فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
گزشتہ برس القائدہ کے لیے کچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھا اور اس حقيقت سے وہ اچھی طرح واقف ہيں۔ آج سے ايک برس قبل القائدہ نے نا صرف يہ کہ اپنے قائد اسامہ بن لادن کو کھويا تھا بلکہ عطية عبد الرحمن اور أنور العولقي بھی اپنے انجام کو پہنچے جن کا مشن مغرب ميں بسنے والوں مسلمانوں کو اپنے ممالک ميں بڑے پيمانے پر قتل وغارت گری کے ذريعے "جہاد" کی ترغيب دينا تھا۔ اسی سال دنيا کو عمر عبد الرحمن، أبو أيّوب المصري اور الياس کشميری سے بھی نجات ملی۔
اتنا ہی اہم واقعہ عرب ممالک ميں شروع ہونے والی اجتماعی جدوجہد بھی ہے جسے "عرب اسپرنگ" کا نام ديا گيا۔ اس تحريک نے عمومی طور پر تشدد کو رد کر کے اصولوں اور حقوق کی بنياد پر تبديلی کی سوچ کو پروان چڑھا کر القائدہ اور اس کے نظريات کو حتمی دھچکا پہنچايا۔
اسی طرح جن علاقوں ميں القائدہ کے حواری اپنے قدم جمانے ميں کامياب ہوئے جيسے کہ صوماليہ اور يمن کے کچھ حصے، وہاں بھی مقامی لوگوں نے القائدہ کے خونی رويے اور طرزعمل کو يکسر مسترد کر ديا ہے اور ان دونوں جگہوں سے القائدہ کے اثرات کو يکسر ختم کرنے کے ليے کاوشيں جاری ہيں۔ اور يہی کچھ عراق ميں بھی ديکھا گيا۔
ان تمام علاقوں ميں مقامی لوگوں کے ليے يہ امر واضح اور ناقابل قبول ہو گيا تھا کہ القائدہ اور اس کے حواری جن نظريات اور جس سوچ کا پرچار کر رہے تھے وہ ان کی روايتی قدروں اور مذہبی عقائد کے يکسر متضاد تھی۔ يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ القائدہ کو ہر جگہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔
واقعات کے اس تسلسل نے اس حقيقت کو آشکار کر ديا ہے جس کی اميد اور جس کا اظہار ہم ميں سے اکثر کافی عرصے سے کر رہے تھے کہ القائدہ کا اختتام ناگزير ہے۔
حاليہ تاريخ ميں کسی بھی اور تبديلی سے زيادہ عرب ممالک ميں جاری تحريکوں نے بالکل واضح کر ديا کہ القائدہ کی سوچ حقيقت سے کتنی دور تھی۔ يہاں تک کہ ان تحريکوں کے ابتدائ دنوں ميں القائدہ کے ترجمانوں کے پاس کوئ الفاظ اور عذر باقی نہ رہا جس کے ذريعے وہ يہ واضح کرتے کہ خطے کے لوگوں نے أيمن الظواهري، ناصر عبدل کريم اور أنور العولقي کو نجات دہندہ اور اپنا امير کيوں نہيں چنا۔
ابتدا ميں القائدہ نے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ عرب ممالک ميں جاری مزاحمت کو اپنی کاميابی قرار ديتے ہوئے ہزاروں لوگوں کی حمايت کا دعوی کيا جو اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنے آواز کو اقتدار کے ايوان تک پہنچانے کے ليے گھروں سے نکلے۔ القائدہ کے ميڈيا ونگ نے تنظيم کو لوگوں کے حقوق کا علمبردار کہنا شروع کر ديا، باوجود اس کے کہ ان الفاظ ميں موجود کھوکھلا پن سب پر واضح تھا۔
القائدہ کے حمايتيوں، ممبران اور چاہنے والوں نے بھی يہ تسليم کر ليا کہ القائدہ کے وجود کو برقرار رکھنے کے ليے اسے اپنے لائحہ عمل اور اس سوچ ميں تبديلی لانا ہو گی جسے برسا برس سے استعمال کيا جاتا رہا ہے۔ يہاں تک کہ ايک موقع پر اسامہ بن لادن نے خود اس بات پر آمادگی ظاہر کر دی کہ القائدہ کا نام تبديل کر دينا چاہيے کيونکہ اس نام کے ساتھ قتل وغارت گری اور تبائ و بربادی کی ايک پوری داستان لوگوں کے ذہنوں ميں محو ہو چکی ہے۔
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں جس تنظيم کا خونی قائد خود اس کی شہرت اور وجود سے نالاں ہو اسکی حقيقت کيا ہو گی؟
جو بات اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی سمجھنے سے قاصر رہے وہ يہ حقيقت ہے کہ القائدہ صرف اپنی حکمت عملی، نام اور طريقہ کار کی وجہ سے ہی نہيں ناکام ہوئ بلکہ وہ مکروہ سوچ ہی اسے اس مقام تک لائ جہاں تمام مہذب دنيا نے اسے "دشمن انسانيت" قرار ديا۔ محض نام کی تبديلی سے بيچی جانے والی مصنوعات کی مقبوليت يا افاديت پر خاطر خواہ اثر نہيں پڑتا۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران القائدہ کو پے در پے شکستوں سے يہ واضح ہو چکا ہے کہ اس کا اختتام نزديک ہے۔ ان کے تمام تر منصوبے، تشہيری کاوشيں اور لائحہ عمل اس حقيقت کو تبديل نہيں کر سکتے کہ دنيا بھر ميں خونی طرزعمل کو يکسر مسترد کر ديا گيا ہے۔
بہت جلد دنيا اسامہ بن لادن کی طرح القائدہ کا ذکر بھی ماضی کے صيغے کے ساتھ کرے گی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
گزشتہ برس القائدہ کے لیے کچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھا اور اس حقيقت سے وہ اچھی طرح واقف ہيں۔ آج سے ايک برس قبل القائدہ نے نا صرف يہ کہ اپنے قائد اسامہ بن لادن کو کھويا تھا بلکہ عطية عبد الرحمن اور أنور العولقي بھی اپنے انجام کو پہنچے جن کا مشن مغرب ميں بسنے والوں مسلمانوں کو اپنے ممالک ميں بڑے پيمانے پر قتل وغارت گری کے ذريعے "جہاد" کی ترغيب دينا تھا۔ اسی سال دنيا کو عمر عبد الرحمن، أبو أيّوب المصري اور الياس کشميری سے بھی نجات ملی۔
اتنا ہی اہم واقعہ عرب ممالک ميں شروع ہونے والی اجتماعی جدوجہد بھی ہے جسے "عرب اسپرنگ" کا نام ديا گيا۔ اس تحريک نے عمومی طور پر تشدد کو رد کر کے اصولوں اور حقوق کی بنياد پر تبديلی کی سوچ کو پروان چڑھا کر القائدہ اور اس کے نظريات کو حتمی دھچکا پہنچايا۔
اسی طرح جن علاقوں ميں القائدہ کے حواری اپنے قدم جمانے ميں کامياب ہوئے جيسے کہ صوماليہ اور يمن کے کچھ حصے، وہاں بھی مقامی لوگوں نے القائدہ کے خونی رويے اور طرزعمل کو يکسر مسترد کر ديا ہے اور ان دونوں جگہوں سے القائدہ کے اثرات کو يکسر ختم کرنے کے ليے کاوشيں جاری ہيں۔ اور يہی کچھ عراق ميں بھی ديکھا گيا۔
ان تمام علاقوں ميں مقامی لوگوں کے ليے يہ امر واضح اور ناقابل قبول ہو گيا تھا کہ القائدہ اور اس کے حواری جن نظريات اور جس سوچ کا پرچار کر رہے تھے وہ ان کی روايتی قدروں اور مذہبی عقائد کے يکسر متضاد تھی۔ يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ القائدہ کو ہر جگہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔
واقعات کے اس تسلسل نے اس حقيقت کو آشکار کر ديا ہے جس کی اميد اور جس کا اظہار ہم ميں سے اکثر کافی عرصے سے کر رہے تھے کہ القائدہ کا اختتام ناگزير ہے۔
حاليہ تاريخ ميں کسی بھی اور تبديلی سے زيادہ عرب ممالک ميں جاری تحريکوں نے بالکل واضح کر ديا کہ القائدہ کی سوچ حقيقت سے کتنی دور تھی۔ يہاں تک کہ ان تحريکوں کے ابتدائ دنوں ميں القائدہ کے ترجمانوں کے پاس کوئ الفاظ اور عذر باقی نہ رہا جس کے ذريعے وہ يہ واضح کرتے کہ خطے کے لوگوں نے أيمن الظواهري، ناصر عبدل کريم اور أنور العولقي کو نجات دہندہ اور اپنا امير کيوں نہيں چنا۔
ابتدا ميں القائدہ نے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ عرب ممالک ميں جاری مزاحمت کو اپنی کاميابی قرار ديتے ہوئے ہزاروں لوگوں کی حمايت کا دعوی کيا جو اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنے آواز کو اقتدار کے ايوان تک پہنچانے کے ليے گھروں سے نکلے۔ القائدہ کے ميڈيا ونگ نے تنظيم کو لوگوں کے حقوق کا علمبردار کہنا شروع کر ديا، باوجود اس کے کہ ان الفاظ ميں موجود کھوکھلا پن سب پر واضح تھا۔
القائدہ کے حمايتيوں، ممبران اور چاہنے والوں نے بھی يہ تسليم کر ليا کہ القائدہ کے وجود کو برقرار رکھنے کے ليے اسے اپنے لائحہ عمل اور اس سوچ ميں تبديلی لانا ہو گی جسے برسا برس سے استعمال کيا جاتا رہا ہے۔ يہاں تک کہ ايک موقع پر اسامہ بن لادن نے خود اس بات پر آمادگی ظاہر کر دی کہ القائدہ کا نام تبديل کر دينا چاہيے کيونکہ اس نام کے ساتھ قتل وغارت گری اور تبائ و بربادی کی ايک پوری داستان لوگوں کے ذہنوں ميں محو ہو چکی ہے۔
آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں جس تنظيم کا خونی قائد خود اس کی شہرت اور وجود سے نالاں ہو اسکی حقيقت کيا ہو گی؟
جو بات اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی سمجھنے سے قاصر رہے وہ يہ حقيقت ہے کہ القائدہ صرف اپنی حکمت عملی، نام اور طريقہ کار کی وجہ سے ہی نہيں ناکام ہوئ بلکہ وہ مکروہ سوچ ہی اسے اس مقام تک لائ جہاں تمام مہذب دنيا نے اسے "دشمن انسانيت" قرار ديا۔ محض نام کی تبديلی سے بيچی جانے والی مصنوعات کی مقبوليت يا افاديت پر خاطر خواہ اثر نہيں پڑتا۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران القائدہ کو پے در پے شکستوں سے يہ واضح ہو چکا ہے کہ اس کا اختتام نزديک ہے۔ ان کے تمام تر منصوبے، تشہيری کاوشيں اور لائحہ عمل اس حقيقت کو تبديل نہيں کر سکتے کہ دنيا بھر ميں خونی طرزعمل کو يکسر مسترد کر ديا گيا ہے۔
بہت جلد دنيا اسامہ بن لادن کی طرح القائدہ کا ذکر بھی ماضی کے صيغے کے ساتھ کرے گی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall