اساتذہ کرام کی خدمت میں اصلاح کے لیے ایک اور غزل پیش کرنے کی جسارت

۔۔۔غزل۔۔۔

رَت جگوں کا خمار باقی ہے
جانے کیوں انتظار باقی ہے

سوکھی ڈالی پہ زرد پتے ہیں
ایک اجڑی بہار باقی ہے

نیند آتی ہے پر نہیں آتی
کوئی پہلو میں خار باقی ہے

مے کدے کی ہزار راتوں میں
زخمِ دل کا شمار باقی ہے

جتنا پیتے ہیں پیاس بڑھتی ہے
جام رکھنے میں عار باقی ہے

برق گرتی ہے لوٹ جانے کو
ایک بوڑھا چنار باقی ہے

اُس کی آنکھیں کمال ساحر تھیں
اب بھی عاصمؔ حصار باقی ہے

عاصمؔ شمس
 

الف عین

لائبریرین
درست غزل ہے ماشاء اللہ۔
نیند آتی ہے پر نہیں آتی
کوئی پہلو میں خار باقی ہے
کوئی کی جگہ اگر ’اب بھی‘ کہا جائے تو؟
 
Top