سید لبید غزنوی
محفلین
اسامہ کی موت، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟
جین کاربن بی بی سی نیوز
• 17 جون 2015
اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والے ایک متنازعہ بیان کے مطابق القاعدہ کے رہنما کو قتل کرنے کی سازش میں پاکستان اور امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے۔
میں گذشتہ تقریباً بیس برسوں سے بی بی سی کے نامہ نگار کے طور پر القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے بارے میں خبروں پر کام کرتا رہا ہوں اور اس جستجو کے دوران میں تورا بورا کی غاروں میں بھی گیا اور ایبٹ آباد میں اونچی چاردیواری والی اس عمارت کے اندر بھی گیا جہاں اسامہ بن لادن کا خاتمہ ایک خونی کارروائی میں ہوا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ حالیہ دنوں میں ہمیں اسامہ کی موت کے بارے میں جو کچھ بتایاگیا ہے اس میں کوئی سچائی ہے یا نہیں؟
تحقیقاتی صحافت کے ماہر امریکی صحافی سیمور ہرش ماضی میں بھی ویتنام میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل عام اور عراق کی ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبروں کے حوالے سے ماضی کی امریکی حکومتوں کو شرمندہ کر چکے ہیں۔
اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں خبر کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ نے سیمور ہرش کی جتنی گت بنائی اس کے بعد وہ ہفتوں خاموش رہے، لیکن وہ بالآخر مجھ سے گفتگو پر رضامند ہو گئے۔ ہماری گفتگو کا موضوع ان کا وہ متنازعہ مضمون تھا جو لندن کے اس جریدے میں شائع ہوا جو خاص طور پر نئی شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے کے لیے مشہور ہے۔
ہرش کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن چھ سال سے پاکستانی خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کی قید میں تھے اور پھر انھیں ایبٹ آباد میں ایک نام نہاد چھاپہ مار کارروائی میں امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی بنیاد پر مسٹر ہرش کہتے ہیں کہ امریکی اہلکار اس کارروائی کے بارے میں جو کچھ بتا رہے ہیں وہ کسی ’ طلسماتی دنیا‘ کی کہانی ہے۔
سیمور ہرش کے بیان کے بارے میں سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل مورِل کا کہنا کہ یہ رپورٹ ’ بالکل بکواس ہے اور اس رپورٹ کا تقریباً ہر لفظ غلط ہے۔‘ مائیکل مورِل نے مجھے بتایا کہ وہ سنہ 2011 کی اُس رات خود اس عمارت میں موجود تھے جہاں سے سی آئی اے کی کارروائیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
سی آئی اے شروع دن سے اپنی ڈاکیے والی کہانی پر قائم ہے کہ جس کے مطابق وہ آٹھ سال تک اس کوریئر کا پیچھا کرتے رہے جو دراصل القاعدہ کا پِٹھو تھا اور بالآخر وہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
امریکی سیلز نے ایبٹ آباد کے اس گھر میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا
اسامہ بن لادن کی موت پر میں نے بی بی سی کے پروگرام ’پینوراما‘ میں انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو ایک موبائل فون نمبر دیا تھا لیکن آئی ایس آئی کو اس نمبر کی اہمیت کا احساس نہیں تھا۔ بعد میں سی آئی اے نے اس نمبر کی نگرانی شروع کر دی اور یہی وہ نمبر تھا جس کی مدد سے سی آئی اے اس نجی ڈاکیے تک پہنچ گئی جو اسامہ بن لادن کے لیے کام کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے کئی تجزیہ کار اور امریکہ کے اعلیٰ حکومتی اہلکار اس ڈاکیے کی تصدیق کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں وہ کیسے اس کا پیچھا کرتے رہے۔
لیکن مسٹر ہرش اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسامہ کا کھوج لگانے میں اصل کردار پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کے اس ریٹائرڈ ’گمنام‘ شخص کا تھا جو ایک دن اچانک اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پہنچ گیا تھا۔اگست 2010 میں جب یہ شخص سفارتخانے میں پہنچا تو اس نے وہاں سی آئی اے کے افسران کو بتایا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو خود چُھپا ہوا ہے اور اس کی نظر ڈھائی کروڑ ڈالر کے اس انعام پر ہے جو امریکہ نے اسامہ بن لادن کی اطلاع دینے کے حوالے سے کر رکھا تھا۔
مسٹر ہرش کہتے ہیں پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کی خبر صرف نچلے درجے تک محدود نہیں تھی بلکہ پاکستانی افواج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی اس سے باخبر تھے۔ لیکن سی آئی اے اس خیال کی تردید کرتی ہے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت اس سے بےخبر تھی۔
اس سارے معاملے کی ایک اور ممکنہ توجیح بھی موجود ہے جو پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی کے اندر ان باغی عناصر کی جانب اشارہ کرتی ہے جن کی ہمدردیاں اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ رہی ہیں۔
شدت پسندوں کے ہمدردوں کا کرادر
یہ ممکن ہے کہ خفیہ ایجنسی میں کسی کو معلوم ہو کہ اسامہ بن لادن کہاں تھے یا اس شخص نے اسامہ کو پناہ لینے میں مدد بھی کی ہو۔ میں خود جب ایبٹ آباد پہنچا اور اس کمپاؤنڈ کو تباہ کیے جانے سے پہلے دیکھا تو مجھے بھی یقین نہیں آیا کہ کیسے کوئی اتنا اہم شخص ملک کی فوجی اکیڈیمی کے اتنے قریب اور اعلیٰ فوجی قیادت کی ناک کے عین نیچے بیٹھا رہ سکتا ہے اور کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔
پاکستان میں روزنامہ نیویارک پوسٹ کی نامہ نگار کارلوٹا گال بھی مسٹر ہرش کے اس خیال کی تائید کرتی ہیں کہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسران کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں تھے۔ پاکستان میں ہوتے ہوئے انھیں ایک مقامی شخص نے بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اندر اسامہ بن لادن کی خبر رکھنے والا ایک خصوصی شعبہ ہے جو ایک آدمی چلاتا ہے۔ کارلوٹا گال کے بقول اس شخص کا کہنا تھا کہ پاکستانی افسران ’یہ بات خفیہ رکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے اسامہ کو کہاں رکھا ہوا ہے اور اسامہ خفیہ ایجنسی کی محفوظ تحویل میں ہیں۔‘
صدر اوباما نے اپنے مشیروں کے ہمراہ وائٹ ہاؤس سے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی براہ راست کارروائی دیکھی
لیکن سکیورٹی کے کئی بڑے اور قابل اعتبار ماہرین کو شک ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں۔
سیمور ہرش کی کہانی میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ سینیئر امریکی اہلکار کا بیان ہے جس کا نام مسٹر ہرش نے کبھی نہیں بتایا۔ سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل مورِل بھی سیمور ہرش کے بیان کی تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے امریکی اہلکاروں کی جو بھی ملاقاتیں اور گفت و شنید ہو رہی تھی مذکورہ سینیئر ریٹائرڈ افسر کبھی بھی ان ملاقاتوں میں دکھائی نہیں دیے۔ مائیکل مورِل کے بقول جن ملاقاتوں میں اس معاملے پر بات ہوتی تھی وہ ان ملاقاتوں سے بالکل مختلف تھیں جن کا ذکر مسٹر ہرش نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
یہ تنازع اپنی جگہ، لیکن جس رات اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی کی گئی اس رات کے واقعات کے بارے میں بھی کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی خصوصی فوجی دستے ’سیلز‘ کے پہلے رکن کے زمین پر اترنے کے بارہ منٹ کے اندر اندر اسامہ بن لادن کو گولی ماری جا چکی تھی۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران ایک امریکی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا تھا اور کارروائی شروع ہونے کے 40 منٹ بعد بھی وہاں سے گولیاں چلنے اور دروازوں کو دھماکوں سے اڑانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
پڑوسیوں نے پولیس کو خبر کی کہ وہاں کیا ہو رہا لیکن ایبٹ آباد کی فوجی کمان نے پولیس کو بتا دیا تھا کہ انھیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکیوں نے پاکستان حکام کو آخری وقت پر یہ بتا دیا تھا کہ وہ کسی بڑے دہشتگرد کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں لیکن اس شخص کا نام نہیں بتایا؟ شاید اسی وجہ سے مقامی انتظامیہ کو بھی کہہ دیاگیا کہ وہ اپنی نظریں دوسری جانب کر لیں؟
سیمور ہرش اس سے پہلے بھی ایسی تحقیقاتی رپورٹیں کر چکے ہیں جن سے امریکی حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی تھی
پاکستان کے کچھ سکیورٹی ماہرین اس کہانی کو زیادہ سچ مانتے ہیں۔
سیمور ہرش نے اپنی کہانی میں جو سب سے زیادہ خوفناک الزام لگایا ہے وہ یہ ہے کہ امریکی سیلز کے اہلکاروں نے اسامہ بن لادن کی لاش کے ٹکڑے کر کے کچھ ٹکڑے ہیلی کاپٹر سے باہر پھینک دیے تھے، لیکن سمیور ہرش کہتے ہیں کہ یہ بات انھوں نے کارروائی میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاروں سے بات کر کے نہیں لکھی بلکہ اس کی بنیاد وہ ان دستاویزات تک رسائی ہے جن میں اِن اہلکاروں کے بیان شامل تھے۔
ہارورڈ وازڈن ’سیلز‘ کے سابق اہلکار ہیں جو اس کارروائی میں حصہ لینے والے کئی فوجی جوانوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ہارورڈ وازڈن کے بقول ’مسٹر ہرش نے نہایت غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں کسی ایسے سیلز اہلکار کو نہیں جانتا جس کا کردار اتنا گھٹیا ہو کہ وہ کسی دوسرے انسان کی جسم کے ٹکڑے کر دے۔‘
لیکن دوسری جانب امریکی حکومت کی اس کہانی کو بھی اکثر لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر میں دفن کر دیا گیا تھا۔ مائیکل مورِل نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اسامہ کی تدفین کی تصاویر اور وڈیو خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، لیکن میرے اس سوال کا انھوں نے کوئی سیدھا جواب نہیں دیا کہ آیا ہم بھی کبھی یہ تصاویر دیکھ سکیں گے۔ ان کے بقول یہ معاملہ وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔
مائیکل شُوئر سی آئی اے کے اندر اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے قائم کیے جانے والے خصوصی سیل کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے تھا کہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصاویر شائع نہ کرنا ایک غلطی تھی۔ ان کے بقول ’مجھے سمجھ نہیں آتی انھوں نے یہ تصاویر شائع کیوں نہیں کیں، چیزوں کو خفیہ رکھنے سے شکوک جنم لیتے ہیں۔‘
مائیکل مورِل کو شک ہے کہ مسٹر ہرش جو کہانی بتاتے ہیں وہ شاید انھیں آئی ایس آئی نے سنائی ہے اور اس کا مقصد ایجنسی اور پاکستانی افواج کو اس خفت اور شرمندگی سے بچانا ہے جو اسے امریکی چھاپہ مار کارروائی کے حوالے سے اٹھانا پڑی ہے۔
لیکن مسٹر مورِل یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی حکومت کی کہانی کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے بارے میں دنیا کو کبھی کچھ نہیں بتایا جائےگا۔ ’ہماری کہانی سو فیصد سچی ہے لیکن اس کہانی کا سو فیصد لوگوں کے علم میں بھی نہیں ہے۔‘
اسامہ بن لادن کی کہانی ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوئی اور دنیا اب بھی اس کہانی کی گرویدہ ہے۔
اس کہانی کے حوالے سے جب تک کچھ سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں ملتے اس وقت تک یہ چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں گی کہ اسامہ کی زندگی کے بارے میں کس شخص کو کیا پتہ تھا اور پھر سنہ 2011 کی اس رات ایبٹ آباد میں کیا ہوا تھا۔
لنک: http://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150617_obl_controversy_sq
جین کاربن بی بی سی نیوز
• 17 جون 2015
اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والے ایک متنازعہ بیان کے مطابق القاعدہ کے رہنما کو قتل کرنے کی سازش میں پاکستان اور امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے۔
میں گذشتہ تقریباً بیس برسوں سے بی بی سی کے نامہ نگار کے طور پر القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے بارے میں خبروں پر کام کرتا رہا ہوں اور اس جستجو کے دوران میں تورا بورا کی غاروں میں بھی گیا اور ایبٹ آباد میں اونچی چاردیواری والی اس عمارت کے اندر بھی گیا جہاں اسامہ بن لادن کا خاتمہ ایک خونی کارروائی میں ہوا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ حالیہ دنوں میں ہمیں اسامہ کی موت کے بارے میں جو کچھ بتایاگیا ہے اس میں کوئی سچائی ہے یا نہیں؟
تحقیقاتی صحافت کے ماہر امریکی صحافی سیمور ہرش ماضی میں بھی ویتنام میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل عام اور عراق کی ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبروں کے حوالے سے ماضی کی امریکی حکومتوں کو شرمندہ کر چکے ہیں۔
اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں خبر کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ نے سیمور ہرش کی جتنی گت بنائی اس کے بعد وہ ہفتوں خاموش رہے، لیکن وہ بالآخر مجھ سے گفتگو پر رضامند ہو گئے۔ ہماری گفتگو کا موضوع ان کا وہ متنازعہ مضمون تھا جو لندن کے اس جریدے میں شائع ہوا جو خاص طور پر نئی شائع ہونے والی کتابوں پر تبصرے کے لیے مشہور ہے۔
ہرش کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن چھ سال سے پاکستانی خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کی قید میں تھے اور پھر انھیں ایبٹ آباد میں ایک نام نہاد چھاپہ مار کارروائی میں امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی بنیاد پر مسٹر ہرش کہتے ہیں کہ امریکی اہلکار اس کارروائی کے بارے میں جو کچھ بتا رہے ہیں وہ کسی ’ طلسماتی دنیا‘ کی کہانی ہے۔
سیمور ہرش کے بیان کے بارے میں سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل مورِل کا کہنا کہ یہ رپورٹ ’ بالکل بکواس ہے اور اس رپورٹ کا تقریباً ہر لفظ غلط ہے۔‘ مائیکل مورِل نے مجھے بتایا کہ وہ سنہ 2011 کی اُس رات خود اس عمارت میں موجود تھے جہاں سے سی آئی اے کی کارروائیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
سی آئی اے شروع دن سے اپنی ڈاکیے والی کہانی پر قائم ہے کہ جس کے مطابق وہ آٹھ سال تک اس کوریئر کا پیچھا کرتے رہے جو دراصل القاعدہ کا پِٹھو تھا اور بالآخر وہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
امریکی سیلز نے ایبٹ آباد کے اس گھر میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا
اسامہ بن لادن کی موت پر میں نے بی بی سی کے پروگرام ’پینوراما‘ میں انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو ایک موبائل فون نمبر دیا تھا لیکن آئی ایس آئی کو اس نمبر کی اہمیت کا احساس نہیں تھا۔ بعد میں سی آئی اے نے اس نمبر کی نگرانی شروع کر دی اور یہی وہ نمبر تھا جس کی مدد سے سی آئی اے اس نجی ڈاکیے تک پہنچ گئی جو اسامہ بن لادن کے لیے کام کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے کئی تجزیہ کار اور امریکہ کے اعلیٰ حکومتی اہلکار اس ڈاکیے کی تصدیق کر چکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں وہ کیسے اس کا پیچھا کرتے رہے۔
لیکن مسٹر ہرش اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسامہ کا کھوج لگانے میں اصل کردار پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کے اس ریٹائرڈ ’گمنام‘ شخص کا تھا جو ایک دن اچانک اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پہنچ گیا تھا۔اگست 2010 میں جب یہ شخص سفارتخانے میں پہنچا تو اس نے وہاں سی آئی اے کے افسران کو بتایا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو خود چُھپا ہوا ہے اور اس کی نظر ڈھائی کروڑ ڈالر کے اس انعام پر ہے جو امریکہ نے اسامہ بن لادن کی اطلاع دینے کے حوالے سے کر رکھا تھا۔
مسٹر ہرش کہتے ہیں پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کی خبر صرف نچلے درجے تک محدود نہیں تھی بلکہ پاکستانی افواج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی اس سے باخبر تھے۔ لیکن سی آئی اے اس خیال کی تردید کرتی ہے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت اس سے بےخبر تھی۔
اس سارے معاملے کی ایک اور ممکنہ توجیح بھی موجود ہے جو پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی کے اندر ان باغی عناصر کی جانب اشارہ کرتی ہے جن کی ہمدردیاں اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ رہی ہیں۔
شدت پسندوں کے ہمدردوں کا کرادر
یہ ممکن ہے کہ خفیہ ایجنسی میں کسی کو معلوم ہو کہ اسامہ بن لادن کہاں تھے یا اس شخص نے اسامہ کو پناہ لینے میں مدد بھی کی ہو۔ میں خود جب ایبٹ آباد پہنچا اور اس کمپاؤنڈ کو تباہ کیے جانے سے پہلے دیکھا تو مجھے بھی یقین نہیں آیا کہ کیسے کوئی اتنا اہم شخص ملک کی فوجی اکیڈیمی کے اتنے قریب اور اعلیٰ فوجی قیادت کی ناک کے عین نیچے بیٹھا رہ سکتا ہے اور کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔
پاکستان میں روزنامہ نیویارک پوسٹ کی نامہ نگار کارلوٹا گال بھی مسٹر ہرش کے اس خیال کی تائید کرتی ہیں کہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسران کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں تھے۔ پاکستان میں ہوتے ہوئے انھیں ایک مقامی شخص نے بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اندر اسامہ بن لادن کی خبر رکھنے والا ایک خصوصی شعبہ ہے جو ایک آدمی چلاتا ہے۔ کارلوٹا گال کے بقول اس شخص کا کہنا تھا کہ پاکستانی افسران ’یہ بات خفیہ رکھی ہوئی ہے کہ انھوں نے اسامہ کو کہاں رکھا ہوا ہے اور اسامہ خفیہ ایجنسی کی محفوظ تحویل میں ہیں۔‘
صدر اوباما نے اپنے مشیروں کے ہمراہ وائٹ ہاؤس سے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی براہ راست کارروائی دیکھی
لیکن سکیورٹی کے کئی بڑے اور قابل اعتبار ماہرین کو شک ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں۔
سیمور ہرش کی کہانی میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ سینیئر امریکی اہلکار کا بیان ہے جس کا نام مسٹر ہرش نے کبھی نہیں بتایا۔ سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل مورِل بھی سیمور ہرش کے بیان کی تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے امریکی اہلکاروں کی جو بھی ملاقاتیں اور گفت و شنید ہو رہی تھی مذکورہ سینیئر ریٹائرڈ افسر کبھی بھی ان ملاقاتوں میں دکھائی نہیں دیے۔ مائیکل مورِل کے بقول جن ملاقاتوں میں اس معاملے پر بات ہوتی تھی وہ ان ملاقاتوں سے بالکل مختلف تھیں جن کا ذکر مسٹر ہرش نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
یہ تنازع اپنی جگہ، لیکن جس رات اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی کی گئی اس رات کے واقعات کے بارے میں بھی کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی خصوصی فوجی دستے ’سیلز‘ کے پہلے رکن کے زمین پر اترنے کے بارہ منٹ کے اندر اندر اسامہ بن لادن کو گولی ماری جا چکی تھی۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران ایک امریکی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا تھا اور کارروائی شروع ہونے کے 40 منٹ بعد بھی وہاں سے گولیاں چلنے اور دروازوں کو دھماکوں سے اڑانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
پڑوسیوں نے پولیس کو خبر کی کہ وہاں کیا ہو رہا لیکن ایبٹ آباد کی فوجی کمان نے پولیس کو بتا دیا تھا کہ انھیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکیوں نے پاکستان حکام کو آخری وقت پر یہ بتا دیا تھا کہ وہ کسی بڑے دہشتگرد کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں لیکن اس شخص کا نام نہیں بتایا؟ شاید اسی وجہ سے مقامی انتظامیہ کو بھی کہہ دیاگیا کہ وہ اپنی نظریں دوسری جانب کر لیں؟
سیمور ہرش اس سے پہلے بھی ایسی تحقیقاتی رپورٹیں کر چکے ہیں جن سے امریکی حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی تھی
پاکستان کے کچھ سکیورٹی ماہرین اس کہانی کو زیادہ سچ مانتے ہیں۔
سیمور ہرش نے اپنی کہانی میں جو سب سے زیادہ خوفناک الزام لگایا ہے وہ یہ ہے کہ امریکی سیلز کے اہلکاروں نے اسامہ بن لادن کی لاش کے ٹکڑے کر کے کچھ ٹکڑے ہیلی کاپٹر سے باہر پھینک دیے تھے، لیکن سمیور ہرش کہتے ہیں کہ یہ بات انھوں نے کارروائی میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاروں سے بات کر کے نہیں لکھی بلکہ اس کی بنیاد وہ ان دستاویزات تک رسائی ہے جن میں اِن اہلکاروں کے بیان شامل تھے۔
ہارورڈ وازڈن ’سیلز‘ کے سابق اہلکار ہیں جو اس کارروائی میں حصہ لینے والے کئی فوجی جوانوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ہارورڈ وازڈن کے بقول ’مسٹر ہرش نے نہایت غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں کسی ایسے سیلز اہلکار کو نہیں جانتا جس کا کردار اتنا گھٹیا ہو کہ وہ کسی دوسرے انسان کی جسم کے ٹکڑے کر دے۔‘
لیکن دوسری جانب امریکی حکومت کی اس کہانی کو بھی اکثر لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر میں دفن کر دیا گیا تھا۔ مائیکل مورِل نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اسامہ کی تدفین کی تصاویر اور وڈیو خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، لیکن میرے اس سوال کا انھوں نے کوئی سیدھا جواب نہیں دیا کہ آیا ہم بھی کبھی یہ تصاویر دیکھ سکیں گے۔ ان کے بقول یہ معاملہ وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔
مائیکل شُوئر سی آئی اے کے اندر اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے قائم کیے جانے والے خصوصی سیل کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے تھا کہ اسامہ بن لادن کی لاش کی تصاویر شائع نہ کرنا ایک غلطی تھی۔ ان کے بقول ’مجھے سمجھ نہیں آتی انھوں نے یہ تصاویر شائع کیوں نہیں کیں، چیزوں کو خفیہ رکھنے سے شکوک جنم لیتے ہیں۔‘
مائیکل مورِل کو شک ہے کہ مسٹر ہرش جو کہانی بتاتے ہیں وہ شاید انھیں آئی ایس آئی نے سنائی ہے اور اس کا مقصد ایجنسی اور پاکستانی افواج کو اس خفت اور شرمندگی سے بچانا ہے جو اسے امریکی چھاپہ مار کارروائی کے حوالے سے اٹھانا پڑی ہے۔
لیکن مسٹر مورِل یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی حکومت کی کہانی کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کے بارے میں دنیا کو کبھی کچھ نہیں بتایا جائےگا۔ ’ہماری کہانی سو فیصد سچی ہے لیکن اس کہانی کا سو فیصد لوگوں کے علم میں بھی نہیں ہے۔‘
اسامہ بن لادن کی کہانی ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوئی اور دنیا اب بھی اس کہانی کی گرویدہ ہے۔
اس کہانی کے حوالے سے جب تک کچھ سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں ملتے اس وقت تک یہ چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں گی کہ اسامہ کی زندگی کے بارے میں کس شخص کو کیا پتہ تھا اور پھر سنہ 2011 کی اس رات ایبٹ آباد میں کیا ہوا تھا۔
لنک: http://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150617_obl_controversy_sq