عتیق الرحمان
محفلین
پلوٹارک نے کوئی پچاس بڑے آدمیوں کا حال لکھا ہے اور کئی آدمیوں کا ایک دوسرے سے موازنہ بھی کیا ہے ہر شخص تصویر بن کر نظروں میں گھوم جاتا ہے مگر جو خوش رنگ تصویر سکندر کی جوانی کی ہے ویسی تصویر کوئی اور نہیں۔ سکندر کے کردار سے کچھ اس قسم کا اصول وضع ہوتاہے کہ اگر خداداد صلاحیت موجود ہو اور اس کی تربیت ارسطو اور لیونی ڈس جیسے اساتذہ کے ہاتھوں میں ہو جائے تودنیاوی معاملات کے بارے میں سوچنے کاانداز بالکل بدل جاتا ہے اس انداز نطر کو جب الفاظ میسر آتے ہیں تو وہ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں، واحسرتا میرا باپ یوں فتوحات حاصل کرتا رہا تو میرے لیے کوئی بڑا کام باقی نہیں رہے گا ، جب باپ ایک رات کثرت مے نوشی سے لڑکھڑانے لگا تو بیٹے نے کہا، اہل مقدونیہ گواہ رہنا کہ جو شخص یورپ سے لے کر ایشیا تک سارے ملک فتح کرنا چاہتا تھا وہ ایک میز سے دوسری میز تک نہ پہنچ سکا۔ ایک اورموقع پر سکندر نے اعلان کیاکہ دیماستھینز نے پہلے مجھے نادان کہا پھر نابالغ، میں ایتھنز کی فصیل پر دستک دوں گا تاکہ اسے میری مردانگی کا پتہ چل جائے۔ پلو ٹارک کی بدولت سکندر اور پار٠مینو کی وہ گفتگو بھی محفوظ ہے جو لڑائی سے پہلے دارا کی طرف سے صلح اور تحائف کی پیشکش کے بارے میں ہے۔ پارمینو نے کہا کہ اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیشکش قبول کر لیتا۔ سکندر نے جواب دیا میں بھی اس پیشکش کو ضرور قبول کرلیتا اگر میں بھی پارمینو ہوتا۔ سکندر کی فتوحات اور اس کی حاضر جوابی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں وہ گفتار اور کردار دونوں کا مرد میدان تھا۔ وہ پارمینو کو لاجواب کرنے اور دارا کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن وہ سائرس کی قبر پر پہنچا تو نامرادی نے گھیر لیا۔ وہ دل گرفتہ ہوا کہ اس جوش و خروش اور جنگ و جدل کا انعام دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کی صورت میں مل سکتا ہے مگر اس کا انجام محض قبر کی تنہائی اور تاریکی ہو گا۔ سکندر کو سائرس نے رنجیدہ کیا اور جولیس سیزر کو سکندر اعظم نے۔ سیزر نے سکندر کا حال پڑھا تو رونے لگا کہ میری عمر تک سکندر کتنے ہی ملک فتح کر چکا تھا اور میرے اعمال میں ابھی تک ایک درخشاں کارنامہ نہیں ہے۔ جولیس سیزر کا یہ جملہ میں نے پڑھا اور میں بھی آزردہ ہوا۔ سکندر کی سوانح کا ایک استعمال جولیس سیزر نے کیا تھا اور دوسرا ہمارے فقیروں نے جو خیرات مانگتے ہوئے صرف اتنا یاد دلاتے ہیں کہ
“ سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے“
جن ہاتھوں نے دنیا بھر سے خراج وصول کیا، ان کے حوالے سے یہ لوگ خیرات مانگتے ہیں کیونکہ افراد اور اقوام واقعات سے ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق سبق حاصل کرتے ہیں۔
“ سکندر جب گیا دنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے“
جن ہاتھوں نے دنیا بھر سے خراج وصول کیا، ان کے حوالے سے یہ لوگ خیرات مانگتے ہیں کیونکہ افراد اور اقوام واقعات سے ہمیشہ اپنے مزاج کے مطابق سبق حاصل کرتے ہیں۔