اساتذہ کرام سے اصلاح اور احباب سے آراء کی درخواست ہے (شکیل احمد خان)

غزل (برائے اِصلاح)
کہاں ہیں وہ جنھیں ہم یارِ غار کہتے تھے
کہ وہ بھی جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے

بدل نہ جانا کہیں تم بدلتے وقت کے ساتھ
وہ خود ہی بدلے جو یہ بار بار کہتے تھے

میں رونا روؤں اب اُس کا یا خود اُسے روؤں
مرا وہ دل جسے باغ و بہار کہتے تھے

ہیں کانٹے تیغِ تبسم سے گل کے واماندہ
اِنھیں بھی حسن کا بعضے شکار کہتے تھے

ترے فراق میں ویران دل کی دنیا تھی
ہم اس خرابے کو اجڑا دیار کہتے تھے

گزر رہی ہے بڑے ضبط سے شکیلؔ اپنی
حیات، آپ جسے اضطرار کہتے تھے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہاں ہیں وہ جنھیں ہم یارِ غار کہتے تھے
کہ وہ بھی جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے
'کہ' کی معنویت واضح نہیں ہو سکی

بدل نہ جانا کہیں تم بدلتے وقت کے ساتھ
وہ خود ہی بدلے جو یہ بار بار کہتے تھے
.. بدلے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں

میں رونا روؤں اب اُس کا یا خود اُسے روؤں
مرا وہ دل جسے باغ و بہار کہتے تھے
... بہت خوب، پسند آیا، واہ!

ہیں کانٹے تیغِ تبسم سے گل کے واماندہ
اِنھیں بھی حسن کا بعضے شکار کہتے تھے
... پہلا مصرع واضح نہیں ہو؛، گل کے کانٹے؟

ترے فراق میں ویران دل کی دنیا تھی
ہم اس خرابے کو اجڑا دیار کہتے تھے
.. درست

گزر رہی ہے بڑے ضبط سے شکیلؔ اپنی
حیات، آپ جسے اضطرار کہتے تھے
... ٹھیک
 
کہاں ہیں وہ جنھیں ہم یارِ غار کہتے تھے
کہ وہ بھی جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے
'کہ' کی معنویت واضح نہیں ہو سکی
کہاں گئے جنہیں ہم یارِ غار کہتے تھے
وہی کہ جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے
 
آخری تدوین:
ہیں کانٹے تیغِ تبسم سے گل کے واماندہ
اِنھیں بھی حسن کا بعضے شکار کہتے تھے
... پہلا مصرع واضح نہیں ہو؛، گل کے کانٹے؟
تھے کانٹے جوشِ بہاراں سے شاخِ گل پر وا
انہیں بھی حسن کا ہم شاہکار کہتے تھے
 
آخری تدوین:
Top