ارفع کریم کے لیے ایک نظم ۔۔۔۔۔ سرور ارمان

ارفع کریم کے لیے ایک نظم​
ارفع کریم نازشِ عمرِ رواں ہے تُو​
اس کم سنی میں رہبرِ آئندگاں ہے تُو​
حرماں نصیب کیسے تجھے بھول پائیں گے​
جن کے لیے حدیثِ غمِ بے کراں ہے تُو​
مینارِ فہم و عقل ہے اہلِ ہنر کے بیچ​
زیرِ زمیں نہیں ہے سرِ آسماں ہے تُو​
دستورِ کائنات کے آگے تو خم ہیں سر​
سوچوں کا کیا کریں کہ مجسم جہاں ہے تُو​
ارضِ وطن ہے تیری فطانت سے سرفراز​
تُو افتخارِ قوم ہے، عظمت نشاں ہے تُو​
اک جہدِ مستقل کی علامت ہے تیرا عزم​
بزمِ جہاں میں پیکرِ تاب و تواں ہے تُو​
راہِ عمل ہے تیرے تحرک کی زیر بار​
ہیں منزلیں تلاش میں تیری، کہاں ہے تُو​
قربان تیری ذات پہ سو جگمگاہٹیں​
جگنو نہیں چراغ نہیں کہکشاں ہے تُو​
سرور ارمان​
ایک مصرع تبدیل کیا اور آخری شعر کا اضافہ کیا ہے​
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ خوب اظہار ہے ۔ عمران شناور بھائی ۔ ہماری طرف سے اگر سرور امان سے آپ کی ملاقات ہے تو داد پیش کیجیے گا اور سلام کہیے گا۔۔ ماشا اللہ اچھا انتخاب شامل کیا ہے ۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
بہت شکریہ ایک درد مند اور حساس دل سے نکلی ہوئی یہ پرسوز غزل ہم سے شئیر کرنے کے لیے
اس غزل کے خالق کے نام بہت سی داد
 
ماشا اللہ خوب اظہار ہے ۔ عمران شناور بھائی ۔ ہماری طرف سے اگر سرور امان سے آپ کی ملاقات ہے تو داد پیش کیجیے گا اور سلام کہیے گا۔۔ ماشا اللہ اچھا انتخاب شامل کیا ہے ۔
محمود صاحب! بہت شکریہ! آپ کا سلام اور داد ان تک پہنچ گئی! وعلیکم السلام
اور سرور ارمان صاحب! کا سلام بھی شکریہ کے ساتھ آپ تک پہنچا رہا ہوں! السلام علیکم!
 

مغزل

محفلین
محمود صاحب! بہت شکریہ! آپ کا سلام اور داد ان تک پہنچ گئی! وعلیکم السلام
اور سرور ارمان صاحب! کا سلام بھی شکریہ کے ساتھ آپ تک پہنچا رہا ہوں! السلام علیکم!
جزاک اللہ پیارے ، سلامت شاد کامران رہو۔۔ حق مزید برکتیں عطا کرے آمین، وعلیکم السلام علیک والیہ
 

ہجـــــر

محفلین
قربان تیری ذات پہ سو جگمگاہٹیں
جگنو نہیں چراغ نہیں کہکشاں ہے تُو
بہت خوبصورت خراجِ تحسیں پیش کیا ہے
پروین شاکر کا شعر یاد آ رہا ہے
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا ،،، جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
نام کی طرح ارفع تھی
اللہ اس پر کروڑوں رحمتیں فرمائے اٰمین
بہت شکریہ شئر کرنے کا
 
قربان تیری ذات پہ سو جگمگاہٹیں
جگنو نہیں چراغ نہیں کہکشاں ہے تُو
بہت خوبصورت خراجِ تحسیں پیش کیا ہے
پروین شاکر کا شعر یاد آ رہا ہے
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا ،،، جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
نام کی طرح ارفع تھی
اللہ اس پر کروڑوں رحمتیں فرمائے اٰمین
بہت شکریہ شئر کرنے کا
ہجر جی نظم پسند فرمانے کے لیے بہت شکریہ!
آپ نے جو شعر پروین شاکر سے منسوب کیا ہے دراصل اختر حسین جعفری صاحب کی نظم کے دو مصرعے ہیں
نظم ملاحظہ ہو!

’’ایذرا پانڈ کی موت پر‘‘

تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تُو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے
انتظارِ بہار بھی کرتے!
دامنِ چاک سے اگر اپنے
کوئی پیمان پھول کا ہوتا
آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں
دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی
دہر میں کوئی نو بہار نہیں
 
Top