الف عین
لائبریرین
(۷) : فارسی شاعری سے اردو ترجمہ کے لئے ہم نے اقبال کی ”پیامِ مشرق“ سے ایک نظم ”محاوہ ما بین خدا و انسان“ (خدا اور انسان کا مکالمہ) اور دوسری نظم ’زندگی“ کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارا مقصداشعار کی تشریح کرنا نہیں بلکہ اس کے سادہ اور مختصر معانی کو اردو میں رقم کرنا ہے۔پہلی نظم کے دو حصے ہیں: پہلے چھ مصرعے اقبال نے خدا کی طرف سے اور دوسرے چھ مصرعے انسان کی طرف سے ادا کئے ہیں۔ دوسری نظم میں زندگی کا مفہوم مظاہرِ فطرت کی زبان سے بیان کیا گیا ہے۔
خدا
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
مباحث: زیک: (از، یک)، آفریدم: میں نے پیدا کیا، آفریدی: تو نے پیدا کیا، پولادِ ناب: فولاد، تفنگ: توپ، تبر: کلہاڑی، را: کو، کے لئے، سے، ساختی: تو نے بنایا، سفال: مٹی، ایاغ: برتن، پیالہ، راغ: خار و خس، من آنم ( من آن ہستم): میں وہ ہوں، کہ: جو، جس نے، جسے، سازم: بناؤں، بناتا ہوں، نوشینہ: پینے کی چیز، مشروب، دوائی، تریاق۔
ترجمہ: خدا کہتا ہے: میں نے تو جہان کو ایک ہی آب و گل سے پیدا کیا اور تو نے ایران، تاتار اور زنگ (نسلی اور علاقائی امتیازات) پیدا کرلئے۔ میں نے مٹی سے فولاد جیسی مفید شے پیدا کی اور تو نے تلوار، تیر اور توپ (تباہی کے سامان) بنا لئے۔ تو نے نہالِ چمن سے کلہاڑا (درخت کاٹنے کا اوزار) بنا لیا،اور (اس نہال کی شاخوں سے) گیت گانے والے پرندے کے لئے پنجرہ بنا ڈالا۔
انسان کہتا ہے: تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنا لیا، تو نے مٹی بنائی اور میں نے پیالہ (کام کی شے) بنا لی۔ تو نے صحرا، کہسار، اور خار و خس پیدا کئے، میں نے (انہی کو کام میں لا کر) سڑکیں، گلزار اور باغ بنا لئے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں جو زہر سے تریاق بنا لیتا ہوں۔
خدا
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی
تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را
انسان
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
مباحث: زیک: (از، یک)، آفریدم: میں نے پیدا کیا، آفریدی: تو نے پیدا کیا، پولادِ ناب: فولاد، تفنگ: توپ، تبر: کلہاڑی، را: کو، کے لئے، سے، ساختی: تو نے بنایا، سفال: مٹی، ایاغ: برتن، پیالہ، راغ: خار و خس، من آنم ( من آن ہستم): میں وہ ہوں، کہ: جو، جس نے، جسے، سازم: بناؤں، بناتا ہوں، نوشینہ: پینے کی چیز، مشروب، دوائی، تریاق۔
ترجمہ: خدا کہتا ہے: میں نے تو جہان کو ایک ہی آب و گل سے پیدا کیا اور تو نے ایران، تاتار اور زنگ (نسلی اور علاقائی امتیازات) پیدا کرلئے۔ میں نے مٹی سے فولاد جیسی مفید شے پیدا کی اور تو نے تلوار، تیر اور توپ (تباہی کے سامان) بنا لئے۔ تو نے نہالِ چمن سے کلہاڑا (درخت کاٹنے کا اوزار) بنا لیا،اور (اس نہال کی شاخوں سے) گیت گانے والے پرندے کے لئے پنجرہ بنا ڈالا۔
انسان کہتا ہے: تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنا لیا، تو نے مٹی بنائی اور میں نے پیالہ (کام کی شے) بنا لی۔ تو نے صحرا، کہسار، اور خار و خس پیدا کئے، میں نے (انہی کو کام میں لا کر) سڑکیں، گلزار اور باغ بنا لئے۔ میں وہ ہوں جو پتھر سے آئینہ بناتا ہوں ، میں وہ ہوں جو زہر سے تریاق بنا لیتا ہوں۔