اریب آغا ناشناس
محفلین
روزی ز سرِ سنگ عقابی به هوا خاست
وندر طلبِ طعمه پر و بال بیاراست
بر راستیِ بال نظر کرد و چنین گفت
امروز همه ملکِ جهان زیرِ پرِ ماست
بر اوج چو پرواز کنم از نظرِ تیز
میبینم اگر ذرهای اندر تهِ دریاست
گر بر سرِ خاشاک یکی پشه بجنبد
جنبیدنِ آن پشه عیان در نظرِ ماست
بسیار منی کرد و ز تقدیر نترسید
بنگر که از این چرخِ جفا پیشه چه برخاست
ناگه ز کمینگاه یکی سخت کمانی
تیری ز قضا و قدر انداخت بر او راست
بر بالِ عقاب آمد آن تیرِ جگر سوز
وز عرش مر او را به سویِ خاک فرو کاست
بر خاک بیفتاد و بغلتید چو ماهی
بگشود پرِ خویش سپس از چپ و از راست
گفتا: عجب است این که ز چوبی و ز آهن
این تیزی و تندی و پریدن ز کجا خاست؟
بر تیر نظر کرد و پرِ خویش بر او دید
گفتا: ز که نالیم که از ماست که بر ماست!
(ناصر خسرو)
ترجمہ:
ایک روز ایک عقاب پتھر سے ہوا میں پرواز کرنے لگا اور خوراک کی طلب میں اپنے بال و پر کو آراستہ کیا
اپنے پر کی راستی(سیدھا پن) پر نظر دوڑائی اور ایسے کہا کہ"امروز سارا ملکِ جہاں میرے زیرِ پر ہے
جب میں بلندی کی طرف پرواز کرتا ہوں تو (اپنی) تیز نظر سے دریا کی تہ کے اندر ایک ذرہ بھی دیکھ لیتا ہوں
اگر کسی ریزہء خس میں ایک مچھر بھی حرکت کرے تو اس مچھر کی یہ حرکت میری نظر میں عیاں ہوجاتا ہے۔"
(وہ عقاب) بسیار غرور کررہا تھا اور تقدیر سے ترساں نہیں ہوا۔دیکھ کہ جفا پیشہ آسمان سے کیا برپا ہوا۔
اچانک ایک تیرانداز نے کمین گاہ سے قضا و قدر کا تیر سیدھا اس پر چلایا۔
وہ تیرِ جگر سوز اس عقاب کے پَر پر آیا اور اسے عرش سے خاک پر گِرادیا۔
وہ خاک پر گرا اور ایک ماہی(مچھلی) کی طرح غلطاں ہوا اور پس ازاں اپنے چپ و راست کے پَروں کو کھولا۔
وندر طلبِ طعمه پر و بال بیاراست
بر راستیِ بال نظر کرد و چنین گفت
امروز همه ملکِ جهان زیرِ پرِ ماست
بر اوج چو پرواز کنم از نظرِ تیز
میبینم اگر ذرهای اندر تهِ دریاست
گر بر سرِ خاشاک یکی پشه بجنبد
جنبیدنِ آن پشه عیان در نظرِ ماست
بسیار منی کرد و ز تقدیر نترسید
بنگر که از این چرخِ جفا پیشه چه برخاست
ناگه ز کمینگاه یکی سخت کمانی
تیری ز قضا و قدر انداخت بر او راست
بر بالِ عقاب آمد آن تیرِ جگر سوز
وز عرش مر او را به سویِ خاک فرو کاست
بر خاک بیفتاد و بغلتید چو ماهی
بگشود پرِ خویش سپس از چپ و از راست
گفتا: عجب است این که ز چوبی و ز آهن
این تیزی و تندی و پریدن ز کجا خاست؟
بر تیر نظر کرد و پرِ خویش بر او دید
گفتا: ز که نالیم که از ماست که بر ماست!
(ناصر خسرو)
ترجمہ:
ایک روز ایک عقاب پتھر سے ہوا میں پرواز کرنے لگا اور خوراک کی طلب میں اپنے بال و پر کو آراستہ کیا
اپنے پر کی راستی(سیدھا پن) پر نظر دوڑائی اور ایسے کہا کہ"امروز سارا ملکِ جہاں میرے زیرِ پر ہے
جب میں بلندی کی طرف پرواز کرتا ہوں تو (اپنی) تیز نظر سے دریا کی تہ کے اندر ایک ذرہ بھی دیکھ لیتا ہوں
اگر کسی ریزہء خس میں ایک مچھر بھی حرکت کرے تو اس مچھر کی یہ حرکت میری نظر میں عیاں ہوجاتا ہے۔"
(وہ عقاب) بسیار غرور کررہا تھا اور تقدیر سے ترساں نہیں ہوا۔دیکھ کہ جفا پیشہ آسمان سے کیا برپا ہوا۔
اچانک ایک تیرانداز نے کمین گاہ سے قضا و قدر کا تیر سیدھا اس پر چلایا۔
وہ تیرِ جگر سوز اس عقاب کے پَر پر آیا اور اسے عرش سے خاک پر گِرادیا۔
وہ خاک پر گرا اور ایک ماہی(مچھلی) کی طرح غلطاں ہوا اور پس ازاں اپنے چپ و راست کے پَروں کو کھولا۔
اس نے کہا:"تعجب ہے کہ ایک چوب و آہن سے (تیر میں) یہ تیزی و تندی و پرواز کہاں سے آ گئی ؟"
اس نے تیر پر نظر کیا اور اپنے پَر کو اس کے اوپر دیکھا۔کہا:"کس سے فریاد کریں کہ از ماست کہ بر ماست۔"
آخری تدوین: