فرخ منظور
لائبریرین
غزل
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک خیالیاں
کل کر رہا تھا غیر سے نظروں میں گفتگو
پر دیکھتے ہی کچھ مرے آنکھیں چرالیاں
اے مصحفی! تُو اِن سے محبت نہ کیجیو
ظالم غصب ہی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں
(غلام ہمدانی مصحفی)
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک خیالیاں
کل کر رہا تھا غیر سے نظروں میں گفتگو
پر دیکھتے ہی کچھ مرے آنکھیں چرالیاں
اے مصحفی! تُو اِن سے محبت نہ کیجیو
ظالم غصب ہی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں
(غلام ہمدانی مصحفی)