اساتذہ کی خدمت میں ایک سوال

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
محفل کے قابلِ صد احترام اساتذہ
الف عین صاحب
محمد وارث صاحب
یاسر شاہ صاحب
محمد تابش صدیقی صاحب
آپ سے ایک سوال ہے۔۔۔وہ یہ کہ ہم نے ہمیشہ کورس کی کتابوں میں یہی پڑھا کہ مطلع کسی بھی غزل کے لئے لازم و ملزوم ہے۔۔مگر دبیرالملک نجم الدولہ حضرت میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی ایسی غزلیات نظر سے گزریں جن میں مطلع نہیں تھا۔۔۔بطورِ مثال:
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیء چشمِ حسود تھا

یا پھر نادرؔ کاکوروی مرحوم کی غزل:
اب نہ حسرت نہ پاس ہے دل میں
کوئی بھی اس مکاں میں نہ رہا

تو کیا بغیر مطلع کے غزل ہو سکتی ہے؟؟
یقیناَ بچگانہ سوال ہے مگر طالبعلم ہوں، نظرِ التفات سے محروم نہ رکھیے۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
منذر رضا صاحب! عنوان میں ایک چھوٹی سی غلطی باقی رہ گئی ہے۔ آپ کے پاس ابھی تدوین کے اختیارات موجود ہوں گےتو پھر ادارتی کاروائی کر ہی ڈالیے، لگے ہاتھوں ۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
غالب نے بھی ہر مشاعرے میں مع مطلع کے غزلیں سنائی ہیں، موجود دیوان میں مکمل غزلیں نہیں صرف انتخاب ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ چچا نے یہ غزلیں بغیر مطلع کے ہی کہی ہیں، درست نہیں
 

مظلوم گل

محفلین
سابقین اور اولین کو اپنی مہارت میں بہتری کے لئیے استعمال ضرور کرنا چاہیئے لیکن حرف آخر تصور نہیں کرنا چاہیئے۔ تبدیلیاں اور مزید تبدیلیاں زبان کا حسن ھوتا ھے۔ کوئی اصول حرف آخر نہیں ھوتا۔
 

الف عین

لائبریرین
نتیجہ یہ نکلا کہ غزل ہو تو سکتی ہے لیکن بحالت مجبوری، یعنی اگر کوشش کے باوجود مطلع نہیں کہا جا سکا۔
 
Top