loneliness4ever
محفلین
ازلی تضاد
از س ن مخمور
از س ن مخمور
مہمان خانے کا ایک دروازہ چوہدری رئیس الدین غوری مرحوم کی محل نماحویلی میں کھلتا تھا۔اور یہ ہی وجہ تھی کہ چوہدری مرحوم کے پوتے اسمعیل غوری کے انتظار میں گزرتا وقت باآسانی کٹ جاتا تھا، اندرو نی ہال نما کمرے میں پرانے وقتوں کی چوہدرانی کی بیٹھک آج بھی لگتی تھی اور محلے کی ہر عمر کی عورت اپنی اپنی رام کہانی دوپہر تلک چوہدرانی کو سناتی رہتی تھی۔ کبھی ساس اپنی بہو کے پھوہڑ پن کا رونا روتی تو کبھی بہو اپنی ساس کے ظلموں کی داستان سناتی۔ یوں بڑھاپے کا یہ دور بھی گھریلو سازشوں ،معرکوں اور ساس بہو کے ازلی مسائل کے حل کے لئے دئیے گئے قیمتی مشوروں میں گزر رہا تھا۔سفیدی سر پر سج چکی تھی، چہرے پر جھڑیوں کا راج قائم ہو چکا تھا مگر پرانے وقتوں کی ہوا اپنے تن میں بسائے چوہدرانی میں آج بھی وہی کرختگی اور سختی موجود تھی جو آج سے بتیس سال پہلے شوہر کی وفات پر اس کے بھائیوں سے عدالتی کاروائیوں کے دوران دیکھی گئی تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد جال سازی سے اسکے دیواروں نے ہر وہ چیز جس پر اسکا اور اسکی اولاد کا حق تھا ہتھیا لی تھی۔ بس لے دے کر یہ ایک حویلی تھی جس پر وہ قابض نہ ہوسکے ۔ گھر کی قیمتی چیزیں اور اپنا زیور بھیچ کر اس نے اپنے بیٹے ریاض غوری کو اس قابل کیا تھا کہ وہ آج شہر کی ایک اچھی کپڑا بنانے والی کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز تھا اور شریف باپ کی شریف اولاد ہونے کے ناطے اپنی بیوہ ماں کی ہر ذمہ داری اپنے سر لے کر اپنی چھوٹی بہن کی ایک اچھے گھرانے میں شادی کروا نے کے بعد اپنا گھر بسا کر باپ کی بنائی اس حویلی میں اپنے چھوٹے سے گھرانے کے ساتھ زندگی کا لطف لے رہا تھا۔
” اری موئی ہاجرہ کہاں مرگئی “
” جی آئی بڑی بیگم“
ہاجرہ کی آواز دور رسوئی سے آتی محسوس ہوئی
”آئی کی بچی !! جلد ی جااور دیکھ اسمعیل نہا کر فارغ ہوا ؟؟ ماسٹر جی انتظار کر رہے ہیں“
” دیکھ لے حجن کیسی عورت میرے بچے کے سر ڈالی ہے کمبخت خود تو سست ہے، میرے پوتے کو بھی سست بنا دیا ہے اس نے“
چوہدرانی نے پاس بیٹھی حجن سے شکوہ کرتے ہوئے اپنی بہو کی روایتی تعریف کی
” چوہدرانی جی اب مجھ کو کیا معلوم تھا کہ چوھودیں کے چاند میں گرہن لگا ہوا ہے۔“
”اگر گرہن لگا ہوتا تو بھی اچھا ہوتا وہ تو ایک وقت کے لئے لگتا ہے ناں ،یہ موئی تو ہر وقت ہی کے لئے آنکھ کا کانٹا بن گئی ہے“
چوہدرانی نے اپنی لاکھوں میں ایک بہو کا کھاتہ کھول دیا
” مجھے تو لگتا ہے تو نے اس نکمی کے ماں باپ سے بوری بھر پیسہ لیا تھا تاکہ اس کو کسی کے سر تھوپ دے“
” ہائے ہائے اللہ معاف کرے، لعنت ہو اسکی مجھ پر اگر میں گھر بسوانے کے پیسے لوں۔ اللہ رسول واسطے کام کرتی ہوں میں۔ بس اپنی عاقبت سنوارنے کی خاطر۔ قسم لے لو چوہدرانی مجھ کواس کے لچن معلوم ہوتے تو سات جنم گھر میں ہی بیٹھواتی اس کو “
حجن بی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی
” اری سانپ لوٹتے ہیں میرے سینے پر ، صبح کا گیا میرا بچہ شام کو تھکا ہارا گھر آتا ہے تو جنم جلی کی خرافات شروع ہوجاتی ہیں ، کبھی اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ تراش کرمیرے معصوم کو گھر میں آرام تک نہیںکرنے دیتی ، بس ڈاکٹروں ، حکیموں کے چکر لگاتی رہتی ہے۔ اور کبھی ماں کی طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے اس سے ملنے کو جاتی ہے ، میں نے تو کل رات ریاض میاں سے کہہ دیا کہ بس دو مہینے میں ایک بار اس کو میکے لیکر جاﺅ۔ کیا ہر ہفتے کا تماشہ لگایا ہوا ہے۔ کبھی بھائی بیمار ، کبھی باپ کی یاد ، کبھی ماں بیمار۔“
” ارے چوہدرانی مجھے تو شک ہوتا ہے کہیں اس نے کوئی تعویذ وغیرہ گھول کر تو نہیں پلا یا ہے ریاض میاں کو، جو اس کی ہر کہی مانے مانے پھرتے ہیں“
حجن بی نے بہت خوبی سے جلتی آگ میں تیل ڈالتے ہوئے کہا
” حجن تو نے تو دل لگتی کہہ دی۔ سچ مجھے بھی کبھی کبھی یہ ہی شک ہوتا ہے، ذرا آنکھ بچتی ہے تو ریاض میاں کے تکئے کا آئے دن جائزہ لیتی رہتی ہوں کہیں کوئی تعویذ تو نہیں ڈال رکھا موئی نہیں“
” سر سے دیکھو تو د و پٹہ اترتا ہی نہیں مگر کیسے دیدے مٹکائے ہرآئے گئے کو دیکھتی رہتی ہے۔ بھلا شریف گھرانے کی لڑکیاں ایسا کرتی ہیں۔مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتیں نہ یہ اور نہ اس کی ماں، دونوں ایک جیسی ہی ہیں میسنی فطرت کی۔“
چوہدرانی شکایات ،شکوک اورکردار کشی کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اپنی بہو رانی کی ماں کو بھی توپوں کی زد میں لے آئی۔
”بس بیاہ کے دو ماہ بعد ہی موئی نے اپنی کینچلی اتار پھینکی تھی۔اب دیکھو اتوار کو صبح منہ اندھیرے سے کام کا ناٹک کررہی ہے جیسے اتنے چھوٹے سے گھر کا کام کرنا کوئی دودھ کی نہر نکالنے کے مترادف ہے۔ بکتی ہے کہ اتوار کے لئے بھی نوکر رکھ لیں ۔ ہائے میرا بچہ کما کما کر تھکے جاتا ہے اور یہ اپنی عیاشی پر لگی رہتی ہے، ایک بچے کو کیا جنا۔ کہتی ہے اب کام نہیں ہوتا کمر جواب دے گئی ہے۔ لعنت ہو اس کام چور پر ۔ میں نے تو صاف ریاض میاں کو منع کر دیا کہ ایک دن تو اپنی بیگم کو ہاتھ پاﺅں ہلانے دو۔ بس اس غریب ہاجرہ پر ہی بس چلتا ہے اس کا جو رسوئی کے لئے اتوار کو بھی بلا لیتی ہے اضافی روپے دے کر۔ ناہنجار میرے لال کی کمائی ایسے ہی اڑائے دیتی ہے۔“
چوہدرانی نے انکسار کی حد کرتے ہوئے اچھی بھلی حویلی کو چھوٹا سا گھر بناتے ہوئے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کر دئیے۔
” چوہدرانی چھوڑو اب اس کلموئی کا کیا ذکر کرنا یہ بتاﺅ ریاض میاں نظر نہیں آرہے کیا اتوار کو بھی نوکری پر گئے ہوئے ہیں؟؟“
”ارے کیا پوچھتی ہو!! اسی نگوڑ ماری نے اپنے پلو سے باندھ رکھا ہے، کہتے ہوئے جی خون کے آنسو روتا ہے، زن مرید بنا ہوا ہے رئیس الدین غوری کا واحد سپوت، جوانی برباد کر دی تو نے ریاض میاں کی اس چھوکری سے شادی کروا کر۔مہارانی کپڑے دھو رہی ہے اور میرا لال کاٹھ کے الو کی صورت اس کی نوکری کر رہا ہے۔ گیلے کپڑے اوپر چھت پر پھیلا رہا ہوگا۔ شرم آتی ہے اس زن مریدی پر ، یہ ہی دیکھنے کو زندہ تھی میں کہ میرا گبرو جوان، پڑھا لکھا بیٹا بیوی کی غلامی کرے “
دہائیوں اورشکایات کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ مزید جاری رہتا کہ باہرحویلی کے دوسرے صدر دروازے پر کسی کی دستک نے سلسلہ منقطع کر دیا
”اری ہاجرہ !! دیکھ پرلی صدر دروازے پر کوئی آیا ہے؟؟ “
چند لمحے سماعت میں کسی کی آواز سنائی نہ دی شاید چوہدرانی اور حجن بی دوسری طرف صدر دروازے پر آنے والے کے بارے میں جاننے کے لئے خاموش تھے کہ کمرے کی فضا میں یک دم چوہدرانی کی بیٹی کی بھرپور آواز گونجی
”ا لسلام علیکم !! کیسی ہیں آپ دونوں۔۔ اور اتنے دونوں بعد نظر آئیں خالہ آپ ۔۔۔ بھئی اب تو یہاں کوئی کنوارہ نہیں رہا ہے، لگتا ہے آپ غلطی سے آگئی ہیں ۔۔ میرا بھانجہ اسمی تو بہت چھوٹا ہے بیاہ کے لئے ‘
اور کمراتینوں عورتوں کے قہقہوں سے گونج اٹھا۔
” اچھا اماں بھیا تو ہیں ناں گھر پر؟؟ کل تو ان سے ملاقات ہی نہیں ہو سکی تھی“
”گھر پر تو ہیں مگر وقت نہیں اس کے پاس ہمارے لئے“
”اماں ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ؟؟“
رانیا نے تعجب سے اپنی ماں سے سوال کیا۔
”ارے کیا کہوں میری چندہ تیرا بھیا باہر سیٹھ کی نوکری کرکے آتا ہے تو گھر آکر تیری بھابھی کی نوکری کرتا ہے، ہمارے لئے تو وقت ہی نہیں اس کے پاس۔ میں تو کڑھتی رہتی ہوں اپنے جوان بیٹے کی زن مریدی دیکھ کر“
چوہدرانی نے بیٹی کے آگے بھی پٹارا کھول دیا
” اماں جان !!بھابھی کو آپ نے شروع ہی سے بہت ڈھیل دے رکھی تھی اب اس کے نتائج تو بھگتنے ہی
ہونگے“
”بیٹی کروں گی اس کا علاج بھی ، لاﺅں گی کوئی تعویذ بڑے بابا سے، تم سناﺅ کیسی ہو؟؟۔ رات آرام سے گھر پہنچ گئی تھیں؟؟“
” جی اماں جان رات یہاں سے نکلے تو میں نے شکیل سے کہا کہ مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں تو پھر ہم اپنی مطلوبہ چیزیں لیکر تھوڑ ی د یر ہی سے گھر پہنچے تھے“
”تجھے آج پھر یہاں دیکھ کر دل خوش ہوگیا“
”اماں جان!! آج شکیل کے کچھ مہمان آرہے تھے تو میں نے کہا مجھ سے تو کام ہوگا نہیں ،انم کی پیدائش کے بعد سے تو میںکسی کام کی نہیں رہی ، اگر رسوئی میں کچھ دیر بھی کھڑی ہوجاﺅں تو کمر جواب دے جاتی ہے اس لئے شکیل نے مجھے یہاں چھوڑ دیا کہ گھر میں رہوگی تو گھر والے کام کرنے کا کہیں گے ۔اس لئے اماں جی کی طبیعت کا بہانہ کرکے دن بھر اماں کے پاس رہو ،پھررات کو کھانے سے کچھ وقت پہلے وہ مجھے لینے آجائیں گے۔کیونکہ رات میں تو فرحین اور اسکی بچیاں بھی موجودہونگی گھر پر ، لہذا برتن دھونے کا اور دیگر کام وہ کر لیں گی۔اور میں آرام۔۔۔۔۔۔۔۔“
رانیا نے پورا منصوبہ سنا کر بھرپور قہقہہ لگایا۔
” ارے بٹیا !!مگر فرحین کیسے راضی ہوگی کام کرنے پر ؟؟؟ تو ایسا کررات کا کھانا یہاں ہی کھا کر کچھ دیر سے گھر جانا “
”اماں جان فرحین سے شکیل خود کہہ دیں گے آخر چھوٹی بہن ہے اپنے بھیا جی کا کہا تھوڑی ٹالے گی“
”ارے رانی میں تو امید لگائے بیٹھی تھی کہ اب جب تجھ سے ملوںگی تو توُ امید سے ہوگی“
حجن بی نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔ آخیربہت دیر ہوگئی تھی ان کو بولے ہوئے
”خالہ جان کیسی باتیں کرتی ہیں !! انم کی پیدائش نے جان نکال دی ہے ۔اب مزید کا سوچ کر لرز جاتی ہوں۔ نہ بابا میں تو کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوں۔“
” صحیح کہا بٹیا ، ایک اولاد ہی کافی ہے، میری بچی کو حجن الٹی پٹی نہ پڑھا۔ دیکھ ویسے ہی کتنی کمزور ہو گئی ہے۔ بس میری چندہ کے لئے ایک ہی بہت ہے“
چوہدرانی نے بیٹی کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا
” اچھا شکیل کیوں نہیں رکے کچھ وقت تو ساتھ بیٹھ جاتے ۔ایک کپ چائے ہی پی لیتے“
”ارے اماں جان !! ناشتے کے بعد میں نے مشین لگا لی تھی ہفتے بھر کے کپڑے دھو کر فارغ ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں یہاں آنے کی تیاری کروں اورکپڑے وہ خود پھیلا دیں گے “
”صدقے جاﺅں !! حجن تجھ سے کیا ہر شکوہ واپس لیتی ہوں ، بہو دلوانے میں جو کوتاہی تو نے کی اس کی تلافی داماد دلوانے میں پوری کردی۔ کتنا پیارا بچہ ہے میری بچی کا کتنا خیال رکھتا ہے، خوشی خوشی اس کے کام کرتا ہے، اللہ تیرا بڑا شکر ہے۔ مالک نظر نہ لگے میرے داماد کو “
چوہدرانی داماد کی اعلی دامادی پر اللہ کا شکر ادا کئے جارہی تھی اور میں مہمان خانے میںبیٹھا زیر لب مسکراہٹ لئے اس تمام تضاد کو اپنی سماعت میں محفوظ کر رہا تھااور سوچ رہا تھا کہ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر عمومی طور پر یہ ریت کبھی نہیں بدل سکتی کہ غیر کی بیٹی غیر ہی رہتی ہے۔
س ن مخمور
امر تنہائی