نوید صادق
محفلین
استاد قمر جلا لوی:
گلوکاروں کا مقبول ترین شاعر
قفس سے بھی نکالا جا رہا ہوں
کہاں لے جائے دیکھو آب و دانہ
رضوان احمد | پٹنہ
اب نزع کا عالم طاری ہے، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
قمر جلالوی نے کسی درس گاہ، مدرسے، اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا تھا، سماج کی ٹھوکریں کھائی تھیں اور اس سے ہی سبق حاصل کیا تھا۔ پھر اسی سبق کو انہوں نے اپنی شاعری میں دہرایا۔ اس لیے ان کی شاعری اکتسابی اور وہبی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بالکل فطری بھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ اس کا مقصد نام و نمود نہیں تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی اشاعت کی جانب کوئی توجہ نہیں کی۔
قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلال میں ہوئی تھی اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا، اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے تھے۔
کم عمری میں ہی قمر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے ان کی شہرت جلال سے نکل کر علی گڑھ پہنچی اور علی گڑھ سے ملک کے دوسرے حصوں میں۔ وہ جلال سے نکل کر میرٹھ چلے گئے اور ایک سائیکل مرمت کی دکان میں میں کام کرنے لگے۔ 24 سال کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے لیکن وہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے البتہ جب علامہ رشید ترابی کو پتا چلا کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر کراچی کی ایک سائیکل کی دکان پر پنکچر لگاتا ہے تو انہوں نے ان کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا۔
اپنی قادر الکلامی کے سبب وہ 30 برس کی عمر میں ہی استاد قمر جلالوی کہے جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ انہوں نے بہت سے شعرا کے کلام پر اصلاح دی لیکن اپنے کلام کی اشاعت سے بے نیاز رہے۔ وہ بہت خوددار طبیعت کے مالک تھے اس لیے کبھی انہو ں نے کسی کے سامنے دامنِ طلب دراز نہیں کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ ان کی زندگی میں ان کے مجموعہٴ کلام کی اشاعت تک نہیں ہو سکی۔ بعد میں ان کی صاحبزادی کنیز جلالوی نے جو کلام انہیں مل سکا اسے جمع کر کے شائع کروا دیا۔ جو ’رشک قمر‘، ’اوجِ قمر‘ اور ’تجلیاتِ قمر‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن یہ مکمل کلام نہیں ہے کیوںکہ استاد قمر جلالوی کی غزلیں ان کے مداحوں اور شاگردوں نے اڑا لی تھیں۔ جو اپنے نام سے مشاعروں میں پڑھتے تھے اور بہت سا کلام دوسرے شعرا کے نام سے شائع بھی ہو گیا۔
استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ جنہیں ”غم جاوداں“ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔
قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں فکر کی شدت کم ہے اور زبان کا ذائقہ بہت زیادہ۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔ بلکہ ان کی کچھ غزلوں کو پاکستان کے کئی گلو کاروں اور قوالوں نے صدا بند کیا ہے۔ قمر جلالوی کی چند گائی جانے والی غزلیں بے حد مشہور ہوئیں:
کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔ حبیب ولی محمد، منی بیگم
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے ۔۔۔ منی بیگم
میرا خاموش رہ کر بھی انھیں سب کچھ سنا دینا ۔۔۔ عابدہ پروین
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو ۔۔۔ نورجہاں
آئے ہیں وہ مزار پہ ۔۔۔ صابری برادران
استاد قمر جلالوی کے بعض اشعار تو سہلِ ممتنع کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
دبا کے چل دیے سب قبر میں دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
میرا منہ کفن سے کھولا مجھے دیکھ کر وہ بولے
یہ نیا لباس کیوں ہے یہ کہاں کے ہیں ارادے؟
روز محفل سے اٹھاتے ہو تو دل دکھتا ہے
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں
بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں
سجدے جو بت کدے میں کیے میری کیا خطا
تم نے کبھی کہا کہ مرا آستاں نہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے تیرے دفنائے جاتے ہیں
مریض غم پہ اک ایسی بھی شام آتی ہے
کہ چارہ گر کو امید سحر نہیں رہتی
حشر میں بھی وہ کیا ملیں گے ہمیں
جب ملاقات عمر بھر نہ ہوئی
قفس کو کیوں سمجھ لوں آشیانہ
ابھی تو کروٹیں لے گا زمانہ
قفس سے بھی نکالا جا رہا ہوں
کہاں لے جائے دیکھو آب و دانہ
اور ان کی یہ غزل تو بہت ہی مشہور ہے تقریباً تمام گلو کاروں نے اسے آواز کا روپ دیا ہے:
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
چمن میں برق نہیں چھوڑتی کسی صورت
طرح طرح سے بناتا ہوں آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے
حضور شمع نہ لا یا کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
دبا کے قبر میں سب چل دئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
اب آگے اس میں تمہار ابھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو
ا ن کے کچھ اور اشعار
کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو
تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
بہاروں میں یہ بھی ستم دیکھتے ہیں
کہ جلتا ہے گھر اور ہم دیکھتے ہیں
زمانے کو ان کے کرم دیکھتے ہیں
مگر اپنی قسمت کو ہم دیکھتے ہیں
استاد قمر جلالوی کے کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مقطعوں میں ایسی معنویت پیدا کی ہے کہ یہ ان کی غزل کا سب سے زور دار اور بامعنی شعر بن جاتا ہے:
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے
قمر اک دن سفر میں خود ہلالِ عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایام آجائے
چاندنی کی سیر ان کے ساتھ یہ حسرتِ فضول
اے قمر نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے
اے قمر صبح ہوئی اب تو اٹھو محفل سے
شمع گل ہو گئی رخصت ہوئے پروانے تک
سیر فلک کو بام پہ آئے وہ جو قمر
تاروں نے آسماں کو چراغاں بنا دیا
اس طرح قمر جلالوی نے اپنے تخلص کی رعایت سے ایسے ایسے اشعار نکالے ہیں جو گہری معنویت کے حامل ہیں۔
استاد قمر جلالوی کا انتقال چار اکتوبر 1968ء کو 91 سال کی عمر میں کراچی ہوا۔
(شکریہ: وائس آف امریکہ)
گلوکاروں کا مقبول ترین شاعر
قفس سے بھی نکالا جا رہا ہوں
کہاں لے جائے دیکھو آب و دانہ
رضوان احمد | پٹنہ
اب نزع کا عالم طاری ہے، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
قمر جلالوی نے کسی درس گاہ، مدرسے، اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا تھا، سماج کی ٹھوکریں کھائی تھیں اور اس سے ہی سبق حاصل کیا تھا۔ پھر اسی سبق کو انہوں نے اپنی شاعری میں دہرایا۔ اس لیے ان کی شاعری اکتسابی اور وہبی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بالکل فطری بھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ اس کا مقصد نام و نمود نہیں تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے کلام کی اشاعت کی جانب کوئی توجہ نہیں کی۔
قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلال میں ہوئی تھی اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے تھے۔ ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا، اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے تھے۔
کم عمری میں ہی قمر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے ان کی شہرت جلال سے نکل کر علی گڑھ پہنچی اور علی گڑھ سے ملک کے دوسرے حصوں میں۔ وہ جلال سے نکل کر میرٹھ چلے گئے اور ایک سائیکل مرمت کی دکان میں میں کام کرنے لگے۔ 24 سال کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے لیکن وہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے البتہ جب علامہ رشید ترابی کو پتا چلا کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر کراچی کی ایک سائیکل کی دکان پر پنکچر لگاتا ہے تو انہوں نے ان کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا۔
اپنی قادر الکلامی کے سبب وہ 30 برس کی عمر میں ہی استاد قمر جلالوی کہے جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ انہوں نے بہت سے شعرا کے کلام پر اصلاح دی لیکن اپنے کلام کی اشاعت سے بے نیاز رہے۔ وہ بہت خوددار طبیعت کے مالک تھے اس لیے کبھی انہو ں نے کسی کے سامنے دامنِ طلب دراز نہیں کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ ان کی زندگی میں ان کے مجموعہٴ کلام کی اشاعت تک نہیں ہو سکی۔ بعد میں ان کی صاحبزادی کنیز جلالوی نے جو کلام انہیں مل سکا اسے جمع کر کے شائع کروا دیا۔ جو ’رشک قمر‘، ’اوجِ قمر‘ اور ’تجلیاتِ قمر‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن یہ مکمل کلام نہیں ہے کیوںکہ استاد قمر جلالوی کی غزلیں ان کے مداحوں اور شاگردوں نے اڑا لی تھیں۔ جو اپنے نام سے مشاعروں میں پڑھتے تھے اور بہت سا کلام دوسرے شعرا کے نام سے شائع بھی ہو گیا۔
استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ جنہیں ”غم جاوداں“ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔
قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں فکر کی شدت کم ہے اور زبان کا ذائقہ بہت زیادہ۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔ بلکہ ان کی کچھ غزلوں کو پاکستان کے کئی گلو کاروں اور قوالوں نے صدا بند کیا ہے۔ قمر جلالوی کی چند گائی جانے والی غزلیں بے حد مشہور ہوئیں:
کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔ حبیب ولی محمد، منی بیگم
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے ۔۔۔ منی بیگم
میرا خاموش رہ کر بھی انھیں سب کچھ سنا دینا ۔۔۔ عابدہ پروین
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو ۔۔۔ نورجہاں
آئے ہیں وہ مزار پہ ۔۔۔ صابری برادران
استاد قمر جلالوی کے بعض اشعار تو سہلِ ممتنع کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
دبا کے چل دیے سب قبر میں دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
میرا منہ کفن سے کھولا مجھے دیکھ کر وہ بولے
یہ نیا لباس کیوں ہے یہ کہاں کے ہیں ارادے؟
روز محفل سے اٹھاتے ہو تو دل دکھتا ہے
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
اس میں کوئی فریب تو اے آسماں نہیں
بجلی وہاں گری ہے جہاں آشیاں نہیں
سجدے جو بت کدے میں کیے میری کیا خطا
تم نے کبھی کہا کہ مرا آستاں نہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے تیرے دفنائے جاتے ہیں
مریض غم پہ اک ایسی بھی شام آتی ہے
کہ چارہ گر کو امید سحر نہیں رہتی
حشر میں بھی وہ کیا ملیں گے ہمیں
جب ملاقات عمر بھر نہ ہوئی
قفس کو کیوں سمجھ لوں آشیانہ
ابھی تو کروٹیں لے گا زمانہ
قفس سے بھی نکالا جا رہا ہوں
کہاں لے جائے دیکھو آب و دانہ
اور ان کی یہ غزل تو بہت ہی مشہور ہے تقریباً تمام گلو کاروں نے اسے آواز کا روپ دیا ہے:
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
چمن میں برق نہیں چھوڑتی کسی صورت
طرح طرح سے بناتا ہوں آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے
حضور شمع نہ لا یا کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
دبا کے قبر میں سب چل دئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
اب آگے اس میں تمہار ابھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو
ا ن کے کچھ اور اشعار
کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو
تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
بہاروں میں یہ بھی ستم دیکھتے ہیں
کہ جلتا ہے گھر اور ہم دیکھتے ہیں
زمانے کو ان کے کرم دیکھتے ہیں
مگر اپنی قسمت کو ہم دیکھتے ہیں
استاد قمر جلالوی کے کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مقطعوں میں ایسی معنویت پیدا کی ہے کہ یہ ان کی غزل کا سب سے زور دار اور بامعنی شعر بن جاتا ہے:
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے
قمر اک دن سفر میں خود ہلالِ عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایام آجائے
چاندنی کی سیر ان کے ساتھ یہ حسرتِ فضول
اے قمر نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے
اے قمر صبح ہوئی اب تو اٹھو محفل سے
شمع گل ہو گئی رخصت ہوئے پروانے تک
سیر فلک کو بام پہ آئے وہ جو قمر
تاروں نے آسماں کو چراغاں بنا دیا
اس طرح قمر جلالوی نے اپنے تخلص کی رعایت سے ایسے ایسے اشعار نکالے ہیں جو گہری معنویت کے حامل ہیں۔
استاد قمر جلالوی کا انتقال چار اکتوبر 1968ء کو 91 سال کی عمر میں کراچی ہوا۔
(شکریہ: وائس آف امریکہ)