محمد تابش صدیقی
منتظم
ازدواجی زندگی اور سمجھنے کی چند باتیں
غیر شادی شدہ میل اور فی میل اسٹوڈنٹس اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے دوستوں یا سہیلیوں یا رشتہ داروں میں سے کسی شادہ شدہ کی لائف کو دیکھتے ہیں تو وہ شادی کے بارے اتنے نیگیٹو ہو جاتے ہیں کہ انہیں لگتا کہ شادی شاید مسائل کا انبار ہی ہے لہذا اس سے دور ہی رہو۔ تو ایسے غیر شادی شدہ اسٹوڈنٹس کی رہنمائی کے لیے کچھ باتیں پیش خدمت ہیں کہ جن کے مطالعہ سے شادی شدہ لائف کے بارے ان کی نیگیٹوٹی ختم نہ سہی لیکن کم ضرور ہو جائے گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک غیر شادی شدہ کے لیے ایک شادی شدہ کے مسائل کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے غیر شادی شدہ بھلے ارسطو ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی شادی شدہ کی کسی صورت کاؤنسلنگ نہیں کرنی چاہیے الا یہ کہ کوئی عمومی بات کر دے جیسے قرآن مجید کی آیت سنا دی یا حدیث بتلا دی تو اس میں حرج نہیں ہے۔
اصول یہی ہے کہ لیس الخبر کالمعاینہ، خبر سے حاصل شدہ علم اور مشاہدے اور تجربہ کا علم برابر نہیں ہوتا ہے، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں خبر سے منتقل نہیں ہو پاتی ہیں بلکہ ذاتی تجربہ سے ہی منتقل ہوتی ہیں جنہیں ہم احوال اور کیفیات کہتے ہیں۔ تو شادی شدہ کی کیفیات، غیر شادی شدہ کو منتقل نہیں ہو سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل حل کرنے میں کئی ایک فیکٹرز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان میں سے ایک مرد اور عورت کی شخصیت کا مطالعہ ہے۔ دونوں کی نوع چونکہ فرق ہے لہذا انہیں اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ مرد اور عورت دونوں کا مزاج اور سوچنے کا انداز تک فرق ہوتا ہے، وہ ایک ہی بات کو مختلف طرح سے لیتے ہیں، ایک بات ایک کے نزدیک اہم ہے تو دوسرے کے نزدیک فضول ہے۔ تو مرد کے لیے ضروری ہے کہ عورت کی نفسیات کو جانتا ہو یعنی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کی دنیا سے واقف ہو یعنی ان کی نفسیات سے آگاہی ہو۔ تو دونوں جب تک ایک دوسرے کی شخصیت سے واقف نہیں ہوں گے تو مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔مردوں کی اپنی دنیا ہے اور عورتوں کی اپنی دنیا ہے۔
دونوں ازدواجی زندگی کے بعد ایک دوسرے کی دنیا دیکھنے کا آغاز کرتے ہیں لیکن ان کی لرننگ میں انہیں دس سال لگ جاتے ہیں اور یہ لرننگ جلدی اس لیے نہیں ہو پاتی ہے کہ دونوں کا رشتہ مسابقت اور مقابلے کا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ لرننگ معاشرت سے ممکن ہے مثلا شوہر اپنے شادی شدہ دوستوں اور عورت اپنی شادہ شدہ سہیلوں سے سیکھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ سمجھ دار اور تجربہ کار ہوں۔
لہذا معاشرت کو بہتر کیا جائے یعنی انفرادیت (individualism) سے نکلا جائے اور اچھی فیملیز جو کہ آپ کے رشتہ داروں میں ہوں یا پڑوسیوں میں یا دوستوں میں، ان کی طرف آنا جانا رہے تو دوسرے پیئرز کے ایٹی چیوڈ سے سیکھنے کا موقع ملے گا اور لرننگ جلد ہو گی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے مسائل کبھی ختم نہ ہوں گے، کیا ازواج مطہرات کے رویوں کو قرآن مجید میں ڈسکس نہیں کیا گیا ہے؟ تو میاں بیوں کو اللہ عزوجل نے ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ اس لیے یہ مت سمجھیں کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو گھر میں سکون ہو جائے گا۔ سکون عارضی ہی ہو گا۔۔ کچھ عرصہ بعد پھر لڑائی ہو جائے گی۔ جب لڑائی کی کوئی وجہ ہو گی، تب بھی ہو گی اور بلاوجہ ہو گی کہ انسان کی نیچر ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرتا ہے، ایک جیسے ماحول سے تنگ آ جاتا ہے لہذا بعض اوقات تو میاں بیوی کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ لڑائی کی وجہ نہیں تو پھر کیوں لڑائی کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ انسانی مزاج کی فطری کمزوریاں ہیں تو بس اتنا ہے کہ اگر میاں بیوی کی لڑائی کے بعد تعلق اور مضبوط ہو رہا ہے تو یہی مطلوب ہے کہ جیسے گناہ کے بعد توبہ آپ کو اللہ کے اور نزدیک کر دے تو اب گناہ پر کیا پچھتانا اور افسوس کرنا!۔ تو میاں بیوی میں اگر لڑائی نہ ہو گی تو شاید وہ خود کشی کا سوچیں گے ۔
لہذا لڑائی کا ہونا ضروری ہے لیکن جس طرح بالکل لڑائی نہ ہونا یا مسائل کا نہ ہونا بھی ایک انتہا اور آئیڈیلزم ہے تو بات بات پر لڑائی اور روز روز کی گالم گلوچ اور مار کٹائی تو یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ یہ رویہ زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے دونوں کے لیے علیحدگی کا راستہ رکھا ہے؛ مرد کے لیے طلاق، عورت کے لیے خلع۔ مرد اگر بیوی سے تنگ ہے اور طلاق نہیں دے رہا تو اسے بیوی سے کچھ مل رہا ہے تو تبھی طلاق کا رخ نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح سے اگر عورت تنگ ہے اور وہ خلع نہیں لے رہی تو اس کا مطلب ہے کہ اسے شوہر سے کچھ خیر مل رہا ہے کہ جس کو وہ گنوانا نہیں چاہتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ شوہر سے علیحدگی کی صورت میں اس کا نقصان زیادہ ہے، لہذا وہ بڑے نقصان سے بچنا چاہتی ہے اور چھوٹا نقصان برداشت کر رہی ہے یعنی شوہر کے ساتھ رہنا۔ تو یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب دونوں اکھٹے رہ رہے ہیں تو کسی نہ کسی درجے میں انہیں ایک دوسرے سے فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے اگرچہ وہ لڑائی میں اس باہمی فائدے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
چھٹی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے جاننے والے پچاس لوگ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے دس نے آپ سے ازدواجی لائف ڈسٹرب ہونے کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسی فی صد پھر بھی ایسے ہیں کہ جو اپنے معاملات خود سے سنبھال رہے ہیں یعنی مسائل ان کے بھی ہیں لیکن وہ گھر میں ہی حل ہو جاتے ہیں اوربہترین ازدواجی لائف اسی کا نام ہے۔ باقی مسائل کا نہ ہونا تو یہ جنت میں ہی ممکن ہے، دنیا میں نہیں۔
ساتویں بات یہ ہے کہ جن میاں بیوی کے مسائل ہوتے ہیں، وہ آپ سے مسائل تو شیئر کرتے ہیں لیکن اپنی خوشیاں نہیں حالانکہ وہ اپنے دو چار سالوں میں روزانہ لڑے ہی نہ ہوں گے، کبھی خوشی کے دو چار دن بھی انہوں نے گزارے ہی ہوں گے تو وہ وہ آپ سے کبھی شیئر نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی نیچر ہی یہی ہے کہ وہ غم زیادہ شیئر کرتا ہے بنسبت خوشی کے۔ تو ازدواجی زندگی آزمائش اور خوشی دونوں کے مجموعے کا نام ہے، صرف آزمائش نہیں ہے بلکہ خوشی بھی ہے۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق ہی ایسا ہے کہ مرد زیادتی کرے گا۔ اگر وہ نہیں کرے گا تو بیوی کر جائے گی۔ ایک نہیں ناراض ہو گا تو دوسرا ہو جائے گا، شوہر نہیں ڈانٹے گا تو بیوی ڈانٹنا شروع ہو جائے گی اور یہ حقیقت ہے۔ تو میاں بیوی کا تعلق مسابقت کا تعلق ہے اور اسی طرح یہ تعلق بنیادی طور لین دین کا تعلق بھی ہے۔
آئیڈیل تعلق ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو یک طرفہ ہو جیسا کہ ماں کا اولاد کے ساتھ ہے کہ دینا ہی دینا ہے، لینے کی امید بھی نہیں لگائی اور نہ بھی ملا تو واری صدقے، قربان۔ تو میاں بیوی کا تعلق قانونی ہے لہذا یہ شروع میں قانونی انداز میں ہی چلے گا کہ گنتی ہوتی رہے گی کہ میں نے یہ دیا اور اس نے وہ لیا، میں نے اتنا کیا اور اس نے اتنا۔ اور شروع میں اس کو ایسے ہی چلا لیں، کوئی حرج نہیں۔ میں یہی کہا کرتا ہوں کہ شروع میں میاں بیوی کا تعلق دھکے کا تعلق ہے، بس گاڑی کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کروا دیا کریں، پھر زندگی کی سڑک پر کچھ سفر اور طے کر لے گی۔ اور یہی رشتہ داروں کا کام ہے یعنی دھکا لگا دینا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ باہمی ایثار اور قربانی سے محبت اور الفت پیدا ہو جاتی ہے تو یک طرفہ حسن سلوک بھی چل جاتا ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا۔
نویں بات یہ کہ میاں بیوی میں دونوں کی نفسیاتی ساخت کا فرق ہے اور ازدواجی مسائل کے حل کے لیے اس کو سمجھنا اور سمجھانا دونوں کے لیے ضروری ہے۔ مرد ایک بات کو چھوٹا سمجھتا ہے لیکن عورت کے نزدیک وہ بہت بڑی ہوتی ہے کہ اس کا تعلق اس کے جذبات سے ہوتا ہے جبکہ مرد اسی بات کو شعور کی عینک سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تو شعور کی عینک سے وہی ہے بات چھوٹی ہی ہوتی ہے بلکہ بہت معمولی لیکن عورت کے جذبات کی روشنی میں وہ بہت بڑی ہوتی ہے۔ اب یہ ایک دوسرے کی عینک نہیں لگا سکتے بلکہ ان میں اکثر کو اس کا بھی شعور نہیں ہوتا کہ ہماری عینکیں مختلف ہیں تو یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اختلافات کم ہو جاتے ہیں اور اگر ہو جائیں تو جلدی حل ہو جاتے ہیں۔
دسویں بات یہ ہے کہ میچورٹی بھی ایک خاص عمر میں دونوں میں آتی ہے اگرچہ عورت میں عموما جلدی آ جاتی ہے، ماں بننے کی وجہ سے۔ لیکن مرد نے اگر انڈی پینڈنٹ لائف نہ گزاری ہو تو میچورٹی دیر سے آتی ہے۔ اس لیے ایک مرد اگر بیس سے پچیس سال کا بھی ہے اور بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھا ہوا ہے تو اسے علیحدہ گھر لینے کا فیصلہ کرنے میں اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ اس نے کبھی اپنی لائف کے چھوٹے چھوٹے فیصلے نہیں کیے تو اب اپنی بیوی کی لائف کے فیصلے کرنے کی بھی اس میں ہمت اور جرات نہیں ہے یعنی اس نے یہ ابھی تک سیکھا نہیں ہے، اس نے ابھی یہ سیکھنا ہے۔
تو یہ بہت اہم ہے کہ مرد کی شادی سے پہلے اس کی ایسی تربیت کہ وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، بلکہ بچیوں کی شادی میں جو چیزیں دیکھنی چاہیں، ان میں سے ایک یہ بھی اہم ہے کہ مرد میں فیصلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ گھر کا سربراہ وہی بن سکتا ہے کہ جس میں یہ صلاحیت ہو اور اب یہ ممی ڈیڈی بچے کیا گھر چلائیں گے! اس لیے بیوی کو اپنے سسرال کے ساتھ جو مسائل پیش آتے ہیں، انہیں حل کرنے میں وہی مرد ناکام رہتا ہے کہ جس نے زندگی میں کبھی فیصلے نہ کیے ہوں اور ڈی پینڈینٹ لائف گزاری ہو۔ لہذا مرد کو سیکھنے میں وقت لگے گا، یہ بیوی کو سمجھنا چاہیے۔ یا وہ خود اگر شوہر سے زیادہ میچور ہو تو اسے سکھا دے اگرچہ یہ چیز اس کے لیے اذیت ناک ہو گی کہ عورت ہمیشہ ایسے مرد کو پسند کرتی ہے جو اس سے مضبوط ہو۔
گیارہویں بات یہ کہ شادی سے پہلے رویہ اور ہے اور بعد میں اور ہے تو یہ تو عموما ہوتا ہے لیکن دونوں طرف سے رویوں میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کے لیے ذہنا تیار رہنا چاہیے۔ یہاں مرد اور عورت کی سائیکالوجی میں فرق یہ بھی ہے کہ مرد عموما برے حالات یا وقت کے لیے ذہنا تیار رہتا ہے لیکن عورت نہیں ہوتی، یا یوں کہہ لیں کہ وہ زیادہ خوش فہم ہوتی ہے یا زیادہ آپٹیمسٹک ہوتی ہے لہذا اگر حالات اس کے ذہن کے موافق نہ ہوں تو وہ زیادہ جلدی اور تیزی سے مینٹل ڈس آڈر کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں کچھ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہے کہ ماحول میں اس قدر گلیمر اور چکاچوند ہے کہ یہ چیز عورتوں کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ زندگی تو نام ہی آسائش اور آرام کا ہے جبکہ مرد کا بیانیہ ان کے مقابلے میں زندگی کو ایک چیلنج اور آزمائش کے طور لینے کا ہوتا ہے لہذا جب گھر ٹوٹتا ہے تو یہ نہیں کہ عورت کا نقصان ہوتا ہے، مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہوتا ہے اور وہ بھی اتنی ہی تکلیف میں ہوتا ہے جتنی کہ عورت لیکن وہ آزمائش کو فیس کر جاتا ہے اور بہت کم ڈھیر ہوتا ہے، اس کی وجہ یہی نفسیاتی فرق ہے۔ اس نفسیاتی فرق کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرد کی جسمانی ساخت ایسی ہے یا اس کے کام یا ذمہ داری کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ زندگی کو چیلنج اور آزمائش کے طور لے۔
بارہویں بات یہ کہ فرق صرف مرد اور عورت کی نفسیات کا نہیں ہے بلکہ عورت، عورت کی نفسیات میں فرق ہوتا ہے۔ مثلا اگر میں یہ بات کہوں کہ میرے فیس بک فرینڈز لکھاریوں میں فلاں اور فلاں ایک نوع کی خواتین ہیں اور فلاں اور فلاں دوسری نوع ہیں تو یہ بات شاید کسی حد تک درست ہو۔
پہلی قسم کی خواتین کے لیے وہ مسائل حساس نہیں ہیں جو دوسری قسم کی خواتین کے لیے اہم ہوتے ہیں لہذا دونوں کو ایک جیسا مشورہ دینا بھی درست نہ ہو گا۔
اس لیے پہلی قسم کی خاتون اگر مجھ سے مشورہ مانگیں گی کہ خاوند مجھے یونیورسٹی کی جاری تعلیم درمیان میں چھوڑ دینے کا حکم دے رہا ہے تو میں یہی کہوں کہ خاوند کی اطاعت کرو، زیادہ پڑھائی وڑائی کی ضرورت نہیں ہے اور اس خاتون کو بھی شاید اس مشورے پر عمل میں ہی سکون میسر آئے گا کہ اس کی نفسیاتی ساخت ہی اسی قسم کے مشورے کو قبول کرنے کے لیے بنی ہے کہ اس کے مزاج میں پیسوٹی کا غلبہ ہے۔ اور دوسری قسم کی خاتون اگر مشورہ مانگیں گی تو میں شاید اسے یہ مشورہ نہ دے سکوں اور اگر دے بھی دوں گا تو وہ بے کار جائے گا اور اس کی ذہنی اذیت بڑھ جائے گی کہ وہ ایسے مشورے قبول کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئی کہ اس کے مزاج میں ایکٹوٹی ہے، تو یہ یا تو کونے کھدرے میں سڑ سڑ کر زندگی گزار لے گی یا پھر علیحدگی کا سوچے گی۔
باقی یہ جزوی باتیں ہیں کہ خاوند کی زیادتی ہے یا بیوی کی اور ان جزوی باتوں کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ کسی مسئلے میں خاوند زیادتی پر ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا ہے اور کسی مسئلے میں بیوی زیادتی پر ہو سکتی ہے بلکہ ہوتی ہے۔ پس اگر زیادتی کم ہو تو گزارا ہو جاتا ہے اور دل بڑا کرنا چاہیے لیکن اگر زیادتی زیادہ ہو اور قابل برداشت نہ رہے تو پھر علیحدگی کا رستہ شریعت میں اسی لیے ہے۔ اب علیحدگی کے معاشرتی نقصانات ہیں، یہ بات بھی درست ہے لیکن علیحدگی شریعت میں کوئی گالی نہیں ہے، البتہ اس کو ناپسند ضرور کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ذہن میں رہے کہ مسائل تو ہر جگہ ہیں اور ہوں گے۔ پس اس وقت اس آخری آپشن یعنی علیحدگی کا سوچو جب یہ دیکھو کہ اب مرنا، زندہ رہنے سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے تو اب بے شک علیحدہ ہو جاؤ۔ لیکن یہ کیفیت کہ مرنا، زندہ رہنے سے زیادہ محبوب ہو جائے، عارضی نہ ہو بلکہ مستقل ہو جائے کہ عارضی طور تو یہ کیفیت بھی انسان پر طاری ہوتی ہی رہتی ہے بلکہ غیر شادی شدہ پر بھی اپنے حالات سے تنگ ہونے کی وجہ سے طاری ہو جاتی ہے۔
حافظ محمد زبیر
غیر شادی شدہ میل اور فی میل اسٹوڈنٹس اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے دوستوں یا سہیلیوں یا رشتہ داروں میں سے کسی شادہ شدہ کی لائف کو دیکھتے ہیں تو وہ شادی کے بارے اتنے نیگیٹو ہو جاتے ہیں کہ انہیں لگتا کہ شادی شاید مسائل کا انبار ہی ہے لہذا اس سے دور ہی رہو۔ تو ایسے غیر شادی شدہ اسٹوڈنٹس کی رہنمائی کے لیے کچھ باتیں پیش خدمت ہیں کہ جن کے مطالعہ سے شادی شدہ لائف کے بارے ان کی نیگیٹوٹی ختم نہ سہی لیکن کم ضرور ہو جائے گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک غیر شادی شدہ کے لیے ایک شادی شدہ کے مسائل کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے غیر شادی شدہ بھلے ارسطو ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی شادی شدہ کی کسی صورت کاؤنسلنگ نہیں کرنی چاہیے الا یہ کہ کوئی عمومی بات کر دے جیسے قرآن مجید کی آیت سنا دی یا حدیث بتلا دی تو اس میں حرج نہیں ہے۔
اصول یہی ہے کہ لیس الخبر کالمعاینہ، خبر سے حاصل شدہ علم اور مشاہدے اور تجربہ کا علم برابر نہیں ہوتا ہے، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں خبر سے منتقل نہیں ہو پاتی ہیں بلکہ ذاتی تجربہ سے ہی منتقل ہوتی ہیں جنہیں ہم احوال اور کیفیات کہتے ہیں۔ تو شادی شدہ کی کیفیات، غیر شادی شدہ کو منتقل نہیں ہو سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل حل کرنے میں کئی ایک فیکٹرز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان میں سے ایک مرد اور عورت کی شخصیت کا مطالعہ ہے۔ دونوں کی نوع چونکہ فرق ہے لہذا انہیں اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ مرد اور عورت دونوں کا مزاج اور سوچنے کا انداز تک فرق ہوتا ہے، وہ ایک ہی بات کو مختلف طرح سے لیتے ہیں، ایک بات ایک کے نزدیک اہم ہے تو دوسرے کے نزدیک فضول ہے۔ تو مرد کے لیے ضروری ہے کہ عورت کی نفسیات کو جانتا ہو یعنی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کی دنیا سے واقف ہو یعنی ان کی نفسیات سے آگاہی ہو۔ تو دونوں جب تک ایک دوسرے کی شخصیت سے واقف نہیں ہوں گے تو مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔مردوں کی اپنی دنیا ہے اور عورتوں کی اپنی دنیا ہے۔
دونوں ازدواجی زندگی کے بعد ایک دوسرے کی دنیا دیکھنے کا آغاز کرتے ہیں لیکن ان کی لرننگ میں انہیں دس سال لگ جاتے ہیں اور یہ لرننگ جلدی اس لیے نہیں ہو پاتی ہے کہ دونوں کا رشتہ مسابقت اور مقابلے کا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ یہ لرننگ معاشرت سے ممکن ہے مثلا شوہر اپنے شادی شدہ دوستوں اور عورت اپنی شادہ شدہ سہیلوں سے سیکھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ سمجھ دار اور تجربہ کار ہوں۔
لہذا معاشرت کو بہتر کیا جائے یعنی انفرادیت (individualism) سے نکلا جائے اور اچھی فیملیز جو کہ آپ کے رشتہ داروں میں ہوں یا پڑوسیوں میں یا دوستوں میں، ان کی طرف آنا جانا رہے تو دوسرے پیئرز کے ایٹی چیوڈ سے سیکھنے کا موقع ملے گا اور لرننگ جلد ہو گی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے مسائل کبھی ختم نہ ہوں گے، کیا ازواج مطہرات کے رویوں کو قرآن مجید میں ڈسکس نہیں کیا گیا ہے؟ تو میاں بیوں کو اللہ عزوجل نے ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ اس لیے یہ مت سمجھیں کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو گھر میں سکون ہو جائے گا۔ سکون عارضی ہی ہو گا۔۔ کچھ عرصہ بعد پھر لڑائی ہو جائے گی۔ جب لڑائی کی کوئی وجہ ہو گی، تب بھی ہو گی اور بلاوجہ ہو گی کہ انسان کی نیچر ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرتا ہے، ایک جیسے ماحول سے تنگ آ جاتا ہے لہذا بعض اوقات تو میاں بیوی کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ لڑائی کی وجہ نہیں تو پھر کیوں لڑائی کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ انسانی مزاج کی فطری کمزوریاں ہیں تو بس اتنا ہے کہ اگر میاں بیوی کی لڑائی کے بعد تعلق اور مضبوط ہو رہا ہے تو یہی مطلوب ہے کہ جیسے گناہ کے بعد توبہ آپ کو اللہ کے اور نزدیک کر دے تو اب گناہ پر کیا پچھتانا اور افسوس کرنا!۔ تو میاں بیوی میں اگر لڑائی نہ ہو گی تو شاید وہ خود کشی کا سوچیں گے ۔
لہذا لڑائی کا ہونا ضروری ہے لیکن جس طرح بالکل لڑائی نہ ہونا یا مسائل کا نہ ہونا بھی ایک انتہا اور آئیڈیلزم ہے تو بات بات پر لڑائی اور روز روز کی گالم گلوچ اور مار کٹائی تو یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ یہ رویہ زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے دونوں کے لیے علیحدگی کا راستہ رکھا ہے؛ مرد کے لیے طلاق، عورت کے لیے خلع۔ مرد اگر بیوی سے تنگ ہے اور طلاق نہیں دے رہا تو اسے بیوی سے کچھ مل رہا ہے تو تبھی طلاق کا رخ نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح سے اگر عورت تنگ ہے اور وہ خلع نہیں لے رہی تو اس کا مطلب ہے کہ اسے شوہر سے کچھ خیر مل رہا ہے کہ جس کو وہ گنوانا نہیں چاہتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ شوہر سے علیحدگی کی صورت میں اس کا نقصان زیادہ ہے، لہذا وہ بڑے نقصان سے بچنا چاہتی ہے اور چھوٹا نقصان برداشت کر رہی ہے یعنی شوہر کے ساتھ رہنا۔ تو یہ بھی ذہن میں رہے کہ جب دونوں اکھٹے رہ رہے ہیں تو کسی نہ کسی درجے میں انہیں ایک دوسرے سے فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے اگرچہ وہ لڑائی میں اس باہمی فائدے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
چھٹی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے جاننے والے پچاس لوگ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے دس نے آپ سے ازدواجی لائف ڈسٹرب ہونے کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسی فی صد پھر بھی ایسے ہیں کہ جو اپنے معاملات خود سے سنبھال رہے ہیں یعنی مسائل ان کے بھی ہیں لیکن وہ گھر میں ہی حل ہو جاتے ہیں اوربہترین ازدواجی لائف اسی کا نام ہے۔ باقی مسائل کا نہ ہونا تو یہ جنت میں ہی ممکن ہے، دنیا میں نہیں۔
ساتویں بات یہ ہے کہ جن میاں بیوی کے مسائل ہوتے ہیں، وہ آپ سے مسائل تو شیئر کرتے ہیں لیکن اپنی خوشیاں نہیں حالانکہ وہ اپنے دو چار سالوں میں روزانہ لڑے ہی نہ ہوں گے، کبھی خوشی کے دو چار دن بھی انہوں نے گزارے ہی ہوں گے تو وہ وہ آپ سے کبھی شیئر نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی نیچر ہی یہی ہے کہ وہ غم زیادہ شیئر کرتا ہے بنسبت خوشی کے۔ تو ازدواجی زندگی آزمائش اور خوشی دونوں کے مجموعے کا نام ہے، صرف آزمائش نہیں ہے بلکہ خوشی بھی ہے۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق ہی ایسا ہے کہ مرد زیادتی کرے گا۔ اگر وہ نہیں کرے گا تو بیوی کر جائے گی۔ ایک نہیں ناراض ہو گا تو دوسرا ہو جائے گا، شوہر نہیں ڈانٹے گا تو بیوی ڈانٹنا شروع ہو جائے گی اور یہ حقیقت ہے۔ تو میاں بیوی کا تعلق مسابقت کا تعلق ہے اور اسی طرح یہ تعلق بنیادی طور لین دین کا تعلق بھی ہے۔
آئیڈیل تعلق ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو یک طرفہ ہو جیسا کہ ماں کا اولاد کے ساتھ ہے کہ دینا ہی دینا ہے، لینے کی امید بھی نہیں لگائی اور نہ بھی ملا تو واری صدقے، قربان۔ تو میاں بیوی کا تعلق قانونی ہے لہذا یہ شروع میں قانونی انداز میں ہی چلے گا کہ گنتی ہوتی رہے گی کہ میں نے یہ دیا اور اس نے وہ لیا، میں نے اتنا کیا اور اس نے اتنا۔ اور شروع میں اس کو ایسے ہی چلا لیں، کوئی حرج نہیں۔ میں یہی کہا کرتا ہوں کہ شروع میں میاں بیوی کا تعلق دھکے کا تعلق ہے، بس گاڑی کو دھکا لگا کر اسٹارٹ کروا دیا کریں، پھر زندگی کی سڑک پر کچھ سفر اور طے کر لے گی۔ اور یہی رشتہ داروں کا کام ہے یعنی دھکا لگا دینا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ باہمی ایثار اور قربانی سے محبت اور الفت پیدا ہو جاتی ہے تو یک طرفہ حسن سلوک بھی چل جاتا ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا۔
نویں بات یہ کہ میاں بیوی میں دونوں کی نفسیاتی ساخت کا فرق ہے اور ازدواجی مسائل کے حل کے لیے اس کو سمجھنا اور سمجھانا دونوں کے لیے ضروری ہے۔ مرد ایک بات کو چھوٹا سمجھتا ہے لیکن عورت کے نزدیک وہ بہت بڑی ہوتی ہے کہ اس کا تعلق اس کے جذبات سے ہوتا ہے جبکہ مرد اسی بات کو شعور کی عینک سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تو شعور کی عینک سے وہی ہے بات چھوٹی ہی ہوتی ہے بلکہ بہت معمولی لیکن عورت کے جذبات کی روشنی میں وہ بہت بڑی ہوتی ہے۔ اب یہ ایک دوسرے کی عینک نہیں لگا سکتے بلکہ ان میں اکثر کو اس کا بھی شعور نہیں ہوتا کہ ہماری عینکیں مختلف ہیں تو یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اختلافات کم ہو جاتے ہیں اور اگر ہو جائیں تو جلدی حل ہو جاتے ہیں۔
دسویں بات یہ ہے کہ میچورٹی بھی ایک خاص عمر میں دونوں میں آتی ہے اگرچہ عورت میں عموما جلدی آ جاتی ہے، ماں بننے کی وجہ سے۔ لیکن مرد نے اگر انڈی پینڈنٹ لائف نہ گزاری ہو تو میچورٹی دیر سے آتی ہے۔ اس لیے ایک مرد اگر بیس سے پچیس سال کا بھی ہے اور بیوی کو ماں باپ کے ساتھ رکھا ہوا ہے تو اسے علیحدہ گھر لینے کا فیصلہ کرنے میں اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ اس نے کبھی اپنی لائف کے چھوٹے چھوٹے فیصلے نہیں کیے تو اب اپنی بیوی کی لائف کے فیصلے کرنے کی بھی اس میں ہمت اور جرات نہیں ہے یعنی اس نے یہ ابھی تک سیکھا نہیں ہے، اس نے ابھی یہ سیکھنا ہے۔
تو یہ بہت اہم ہے کہ مرد کی شادی سے پہلے اس کی ایسی تربیت کہ وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، بلکہ بچیوں کی شادی میں جو چیزیں دیکھنی چاہیں، ان میں سے ایک یہ بھی اہم ہے کہ مرد میں فیصلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ گھر کا سربراہ وہی بن سکتا ہے کہ جس میں یہ صلاحیت ہو اور اب یہ ممی ڈیڈی بچے کیا گھر چلائیں گے! اس لیے بیوی کو اپنے سسرال کے ساتھ جو مسائل پیش آتے ہیں، انہیں حل کرنے میں وہی مرد ناکام رہتا ہے کہ جس نے زندگی میں کبھی فیصلے نہ کیے ہوں اور ڈی پینڈینٹ لائف گزاری ہو۔ لہذا مرد کو سیکھنے میں وقت لگے گا، یہ بیوی کو سمجھنا چاہیے۔ یا وہ خود اگر شوہر سے زیادہ میچور ہو تو اسے سکھا دے اگرچہ یہ چیز اس کے لیے اذیت ناک ہو گی کہ عورت ہمیشہ ایسے مرد کو پسند کرتی ہے جو اس سے مضبوط ہو۔
گیارہویں بات یہ کہ شادی سے پہلے رویہ اور ہے اور بعد میں اور ہے تو یہ تو عموما ہوتا ہے لیکن دونوں طرف سے رویوں میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کے لیے ذہنا تیار رہنا چاہیے۔ یہاں مرد اور عورت کی سائیکالوجی میں فرق یہ بھی ہے کہ مرد عموما برے حالات یا وقت کے لیے ذہنا تیار رہتا ہے لیکن عورت نہیں ہوتی، یا یوں کہہ لیں کہ وہ زیادہ خوش فہم ہوتی ہے یا زیادہ آپٹیمسٹک ہوتی ہے لہذا اگر حالات اس کے ذہن کے موافق نہ ہوں تو وہ زیادہ جلدی اور تیزی سے مینٹل ڈس آڈر کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں کچھ کردار ہمارے ماحول کا بھی ہے کہ ماحول میں اس قدر گلیمر اور چکاچوند ہے کہ یہ چیز عورتوں کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ زندگی تو نام ہی آسائش اور آرام کا ہے جبکہ مرد کا بیانیہ ان کے مقابلے میں زندگی کو ایک چیلنج اور آزمائش کے طور لینے کا ہوتا ہے لہذا جب گھر ٹوٹتا ہے تو یہ نہیں کہ عورت کا نقصان ہوتا ہے، مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہوتا ہے اور وہ بھی اتنی ہی تکلیف میں ہوتا ہے جتنی کہ عورت لیکن وہ آزمائش کو فیس کر جاتا ہے اور بہت کم ڈھیر ہوتا ہے، اس کی وجہ یہی نفسیاتی فرق ہے۔ اس نفسیاتی فرق کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مرد کی جسمانی ساخت ایسی ہے یا اس کے کام یا ذمہ داری کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ زندگی کو چیلنج اور آزمائش کے طور لے۔
بارہویں بات یہ کہ فرق صرف مرد اور عورت کی نفسیات کا نہیں ہے بلکہ عورت، عورت کی نفسیات میں فرق ہوتا ہے۔ مثلا اگر میں یہ بات کہوں کہ میرے فیس بک فرینڈز لکھاریوں میں فلاں اور فلاں ایک نوع کی خواتین ہیں اور فلاں اور فلاں دوسری نوع ہیں تو یہ بات شاید کسی حد تک درست ہو۔
پہلی قسم کی خواتین کے لیے وہ مسائل حساس نہیں ہیں جو دوسری قسم کی خواتین کے لیے اہم ہوتے ہیں لہذا دونوں کو ایک جیسا مشورہ دینا بھی درست نہ ہو گا۔
اس لیے پہلی قسم کی خاتون اگر مجھ سے مشورہ مانگیں گی کہ خاوند مجھے یونیورسٹی کی جاری تعلیم درمیان میں چھوڑ دینے کا حکم دے رہا ہے تو میں یہی کہوں کہ خاوند کی اطاعت کرو، زیادہ پڑھائی وڑائی کی ضرورت نہیں ہے اور اس خاتون کو بھی شاید اس مشورے پر عمل میں ہی سکون میسر آئے گا کہ اس کی نفسیاتی ساخت ہی اسی قسم کے مشورے کو قبول کرنے کے لیے بنی ہے کہ اس کے مزاج میں پیسوٹی کا غلبہ ہے۔ اور دوسری قسم کی خاتون اگر مشورہ مانگیں گی تو میں شاید اسے یہ مشورہ نہ دے سکوں اور اگر دے بھی دوں گا تو وہ بے کار جائے گا اور اس کی ذہنی اذیت بڑھ جائے گی کہ وہ ایسے مشورے قبول کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئی کہ اس کے مزاج میں ایکٹوٹی ہے، تو یہ یا تو کونے کھدرے میں سڑ سڑ کر زندگی گزار لے گی یا پھر علیحدگی کا سوچے گی۔
باقی یہ جزوی باتیں ہیں کہ خاوند کی زیادتی ہے یا بیوی کی اور ان جزوی باتوں کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ کسی مسئلے میں خاوند زیادتی پر ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا ہے اور کسی مسئلے میں بیوی زیادتی پر ہو سکتی ہے بلکہ ہوتی ہے۔ پس اگر زیادتی کم ہو تو گزارا ہو جاتا ہے اور دل بڑا کرنا چاہیے لیکن اگر زیادتی زیادہ ہو اور قابل برداشت نہ رہے تو پھر علیحدگی کا رستہ شریعت میں اسی لیے ہے۔ اب علیحدگی کے معاشرتی نقصانات ہیں، یہ بات بھی درست ہے لیکن علیحدگی شریعت میں کوئی گالی نہیں ہے، البتہ اس کو ناپسند ضرور کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ذہن میں رہے کہ مسائل تو ہر جگہ ہیں اور ہوں گے۔ پس اس وقت اس آخری آپشن یعنی علیحدگی کا سوچو جب یہ دیکھو کہ اب مرنا، زندہ رہنے سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے تو اب بے شک علیحدہ ہو جاؤ۔ لیکن یہ کیفیت کہ مرنا، زندہ رہنے سے زیادہ محبوب ہو جائے، عارضی نہ ہو بلکہ مستقل ہو جائے کہ عارضی طور تو یہ کیفیت بھی انسان پر طاری ہوتی ہی رہتی ہے بلکہ غیر شادی شدہ پر بھی اپنے حالات سے تنگ ہونے کی وجہ سے طاری ہو جاتی ہے۔
حافظ محمد زبیر