شاید اسکا نام ازابیل تھا، وہ کافی دیر سے اپنے ذہن پر زور ڈال رہی تھی مگر اسے کچھ یاد نہی ارہا تھا اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جو اسے اپنے بازووں میں سمیٹ سکے اور اس مضبوط پناہ گاہ میں اپنا اپ سما سکے، اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید ایک جھیل کے کنارے سوئی تھی ۔۔۔ دفعتا اس نے اپنے چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں تو اسے کنول کا وہ تنہا پھول بھی نظر اگیا جس پر اسکی اخری نظر پڑی تھی اور پھر یکایک سب کچھ اسکی یادداشت میں عود کر ایا،
تم حسین ہو بہت حسین ہو اس گلاب سے زیادہ، اس یہ لفط سن کر وہ باغ باغ ہو گئی تھی اسے ایسا لگا جیسے یہ اکڑی ہوئی شاخ بڑی شان سے تنا ہوا یہ تازہ، سرخ اور خوشبو سے بھرپور گلاب اسکی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔۔۔۔ اور پھر اسکے لاشعور میں ایک اس گلاب کی سرگوشیاں گونجنے لگیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم کیا سمجھتی ہو تم سے میرا حسن ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے ازابیل ! تم تو ایک انسان ہو ۔۔۔ محض سانس لیتا ہوا انسان جس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔۔۔۔ کیونکہ تم ایک کمزور اور سہارے کی متلاشی بے سکون روح ہو جو چند لفظوں کے حصار گم ہوکر میں اپنا اپ قربان کر بیٹھتی ہے۔۔۔۔۔
تو تم کیا سمجھتے ہو ؟ میری کوئی حیثیت نہیں ؟ کیا میری کوئی سوچ، کوئی حس نہیں، ہا ہا ہا ۔۔۔۔ مین تم سے بہت بہتر ہوں مجھ پر ہزاروں نگاہیں اپنی ہستی کی تمام تر خواہشوں کے ساتھ قربان ہونے کو تیار ہیں ۔۔۔۔ تم کیا ہو تمہاری کیا حیثیت ہے ۔۔۔ تم بس ایک تنی ہوئی شاخ کی شان ہو۔۔۔ اس سے زیادہ تمہاری کوئی حقیقت نہیں ۔۔۔۔۔
ازابیل " یہ تمہاری بھول ہے ۔۔۔۔ بے شک میری کائنات ایک تنی ہوئی شاخ ہے مگر میری حیات اور موت میں بھی ایک شان ہے۔۔۔ میں سانس کا محتاج نہیں ہوں مگر جب آندھی چلتی ہے تو بھی دیکھ لو میں کہیں چھپتا نہیں ہوں ۔۔۔ چلانا نہیں ہون۔۔۔ اسی شان کے ساتھ اکڑا ہوا کھڑا رہتا ہوں اور پتی پتی بکھر کر اپنی جان دیتا ہوں مگر میری شان میری موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے ۔۔۔۔ میں ہوا میں بکھر جاتا ہوں مگر یہ بھی میری فنا نہیں ۔۔۔ کیونکہ میں کبھی جھکتا نہیں ہوں ۔۔۔ یہی میری خودی ہے ۔۔۔۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ جھیل سے کنول کا پھول کہہ اٹھا ۔۔۔۔ تم وہی ہو نا جو میری ہستی کو تمسخرانہ انداز سے دیکھ کر چلی تھییں ۔۔۔ تم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بکھرنا کتنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔ تم کو ایک راز کی بات بتانے کے رک گیا تھا ۔۔۔ سنو گی ازابیل ؟
ہاں ضورر سنو گی ! ازابیل کی نقاہت اس کے لہچے میں بھر ائی۔۔۔۔
تو سنو ازابیل ! وہ موت بہت اچھی ہے جس میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنا مشکل اور ذلت امیز لگتا ہے ۔۔۔ مگر اس موت سے بہت بہتر ہے کہ تم ریزہ ریزہ تو جاو مگر بکھر نہ پاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تمام عمر اس بکھرنے کے لئے بھی ایک مضبوط سہارے کی متلاشی رہو۔۔۔۔۔ میں اک کنول ہوں اور وہ ایک گلاب تھا ۔۔۔ قدر مشترک یہ ہے ہم دونوں ہی پھول ہیں ۔۔۔ وہ ہوا میں بکھرا میں پانی میں بکھرونگا ۔۔۔ سب دیکھیں گے ۔۔۔ ہنسیں گے ۔۔۔ مگر ہماری موت ہماری مکمل نجات ہوگی۔۔۔۔ تم اپنا اپ دیکھ لو ۔۔۔ تم مر رہی ہو مگر بکھر نہیں رہی ہو۔۔۔۔ یہ کیسی موت ہے ۔۔۔۔ ؟ ہا ہا ہا ۔۔۔۔
یہ کہہ کنول بھی اہستہ اہستہ پانی کے ساتھ بہتا ہوا چلا گیا۔۔۔۔
سسک اٹھی ازابیل ۔۔۔ اسے اپنی شکست کا بھرپور احساس ہو رہا تھا یا شاید اس سے کہیں زیادہ اپنی تضحیک کا ۔۔۔۔ ایک دم اسکی نگاہ اوپر اٹھیں تو اس نے چلا کر کہا "اے خدا یہ کیسی زندگی اور کیسی موت ہے کہ تو نے مجھے باعث تخلیق ہونے کی سعادت تو بخشی پر اس کے لئے بھی ایک طاقت کا محتاج رکھا۔۔۔۔۔"
ایک غیبی صدا ائی۔۔۔۔ "نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔۔۔ خدا کا انصاف بر حق ہے ۔۔۔ در اصل تونے ہی اپنی طاقت کو نا جانا۔۔۔۔ اب بھی وقت ہے تو شک اور بے یقینی کے بھنور سے باہر اجا اور اپنی طاقت کا مظاہرہ دیکھ "۔۔۔۔۔۔
بہت تھکن کے احساس نے اسکی وجود کو گرا دیا ۔۔۔۔ وہ سو گئی تو خواب میں وہی بوڑھا ، وہی برگد کا درخت اور اس بوڑھے کا وہ بے ترتیب گیت گونجنے لگا۔۔۔۔
بائیس ہزار سال کا چکر
ایک مرد کا چکر
ایک عورت کا چکر
کبھی کوئی حکمران
کبھی کوئی بادشاہ
جو چالاک تھا وہ
غلامی کی باری میں بھی
بادشاہ رہا
جو بے وقوف تھا
وہ شہنشاہیت میں بھی
غلام رہا
اہ رے نصیب
اہ رے بصیب
بائیس ہزار سال کا چکر
اچانک اسکی انکھ کھل گئی۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے سب کچھ ایک دم عیاں ہو رہا ہو۔۔۔۔۔
'ازابیل تم بہت حسین ہو۔۔۔۔ اس گلاب سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
اچانک اسے ایسا لگا جیسے بائیس ہزار سال کا چکر پورا ہو چکا ہو۔۔۔ وہ ایک دم پوری طاقت سے اٹھی اپنی تمام طاقت یکجا کر کے اور پھر اس نے فرار کا راستہ چھوڑ کر ایک دم واپسی کا سفر شروع کیا ۔۔۔ اب اس پر موت اورذلت کا کوئی خوف نہین تھا ۔۔۔۔ اس کا رخ اس طرف تھا جہاں سے اس نے حیات کا جام پیا تھا۔۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔۔۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اس پر شک کا پہلا واہمہ نازل ہوا تھا ۔۔۔ اس نے اس مقام پر اپنا دامن پھاڑ کر ایک نشانی لگا دی اور اپنی انگلی کو دانتوں سے زخمی کر کے ایک رستے ہوئے خون سے ایک تحریر لکھی
"کبھی وہم و شک کے بیچ سفر نہ کرنا ۔۔۔ اور اس مقام پر نہ رکنا ورنہ پھر ہر گلاب اور کنول تمہارا تمسخر بنائے گا"
وہ پلٹی اور بستی میں لوٹ ائی ۔۔۔ وہ جہاں سے گزری اسکی چال میں ایک اکڑ تھی ایک بانک پن تھا۔۔۔۔
ایک اجنبی اواز ائی "ازابیل یہ گلاب میں تمہارے بالوں میں سچانا چاہتا ہوں ۔۔۔ تاکہ تم حسین نظر او " یہ جملہ ازابیل کی سماعت سے پہلے نہ گزرا تھا ۔۔۔۔ وہ پلٹی اور اسنے گلاب کو دیکھا اور کہا
مچھے گلاب کی نہیں تمہیں خوشبو کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تمہاری حیات ہے۔۔ میں اسے اپنے بالوں میں لگا کر تمہاری زندگی کو طول نہیں دونگی ۔۔۔۔۔
وہ چلاتا رہا چلاتا رہا ۔۔۔ مگر ازابیل نہ رکی۔۔۔۔ کیونکہ وہ شک و وہم سے ازاد ہو چکی تھی ۔۔۔ اس نے اپنے اندر کے فریب کو شکست دے دی تھی۔۔ وہ محلوں کو چھوڑ کر ایک چھونپڑی کے کنارے رکی ۔۔۔ اور اس نے اپنی زخمی انگلی سے اس بوسیدہ در پر دستک دی۔۔۔ اور پھر ایک شخص باہر نکلا اور اسنے ازابیل کو "گلاب کی سوکھی پتیاں" دان کر دیں ۔۔۔۔
ازابیل نے اب کے انتظار نہ کیا ۔۔۔۔ وہ جھکی اور سسک اٹھی۔۔۔ وہ شخص اپنی دان کی ہوئی پتیوں کو سمیٹتا رہا ۔۔۔ اور پھر اچانک اس نے ازابیل کو اپنی پناہ میں لیکر وہ پتیاں ازابیل کے سر پر بہا دیں۔۔۔۔
ازابیل اپنی جیت پر شادمان تھی۔۔۔۔ کیونکہ بائیس ہزار سال کا گیت اس کی سمجھ میں اچکا تھا۔۔۔
تم حسین ہو بہت حسین ہو اس گلاب سے زیادہ، اس یہ لفط سن کر وہ باغ باغ ہو گئی تھی اسے ایسا لگا جیسے یہ اکڑی ہوئی شاخ بڑی شان سے تنا ہوا یہ تازہ، سرخ اور خوشبو سے بھرپور گلاب اسکی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔۔۔۔ اور پھر اسکے لاشعور میں ایک اس گلاب کی سرگوشیاں گونجنے لگیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم کیا سمجھتی ہو تم سے میرا حسن ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے ازابیل ! تم تو ایک انسان ہو ۔۔۔ محض سانس لیتا ہوا انسان جس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔۔۔۔ کیونکہ تم ایک کمزور اور سہارے کی متلاشی بے سکون روح ہو جو چند لفظوں کے حصار گم ہوکر میں اپنا اپ قربان کر بیٹھتی ہے۔۔۔۔۔
تو تم کیا سمجھتے ہو ؟ میری کوئی حیثیت نہیں ؟ کیا میری کوئی سوچ، کوئی حس نہیں، ہا ہا ہا ۔۔۔۔ مین تم سے بہت بہتر ہوں مجھ پر ہزاروں نگاہیں اپنی ہستی کی تمام تر خواہشوں کے ساتھ قربان ہونے کو تیار ہیں ۔۔۔۔ تم کیا ہو تمہاری کیا حیثیت ہے ۔۔۔ تم بس ایک تنی ہوئی شاخ کی شان ہو۔۔۔ اس سے زیادہ تمہاری کوئی حقیقت نہیں ۔۔۔۔۔
ازابیل " یہ تمہاری بھول ہے ۔۔۔۔ بے شک میری کائنات ایک تنی ہوئی شاخ ہے مگر میری حیات اور موت میں بھی ایک شان ہے۔۔۔ میں سانس کا محتاج نہیں ہوں مگر جب آندھی چلتی ہے تو بھی دیکھ لو میں کہیں چھپتا نہیں ہوں ۔۔۔ چلانا نہیں ہون۔۔۔ اسی شان کے ساتھ اکڑا ہوا کھڑا رہتا ہوں اور پتی پتی بکھر کر اپنی جان دیتا ہوں مگر میری شان میری موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے ۔۔۔۔ میں ہوا میں بکھر جاتا ہوں مگر یہ بھی میری فنا نہیں ۔۔۔ کیونکہ میں کبھی جھکتا نہیں ہوں ۔۔۔ یہی میری خودی ہے ۔۔۔۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ جھیل سے کنول کا پھول کہہ اٹھا ۔۔۔۔ تم وہی ہو نا جو میری ہستی کو تمسخرانہ انداز سے دیکھ کر چلی تھییں ۔۔۔ تم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بکھرنا کتنا اچھا ہوتا ہے۔۔۔ تم کو ایک راز کی بات بتانے کے رک گیا تھا ۔۔۔ سنو گی ازابیل ؟
ہاں ضورر سنو گی ! ازابیل کی نقاہت اس کے لہچے میں بھر ائی۔۔۔۔
تو سنو ازابیل ! وہ موت بہت اچھی ہے جس میں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنا مشکل اور ذلت امیز لگتا ہے ۔۔۔ مگر اس موت سے بہت بہتر ہے کہ تم ریزہ ریزہ تو جاو مگر بکھر نہ پاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تمام عمر اس بکھرنے کے لئے بھی ایک مضبوط سہارے کی متلاشی رہو۔۔۔۔۔ میں اک کنول ہوں اور وہ ایک گلاب تھا ۔۔۔ قدر مشترک یہ ہے ہم دونوں ہی پھول ہیں ۔۔۔ وہ ہوا میں بکھرا میں پانی میں بکھرونگا ۔۔۔ سب دیکھیں گے ۔۔۔ ہنسیں گے ۔۔۔ مگر ہماری موت ہماری مکمل نجات ہوگی۔۔۔۔ تم اپنا اپ دیکھ لو ۔۔۔ تم مر رہی ہو مگر بکھر نہیں رہی ہو۔۔۔۔ یہ کیسی موت ہے ۔۔۔۔ ؟ ہا ہا ہا ۔۔۔۔
یہ کہہ کنول بھی اہستہ اہستہ پانی کے ساتھ بہتا ہوا چلا گیا۔۔۔۔
سسک اٹھی ازابیل ۔۔۔ اسے اپنی شکست کا بھرپور احساس ہو رہا تھا یا شاید اس سے کہیں زیادہ اپنی تضحیک کا ۔۔۔۔ ایک دم اسکی نگاہ اوپر اٹھیں تو اس نے چلا کر کہا "اے خدا یہ کیسی زندگی اور کیسی موت ہے کہ تو نے مجھے باعث تخلیق ہونے کی سعادت تو بخشی پر اس کے لئے بھی ایک طاقت کا محتاج رکھا۔۔۔۔۔"
ایک غیبی صدا ائی۔۔۔۔ "نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔۔۔ خدا کا انصاف بر حق ہے ۔۔۔ در اصل تونے ہی اپنی طاقت کو نا جانا۔۔۔۔ اب بھی وقت ہے تو شک اور بے یقینی کے بھنور سے باہر اجا اور اپنی طاقت کا مظاہرہ دیکھ "۔۔۔۔۔۔
بہت تھکن کے احساس نے اسکی وجود کو گرا دیا ۔۔۔۔ وہ سو گئی تو خواب میں وہی بوڑھا ، وہی برگد کا درخت اور اس بوڑھے کا وہ بے ترتیب گیت گونجنے لگا۔۔۔۔
بائیس ہزار سال کا چکر
ایک مرد کا چکر
ایک عورت کا چکر
کبھی کوئی حکمران
کبھی کوئی بادشاہ
جو چالاک تھا وہ
غلامی کی باری میں بھی
بادشاہ رہا
جو بے وقوف تھا
وہ شہنشاہیت میں بھی
غلام رہا
اہ رے نصیب
اہ رے بصیب
بائیس ہزار سال کا چکر
اچانک اسکی انکھ کھل گئی۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے سب کچھ ایک دم عیاں ہو رہا ہو۔۔۔۔۔
'ازابیل تم بہت حسین ہو۔۔۔۔ اس گلاب سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
اچانک اسے ایسا لگا جیسے بائیس ہزار سال کا چکر پورا ہو چکا ہو۔۔۔ وہ ایک دم پوری طاقت سے اٹھی اپنی تمام طاقت یکجا کر کے اور پھر اس نے فرار کا راستہ چھوڑ کر ایک دم واپسی کا سفر شروع کیا ۔۔۔ اب اس پر موت اورذلت کا کوئی خوف نہین تھا ۔۔۔۔ اس کا رخ اس طرف تھا جہاں سے اس نے حیات کا جام پیا تھا۔۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔۔۔ یہ وہی مقام تھا جہاں اس پر شک کا پہلا واہمہ نازل ہوا تھا ۔۔۔ اس نے اس مقام پر اپنا دامن پھاڑ کر ایک نشانی لگا دی اور اپنی انگلی کو دانتوں سے زخمی کر کے ایک رستے ہوئے خون سے ایک تحریر لکھی
"کبھی وہم و شک کے بیچ سفر نہ کرنا ۔۔۔ اور اس مقام پر نہ رکنا ورنہ پھر ہر گلاب اور کنول تمہارا تمسخر بنائے گا"
وہ پلٹی اور بستی میں لوٹ ائی ۔۔۔ وہ جہاں سے گزری اسکی چال میں ایک اکڑ تھی ایک بانک پن تھا۔۔۔۔
ایک اجنبی اواز ائی "ازابیل یہ گلاب میں تمہارے بالوں میں سچانا چاہتا ہوں ۔۔۔ تاکہ تم حسین نظر او " یہ جملہ ازابیل کی سماعت سے پہلے نہ گزرا تھا ۔۔۔۔ وہ پلٹی اور اسنے گلاب کو دیکھا اور کہا
مچھے گلاب کی نہیں تمہیں خوشبو کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تمہاری حیات ہے۔۔ میں اسے اپنے بالوں میں لگا کر تمہاری زندگی کو طول نہیں دونگی ۔۔۔۔۔
وہ چلاتا رہا چلاتا رہا ۔۔۔ مگر ازابیل نہ رکی۔۔۔۔ کیونکہ وہ شک و وہم سے ازاد ہو چکی تھی ۔۔۔ اس نے اپنے اندر کے فریب کو شکست دے دی تھی۔۔ وہ محلوں کو چھوڑ کر ایک چھونپڑی کے کنارے رکی ۔۔۔ اور اس نے اپنی زخمی انگلی سے اس بوسیدہ در پر دستک دی۔۔۔ اور پھر ایک شخص باہر نکلا اور اسنے ازابیل کو "گلاب کی سوکھی پتیاں" دان کر دیں ۔۔۔۔
ازابیل نے اب کے انتظار نہ کیا ۔۔۔۔ وہ جھکی اور سسک اٹھی۔۔۔ وہ شخص اپنی دان کی ہوئی پتیوں کو سمیٹتا رہا ۔۔۔ اور پھر اچانک اس نے ازابیل کو اپنی پناہ میں لیکر وہ پتیاں ازابیل کے سر پر بہا دیں۔۔۔۔
ازابیل اپنی جیت پر شادمان تھی۔۔۔۔ کیونکہ بائیس ہزار سال کا گیت اس کی سمجھ میں اچکا تھا۔۔۔
اور خدا کا انصاف بھی ۔۔۔۔۔۔