شکیل احمد خان23
محفلین
غزل (برائے اِصلاح)
کہاں ہیں وہ جنھیں ہم یارِ غار کہتے تھے
کہ وہ بھی جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے
بدل نہ جانا کہیں تم بدلتے وقت کے ساتھ
وہ خود ہی بدلے جو یہ بار بار کہتے تھے
میں رونا روؤں اب اُس کا یا خود اُسے روؤں
مرا وہ دل جسے باغ و بہار کہتے تھے
ہیں کانٹے تیغِ تبسم سے گل کے واماندہ
اِنھیں بھی حسن کا بعضے شکار کہتے تھے
ترے فراق میں ویران دل کی دنیا تھی
ہم اس خرابے کو اجڑا دیار کہتے تھے
گزر رہی ہے بڑے ضبط سے شکیلؔ اپنی
حیات، آپ جسے اضطرار کہتے تھے
آخری تدوین: