اساتذہ کی خدمت میں:’ خدا ہے ترا اور ہم بھی ترے ہیں‘

فاخر

محفلین
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ
مری جانِ جاناں، تصدق میں تیرے
محبت کے نغمے تراشے گئے ہیں!

نہ گھبرا زمانے کے طعنوں سے ہرگز
خدا ہے ترا اور ہم بھی ترے ہیں!

تری قربتوں کا، جہاں لمس پایا
وہاں اب بھی ہم بیخودی میں کھڑے ہیں

پتہ ہے تجھے عاشقی میں ہوا کیا؟
مرے زخم سارے ابھی بھی ہرے ہیں

مجھے جب بھی آئی تری یاد جاناں
لہو بن کے آنسو مسلسل بہے ہیں

مری ہچکیاں اور خوں کے یہ آنسو
تجھی سے ستم گر ! یہ تحفے ملے ہیں

ترے آنے کی اس خوشی میں شبِ غم
ہزاروں چراغِ محبت جلے ہیں!

کسی بزم میں جب غزل گائے فاخر
تو سن کر سبھی لوگ رونے لگے ہیں
 

فاخر

محفلین
اب پرانی والی آئی ڈی کا مسئلہ حل نہ ہو ا ہے تو کیا کروں اسی آئی ڈی سے کام چلا رہا ہوں ۔ یہ تو درست ہے کہ بغیر مطلع کے غزل نہیں ہوتی ہے ۔ دیکھتا ہوں، جب غزل ہوگئی ہے تو مطلع کا طلوع بھی ہوگا۔
 

فاخر

محفلین
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ

لیجئے ! جناب عظیم صاحب ! غزل کا ’’وضو‘‘ (مطلع ) ہوگیا ، اب’’نماز‘‘ ادا کرلی جائے۔


محبت میں ہم تو فسانہ بنے ہیں
سزا میں مرےاورمرکے جئے ہیں

مری جانِ جاناں، تصدق میں تیرے
محبت کے نغمے تراشے گئے ہیں!

نہ گھبرا زمانے کے طعنوں سے ہرگز
خدا ہے ترا اور ہم بھی ترے ہیں!

تری قربتوں کا، جہاں لمس پایا
وہاں آج ہم بے خودی میں کھڑے ہیں

پتہ ہے تجھے عاشقی میں ہوا کیا؟
مرے زخم سارے ابھی بھی ہرے ہیں

مجھے جب بھی آئی تری یاد جاناں
لہو بن کے آنسو مسلسل بہے ہیں

مری ہچکیاں اور خوں کے یہ آنسو
تجھی سے ستم گر ! یہ تحفے ملے ہیں

ترے آنے کی اس خوشی میں ہزاروں
شب ِ غم چراغِ محبت جلے ہیں!

کسی بزم میں جب غزل گائے فاخر
تو سن کر سبھی لوگ رونے لگے ہیں!
 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
محبت میں ہم تو فسانہ بنے ہیں
سزا میں مرےاورمرکے جئے ہیں
۔۔'تو' کا خیال کیا کریں کہ طویل نہ کھینچا جائے کہ روانی متاثر کرتا ہے۔ سزا میں مرنا عجیب لگ رہا ہے۔
'سزا سے مرے' ہو سکتا ہے لیکن اس صورت میں بھی مطلع دو لخت لگ رہا ہے
اس کے علاوہ 'کے' کی جگہ جہاں 'کر' مکمل آ سکے وہاں 'کر ' ہی استعمال کرنا چاہیے روانی کی خاطر

مری جانِ جاناں، تصدق میں تیرے
محبت کے نغمے تراشے گئے ہیں!
ٹھیک

نہ گھبرا زمانے کے طعنوں سے ہرگز
خدا ہے ترا اور ہم بھی ترے ہیں!
خوب ہے

تری قربتوں کا، جہاں لمس پایا
وہاں اب بھی ہم بیخودی میں کھڑے ہیں
۔۔۔ 'جہاں لمس پایا' بیان کے اعتبار سے نامکمل لگتا ہے۔ 'جہاں کہیں لمس پایا' یا 'جہاں بھی لمس پایا' ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے میں 'اب بھی' صوتی اعتبار سے اچھا نہیں لگ رہا ۔ تنافر کی سی کیفیت ہے

پتہ ہے تجھے عاشقی میں ہوا کیا؟
مرے زخم سارے ابھی بھی ہرے ہیں
۔۔۔درست

مجھے جب بھی آئی تری یاد جاناں
لہو بن کے آنسو مسلسل بہے ہیں
۔۔۔ جاناں وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے کہ یہ لفظ بہت گھس پٹ گیا ہے۔ 'اے دوست' وغیرہ کیا جا سکتا ہے
شعر اچھا ہے

مری ہچکیاں اور خوں کے یہ آنسو
تجھی سے ستم گر ! یہ تحفے ملے ہیں
۔۔۔ یہ بھی ٹھیک لگ رہا ہے

ترے آنے کی اس خوشی میں شبِ غم
ہزاروں چراغِ محبت جلے ہیں!
۔۔۔ اس خوشی کچھ الگ ہی لگ رہا ہے۔ اس خوشی سے مراد کون سی خوشی ہے یہ واضح نہیں لگتا۔

کسی بزم میں جب غزل گائے فاخر
تو سن کر سبھی لوگ رونے لگے ہیں
۔۔۔ بزم میں 'م' کی وجہ سے تنافر ہے۔ اور 'گائے' اچھا نہیں لگ رہا۔ کوئی اور لفظ لایا جائے تو بہتر ہو۔ باقی درست ہے
 
Top