کاشفی
محفلین
اسامہ بن لادن زندہ اور امریکا کی تحویل میں ہے، کویتی تجزیہ نگار کا دعوی
اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا سب سے بڑا مقصد ان پالیسیوں کی تہہ تک پہنچنا ہے جن پر القاعدہ کے سربراہ برسوں سے کاربند تھے, عبداللہ النفیسی۔ فوٹو: فائل
کویت: کویت کے ایک ماہر تجزیہ نگار نے دعوی کیا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں اور امریکا کی تحویل میں ہیں۔
ایک سعودی اخبار کو انٹر ویو یدتے ہوئے پروفیسر عبداللہ النفیسی کا کہنا تھا کہ یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی تلاش میں امریکا نے 11 سال میں اربوں ڈالر خرچ کر دیئے ہوں اور جب وہ مل جائے تو اسے فورا مار کر اس کر لاش کو سمندر برد کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2مئی 2011 کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کارروائی کے بعد امریکی فوجی اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے تھے، اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا سب سے بڑا مقصد ان پالیسیوں کی تہہ تک پہنچنا ہے جن پر القاعدہ کے سربراہ برسوں سے کاربند تھے، ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے بعد ہم اس بات کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں کہ ماضی میں القاعدہ سے جڑے ہوئے گروپس کو مکمل طور پر شکست دی جاچکی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ایک اطالوی قانون دان نے بھی امریکا کی جانب سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مارنے جانے کے دعوے پر شق کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کا یہ دعوی غلط بیانی پر مبنی ہے اور 9 ستمبر 2001 کا واقعہ بھی امریکا کی اپنی سارش تھی۔
اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا سب سے بڑا مقصد ان پالیسیوں کی تہہ تک پہنچنا ہے جن پر القاعدہ کے سربراہ برسوں سے کاربند تھے, عبداللہ النفیسی۔ فوٹو: فائل
کویت: کویت کے ایک ماہر تجزیہ نگار نے دعوی کیا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن زندہ ہیں اور امریکا کی تحویل میں ہیں۔
ایک سعودی اخبار کو انٹر ویو یدتے ہوئے پروفیسر عبداللہ النفیسی کا کہنا تھا کہ یہ بات عقل سے ماورا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی تلاش میں امریکا نے 11 سال میں اربوں ڈالر خرچ کر دیئے ہوں اور جب وہ مل جائے تو اسے فورا مار کر اس کر لاش کو سمندر برد کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2مئی 2011 کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کارروائی کے بعد امریکی فوجی اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے تھے، اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کا سب سے بڑا مقصد ان پالیسیوں کی تہہ تک پہنچنا ہے جن پر القاعدہ کے سربراہ برسوں سے کاربند تھے، ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے بعد ہم اس بات کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں کہ ماضی میں القاعدہ سے جڑے ہوئے گروپس کو مکمل طور پر شکست دی جاچکی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ایک اطالوی قانون دان نے بھی امریکا کی جانب سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مارنے جانے کے دعوے پر شق کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کا یہ دعوی غلط بیانی پر مبنی ہے اور 9 ستمبر 2001 کا واقعہ بھی امریکا کی اپنی سارش تھی۔