عمران شناور
محفلین
ارفع کریم کے لیے ایک نظم
ارفع کریم نازشِ عمرِ رواں ہے تُو
اس کم سنی میں رہبرِ آئندگاں ہے تُو
حرماں نصیب کیسے تجھے بھول پائیں گے
جن کے لیے حدیثِ غمِ بے کراں ہے تُو
مینارِ فہم و عقل ہے اہلِ ہنر کے بیچ
زیرِ زمیں نہیں ہے سرِ آسماں ہے تُو
دستورِ کائنات کے آگے تو خم ہیں سر
سوچوں کا کیا کریں کہ مجسم جہاں ہے تُو
ارضِ وطن ہے تیری فطانت سے سرفراز
تُو افتخارِ قوم ہے، عظمت نشاں ہے تُو
اک جہدِ مستقل کی علامت ہے تیرا عزم
بزمِ جہاں میں پیکرِ تاب و تواں ہے تُو
راہِ عمل ہے تیرے تحرک کی زیر بار
ہیں منزلیں تلاش میں تیری، کہاں ہے تُو
قربان تیری ذات پہ سو جگمگاہٹیں
جگنو نہیں چراغ نہیں کہکشاں ہے تُو
سرور ارمان
ایک مصرع تبدیل کیا اور آخری شعر کا اضافہ کیا ہے