اساتذہ سے اصلاح کی درخواست

رموز عشق و مستی ہوں یا ہو گفت و شنید دیں
میں ہوں تجدید کا قائل مجھے تجدید کرنی ھے

میرے زہنی دریچے میں جو قائم ھے تسلسل سے
اسی بے نام رشتے میں مجھے تبعید کرنی ھے

میرے اندر کے انساں کو جو شیطاں روز چاٹے ہے
اسی شیطاں کی پوری فوج مجھے نومید کرنی ہے

جو پھولوں کی طرح مہکے جو خوشبو کی طرح بکھرے
مجھے بس ایسے ہی انسان کی تقلید کرنی ھے

جو خوابوں میں خیالوں میں،سوالوں میں جوابوں میں
مسلط ہو جو جذبوں پر اسکی تسدید کرنی ھے

اسے یوں سوچنا کہ بس اسی کو سوچتے رہنا
مجھے اس سوچ وجزبے کی اب تردید کرنی ھے

اسے کہہ دو کہ اک پل کے لیے ہی چھت پہ آجائے
اسے تَک کر زمیں زادوں نے ہی اب عید کرنی ھے

وہ دروازے پہ دستک دے کہ واپس لوٹ آیا ھے
مجیب اب آخری گھر کی اُسے تعدید کرنی ہے
 
Top