ازبک قصبے آنگرن کی جھلک

حسان خان

لائبریرین
آنگرن ازبک دارالحکومت تاشقند سے ستر میل مشرق میں واقع چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اسے ۱۹۴۶ میں کوئلے کی صنعت کے مرکز کے طور پر آباد کیا گیا تھا۔ فی الحال اس قصبے کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ستائیس ہزار نفور پر مشتمل ہے۔ ریڈیو فری یورپ کے توسط سے اس قصبے کی حالیہ تصاویر پیشِ خدمت ہیں۔
منبع

سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیرالدین بابر بھی وادیِ فرغانہ کا ازبک امیرزادہ تھا۔ وہ ایک عظیم متمدن سلطنت کے بانی ہونے کے علاوہ چغتائی ادبی روایت کے بانیوں میں بھی شامل ہے۔ اُس کی خودنوشت بابرنامہ چغتائی نثر کا بہترین نمونہ ہے اور شاید یہ چغتائی زبان کی اولین نثری نگارش بھی ہے۔ واضح رہے کہ چغتائی موجودہ ازبک ترکی کی شدید فارسی آمیز کلاسیکی شکل کا نام ہے اور یہ بھی فارسی کی طرح مکمل طور پر مشرقی مسلم تمدن کی نمائندہ زبان تھی۔
اللہ ہمیں اپنے پیشروؤں کے تمدنی ورثے سے محبت رکھنے اور اس کی ترویج کی توفیق عطا فرمائے۔

C11A870E-9DDC-477E-BF53-9E33F73F9361_w974_n_s.jpg

23F3B92F-9E79-4391-B9BF-26A482FBEEBB_w974_n_s.jpg

82378B64-F84B-4D38-B269-99F9FF8114A4_w974_n_s.jpg

192E8AED-3440-4AB9-9D04-1496C47385C8_w974_n_s.jpg

6246AF4A-222E-4DA4-9A85-B8D359C10273_w974_n_s.jpg

C5E48758-8091-4DD2-92C7-534A0DEFFB0D_w974_n_s.jpg

2A111352-4F11-4BD6-AAE9-7A3E7A36EA8E_w974_n_s.jpg

250A373B-6D03-42D7-8707-63277F698ACA_w974_n_s.jpg

DA808B69-DB1B-4C9C-A9B1-96B5C2258B30_w974_n_s.jpg

6F7993F2-11A6-43E7-8AF4-DE941A10D231_w974_n_s.jpg

2401D1F2-D749-48AD-8BF6-164648CA6796_w974_n_s.jpg

909ADE3C-89B6-4E7C-92ED-E87F8388D710_w974_n_s.jpg

D2EC6E28-3094-43CB-B673-BAAA3D86FE13_w974_n_s.jpg

85C3D008-5721-4F5D-A252-142A6A6373D0_w974_n_s.jpg

B4B112F1-AF4F-42A4-9C3F-EA36C08F7764_w974_n_s.jpg


جاری ہے۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
کہاں کہاں کی سیرا کروا دیتے ہیں محترم حسان بھائی
بہت خوب تصاویر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

حسان خان

لائبریرین
عمدہ شراکت۔ یہ تین تصویریں دو دو بار لگی ہیں :)
شکریہ۔ درستگی کر لی گئی ہے۔ :)
ازبک زبان کا اصلی رسم الخط کیسا تھا؟
جس جگہ کو آج ازبکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہاں ۱۹۲۹ء تک ازبک عربی-فارسی خط میں لکھی جاتی رہی تھی۔ اُس کے بعد بالشیوک حکومت نے ایک دستور جاری کر کے اس زبان کا خط لاطینی کر دیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی، صرف گیارہ سال بعد ۱۹۴۰ء میں اسٹالن کے حکم پر اس زبان کا خط روسی کر دیا گیا اور اسے پابند کر دیا گیا کہ یہ زیادہ سے زیادہ روسی الفاظ، وہ بھی روسی املاء کے ساتھ، استعمال کرے۔ نوے کے عشرے میں آزادی کے بعد ازبک حکومت نے رسمی طور پر زبان کا خط لاطینی مقرر کیا ہے، لیکن روسی خط بدستور لاطینی خط کے پہلو بہ پہلو استعمال ہوتا ہے۔ ازبک مصفنفوں نے کوششوں سے روسی ادھار لفظوں کی تعداد بھی بہت حد تک ختم کر دی ہے اور اب اُن کی جگہ پر عموماً عربی اور فارسی کے مستعار الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ کس طرح روسی اشتراکی استعمار مستعمرہ ممالک کی زبانوں اور ثقافتوں کو نقصان پہنچاتا رہا۔
افغان ازبک (کُل افغان آبادی کا دس فیصد) بدستور ازبک زبان کو فارسی خط میں لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے بلاگ بھی عربی خط میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے کام کرنے والے خبری ادارے بھی فارسی خط میں خبریں نشر کرتے ہیں۔ بی بی سی ازبک کا بھی افغان ازبکوں کے لیے فارسی خط میں ذیلی شعبہ قائم ہے۔
 
شکریہ۔ درستگی کر لی گئی ہے۔ :)

جس جگہ کو آج ازبکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہاں ۱۹۲۹ء تک ازبک عربی-فارسی خط میں لکھی جاتی رہی تھی۔ اُس کے بعد بالشیوک حکومت نے ایک دستور جاری کر کے اس زبان کا خط لاطینی کر دیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی، صرف گیارہ سال بعد ۱۹۴۰ء میں اسٹالن کے حکم پر اس زبان کا خط روسی کر دیا گیا اور اسے پابند کر دیا گیا کہ یہ زیادہ سے زیادہ روسی الفاظ، وہ بھی روسی املاء کے ساتھ، استعمال کرے۔ نوے کے عشرے میں آزادی کے بعد ازبک حکومت نے رسمی طور پر زبان کا خط لاطینی مقرر کیا ہے، لیکن روسی خط بدستور لاطینی خط کے پہلو بہ پہلو استعمال ہوتا ہے۔ ازبک مصفنفوں نے کوششوں سے روسی ادھار لفظوں کی تعداد بھی بہت حد تک ختم کر دی ہے اور اب اُن کی جگہ پر عموماً عربی اور فارسی کے مستعار الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بہرحال، یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ کس طرح روسی اشتراکی استعمار مستعمرہ ممالک کی زبانوں اور ثقافتوں کو نقصان پہنچاتا رہا۔
افغان ازبک (کُل افغان آبادی کا دس فیصد) بدستور ازبک زبان کو فارسی خط میں لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے بلاگ بھی عربی خط میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے کام کرنے والے خبری ادارے بھی فارسی خط میں خبریں نشر کرتے ہیں۔ بی بی سی ازبک کا بھی افغان ازبکوں کے لیے فارسی خط میں ذیلی شعبہ قائم ہے۔
بہت حسان بھائی۔ مجھے پہلے ہی اسی بات کا شک تھا۔ کیونکہ جہاں جہاں مسلمان پہنچے وہاں عربی، فارسی رسم الخط ہی زیادہ تر استعمال ہوا۔ لیکن ایک تصویر میں جہاں ہلال احمر کے دفتر کی تصویر ہے مجھے تھوڑی سی حیرت ہوئی کہ رسم الخط عربی یا فارسی جیسا کیوں نہیں!
 
Top