اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی - اقبال اشعر

اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
میں "میر" کی ہمراز ہوں "غالب" کی سہیلی​
دکّن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا​
"سودا" کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا​
ہے "میر" کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا​
میں "داغ" کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی​
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
"غالب" نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا​
"حالی" نے مرووت کا سبق یاد دلایا​
"اقبال" نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا​
"مومن" نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی​
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
ہے "ذوق" کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے​
"چکبست" کی الفت نے میرے خواب سنوارے​
"فانی" نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے​
"اکبر" نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی​
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ​
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا​
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ​
اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی​
اردو ہے میرا نام میں "خسرو" کی پہیلی​
اقبال اشعر​
 
اس نظم کو سن کر دل چاہتا غالب کی مجلس میں بیٹھ کر میٹھے آموں سے شغل کرتے ہوئے زوق کا زکر خیر کروں ، میر کا درد غم سنتے سنتے تزکرہ سودا کا کروں
 
Top