مقرر فرما دیجیے اور وہ بھی اسکے اپنے پیارے خیبر پختونخواہ میں ... اس سے بھی زیادہ اگر اذیت دے کر مارنا چاہتے ہیں تو اسکی شادی کسی اہل زبان سے کروادیجیے بس خیال رکھیے گا اہل زبان اردو دان ہو. اب بس اسکی زندگی کے دن گنیے جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جاوویں گے ..
ہم سمجھتے تھے ہمیں اگر اردو پڑھانے کا موقع مل گیا تو اردو کی خدمت و ترویج میں ہمارا بھی لہو شامل ہو جائے گا لیکن یہ کب جانتے تھے کہ لہو شامل نہیں ہوگا لہو رونا پڑے گا ...وہ لہو جو آنکھ سے رواں ہوتا ہے درد کی زیادتی کے سبب
اور جس کے لیے اسد فرماتے ہیں
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا ہو وہ لہو کیا ہے
وہ بھی جان جاتے اگر پیارے کے پی کا دورہ فرما لیتے.
ہمیں اردو پڑھانے کا فریضہ سونپا گیا تو پہلے ہی دن جماعت میں جلوہ گر ہو کر یازدہم کی طالبات کو ثقیل اردو میں پر مغز تقریر سنائی وہ ایسے سر دھنتی رہیں کہ ہمیں لگا ہم سے خوب تو کیا ہی کوئی بولتا ہوگا .. جب طالبات کو متأثر کرنے کی ناکام سعی فرما لی تو کہا کل آپ جملے لکھیں گے اور ہر بچہ یہ کارخیر خود سر انجام دے گا رٹا لگانے کی ممانعت ہے
استاد کی بات پر من و عن عمل کیا اور جو جملے سرزد ہوئے ملاحظہ فرمائیے
رونگٹے کھڑے ہونا ...
میں نے دروازہ کھولا تو سامنے رونگا ٹا کھڑا تھا
بے چارہ
عارف بہت بے چارہ ہے اس کی ایک ہی بیوی ہے
ہوائیاں اڑنا
اسلم کی پتنگ ہوائیاں اڑ رہی تھی
سرسید احمد خان پہ لکھے ہوئے مضمون کی اہم سطر ..
سرسید کی پیدائش میں انکی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا ..
( پرورش کو پیدائش سے بدل ڈالا تھا)
امتحان میں جو تشریح کی گئی اس کو پڑھ کر آپ اگر دل کے عارضے میں مبتلا نہ ہوں تو فشار خون کے مریض ضرور بن سکتے ہیں
یہ تو رہی طالبات کی بات اردو کے استادوں کے بھی کیا ہی کہنے ... سوال کیا آپ کی کتاب کہاں ہوگی اگر کچھ دیر کو مل جاتی تو
... ارے جی جی کیوں نہیں میری کتاب میرے ساتھ ہے ..
غضب خدا کا کتاب پاس کیوں نہیں ہے ساتھ کیوں ہے .. اسی جملے کو پشتو میں ترجمہ کیجیے تو انکا بھی قصور نہیں
زما کتاب ما سرہ دے
سرہ بمعنی ساتھ ..
تو جب بھی کسی ایک زبان کو دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو ترجمہ لفظی نہیں ہوتا بلکہ جملے کی سینس کا ترجمہ کیا جاتا ہےاور یہاں یہی بات مفقود تھی بلکہ اکثر ترجمے ایسے ہی ہوتے ہیں اسی لیے تراجم قابل اعتبار نہیں ہوتے ..
بچے پشتو میں کسی کا مذاق اڑاتے تو فرماتے
دے تہ دے خیال دے ..
اب اسی جملے کو وہ اردو میں ترجمہ کر کے ارشاد کیا کرتے
اسے خیال ہے ( انھیں ہی دیکھ لیجیے / ذرا ان کی بھی سن لیجیے ...اصل مطلب جملے کا یہ بنتا ہے لیکن ترجمہ اسے مضحکہ خیز بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا.)
اسی طرح کے ترجمے پشتو محاوروں کے ہوا کرتے ..
ہم اسی منجدھار میں زندگی تمام کر لیتے اگر وہ آخری سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا جس کے نتیجے میں ہم نے اردو کی استادی سے توبہ فرما لی ..
کہا گیا اردو کے لیے نئی استانیاں درکار ہیں آپ ان سے انٹرویو فرما لیں اور ذرا پڑھانے کا طریقہ کار بھی دیکھ لیجیے گا. خیر ہم اور ہماری ایک کولیگ دونوں اپنی نشستوں پہ براجمان ہوئے کہ لیجیے اردو کی استانی آئیں اور ہماری جان چھوٹی اللہ اللہ خیر صلا
انٹرویو کا پہلا سوال ..
بیٹا کس جامعہ کی طالبہ ہیں؟ ؟
جی وہ مردان کی فلاں جامعہ جس میں وہ فلاں خان کا واقعہ ہوا تھا ..
اب ہم کیا جانیں کیسی جامعہ نئی نئی ظہور میں آئی جامعہ تھی ہم پرانے دور کے ..
خیر اگلا سوال داغا ..
کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
جی میں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے
اللہ اللہ شرم کا مقام ہم آب آب ہو گئے ہم نے تو ماسٹرز بھی نہ کیا تھا اردو میں .. ماسٹرز کی کیا کہتے ہیں مجال ہے جو کبھی اردو ایڈوانس ہی پڑھی ہو .. بارھویں تک ہم پری میڈیکل کی طالبہ رہیں اسکے بعد شریعہ کو سدھاریں اور عربی انگریزی میں غوطے کھاتے عمر تمام کی
کیسی اردو کہاں کا ادب ... ہم کیا جانیں.... اب بھرم تو رکھنا تھا. دل سنبھالا جان بچانے کی ترکیب سوچی....
کہا آپ نے کوئی لیکچر تیار کیا ہے؟
جی غالب کی غزل ہے .. ابتداء کروں؟ ؟
جی جی بسم اللہ
ایک سانس میں سبق کی طرح غزل پڑھ گئیں
کہا ابھی سمجھائیں گی .. مطلع سے مقطع تک حرف حرف بیان فرما دیں گی .. چلیے ان سے پہلے ہم ہی کچھ پوچھ لیتے ہیں.
بیٹا یہ مطلع کسے کہتے ہیں؟ ؟
کچھ دیر توقف ہوا اور پھر ایک ٹیپ ریکاڈر چلا جس میں نہایت تیزی سے مطلع کی تعریف سنائی گئی
وہ شعر جو غزل کا آخری شعر ہو مطلع کہلاتا ہے.
ہم سمجھے سننے میں غلطی ہوئی ہے .. ساتھ والی پہ نگاہ ڈالیں انکے تأثرات بھی ہماری طرح تھے یعنی کہ غلطی سننے میں نہیں بولنے میں تھی
درگزر کیا بندہ بشر سے غلطی ہو ہی جاتی ہے اگلا معصومانہ سوال
غالب کا تخلص کیا تھا
جی اسد اللہ خان
علامت تخلص کسے کہتے ہیں
شاعر کے نام کو
علم العروض سے واقف ہیں
جی نہیں میں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ہے
مقالہ کس پہ لکھا تھا؟
پروفیسر طاہر القادری کی تفسیر کی جلد اول پہ
( یہ کیسا مقالہ تھا .. حیرت تو تھی لیکن خیر)
مثمن کسے کہتے ہیں.
جی
اچھا رہنے دیجیے یہ بتائیے اردو ادب میں کس ادیب کو زیادہ پڑھا ہے
جی وہی جو کتابوں میں ہیں
واہ واہ ماشاءاللہ کیا کہنے .. اور پھر اسکے بعد ہمارے چراغوں میں روشنی نہ رہی
ایک اور سانحہ بھی ایسا ہی رونما ہوا .. بیالوجی کی استاد کا انٹرویو ہو رہا تھا ہمیں خواہ مخواہ میں ہر انٹرویو میں برکت کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے
وہ محترمہ بھی اسی فلاں جامعہ سے پی ایچ ڈی تھیں
ساری بیالوجی پشتو اور انگریزی میں پڑھی تھی جملے بھی اسی قسم کے تھے
وائرس کی جملہ خصوصیات بتائے گئے کسی خاصیت کے تذکرے پہ فرمایا پھر وائرس ڈز( bhurst) کر جاتا ہے .. اللہ اکبر کیا دلپذیر انداز تھا نہ ہنس سکتے تھے نہ رو سکتے تھے
اور اختتام اپنے ہی مضمون پہ ہوا ..
کہا چلیے آپ اسلامیات میں طبع آزمائی کیجیے ...ہم.بہت خوش کہ چلیے جان چھوٹی اردو سے
اسی گیارھویں جماعت کی بچیوں کو مقرب فرشتے پڑھائے
پرچے میں سوال آیا چار مشہور فرشتوں کے کام لکھیے
حضرت جبرائیل اور عزرائیل علیہ السلام تک تو خیریت رہی
لیکن حضرت میکائیل گندم کا ٹنے کا کام کرتے ہیں
پڑھ کر فشار خون کی بیماری کی ابتداء ہونے ہی کو تھی کہ اگلے جملے سے ہم مفلوج زدہ ہوگئے
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن سور بجائیں گے جب سور بجے گا تو لوگ اٹھیں گے ...
پرچے کے ورق پرتتے جائیے .. اگلا سوال
شرک پر نوٹ لکھیے
شرک کے لغوی معنی ہیں اللہ کو کسی کا ہمسفر( ہمسر) ماننا
تدوین قرآ ن پر نوٹ لکھیے ..
قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا پھر حضرت ابو بکر رضہ کے دور میں ان ہر نازل ہوا ...
ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ... ان طالبات کو بلوایا اور ان ہی اسباق کو پشتو میں سنا بالکل صحیح سنایا گیا ... لیکن اردو کے ساتھ یہ مور دہ میرے ( سوتیلی ماؤں والا) والے سلوک نے ہمیں گنگ کر دیا تھا ...
اس پر طرہ یہ کہ اہل زبان میاں سے اگر نہایت خوشگوار مزاج میں بات کر رہے ہوں اور اردو کا کوئی لفظ غلط کہہ دیں تو رومانس جائے بھاڑ میں وہیں اصلاح شروع ہو جاتی ہے ...
جب ہمارے خطے میں ہی اردو درست نہیں تو ہم کاہے تکلف کریں شین کاف کی ... محبت کو محبت کہیں یا مُخَبت .. ہونی تو انھیں ہم سے نہیں ہم زبان کو توڑ مروڑ کے لقوہ زدگان ہو جائیں گے. ...
ہم گھر گے ...
بیگم گے نہیں گئے ہوتا ہے ..
آج کل کے پروگرامز
بیگم اردو میں لفظ کے آخر میں ز لگا دینے سے لفظ جمع نہیں ہو جاتا
ہم نے لکھا جان جوکھم میں ڈالنا
ارشاد ہوا .. جوکھم.ہندی لفظ ہے جوکھوں لکھیے( لکھنے کو لکھ دیا مگر سچ پوچھیے تو ہماری تو جوکھم میں ہے)
اردو پہ تو صبر کے گھونٹ پی لیتے لیکن اسکا کیجیے .. ہم نے جملہ لکھا
موئے ہندوستان کی سازش کی وجہ سے .....
تیوریاں چڑھا کے فرمایا ہندوستان کیوں لکھا بھارت لکھیے ہندوستان تو ہمارا ہے ( آپکا ہوگا ہمارا تو افغانستان ہے ہم کیوں ہندوستانی ہونے لگے نعوذباللہ)
ہمیں جلدی ہے کہیں جانا ہے بات روانی سے کر بیٹھیں تو مسئلہ ...
بیگم پنجابی لہجے میں بات مت کیجیے ..
ارے نکاح پڑھوایا تھا یا جامعہ میں داخلہ لیا تھا اردو سیکھنے کو؟ ؟
کسی دن ہم غصے سے ڈز کر گئے تو سمجھ جائیے گا قصور ہمارا نہیں اہل علاقہ کا ہے ...
یقین نہ آئے تو .....
کبھی آئیے نا خشبو لگا کے
سمیرا امام