کاشفی
محفلین
اسرئیل کا پیشوائے اعظم عوفادیا یوسف چل بسا
اسرئیل کا "پیشوائے اعظم" عوفادیا یوسف چل بسا، عوفادیا یوسف 1973ء سے 1983ء تک یہودیوں کے سب سے بڑے منصب کا حامل رہا اور اپنے فتنہ انگیز بیانات اور یہودی پرستی میں کافی مشہور رہا۔
یروشلم: (ویب ڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آنجہانی عوفادیا کی 93 سالہ زندگی فلسطینیوں کے مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کے خون کے پیاسے ایک انتہا پسند یہودی ربی کے طور پر عبارت ہے۔ اس یہودی خاخام نے سن 2001 میں عرب قوم کی نابودی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عربوں کو میزائل کے ذریعے نابود کر دینا چاہیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں درندہ اور موزی حیوانات کی مانند ہیں۔ 2010 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ ''غیر یہودی یہودیوں کے نوکر ہیں اور انکو صٓرف یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے''۔ اپنی نفرت کے الاؤ کو بھڑکانے کے لیے عوفودیا نے سنہ 1984ء میں اپنی قیادت میں "شاس" نامی ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔ عوفادیا یوسف کے نزدیک فلسطینیوں کی حیثیت "کاکروچوں" اور کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے نزدیک فلسطینی زہریلے سانپ، بچھو، جوئیں اور چونٹیاں تھیں اور وہ فلسطینیوں کو مخاطب کرکے ہمیشہ انہی الفاظ میں بات کرتا۔ اس نے بارہا اپنی تقاریر میں فلسطینیوں پر بم برسا کر انہیں نیست و نابود کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ نہتے فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث یہودیوی آباد کاروں اور فوجیوں کا بہی خواہ اور ہمدرد رہا۔ عمر کے آخری ایام میں عوفادیا زیادہ علیل رہنے لگا اور سیاسی سرگرمیاں تقریبا ختم کر دیں لیکن علالت کے دنوں میں بھی اس کے دل سے فلسطینیوں کے خلاف دشمنی کم نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شہرت فلسطینیوں کے خلاف اس کی نفرت بھری تقریریں، بیانات اور 'فتاویٰ' تھے۔ سنہ 2000ء عوفادیا نے "فرمودات دینی" کے عنوان سے ایک تقریرکی جو بعد میں ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ اس نے کہا کہ "میں نے کہا نا کہ عرب کیڑے مکوڑے ہیں۔ میں سال ہا سال سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ فلسطینی زہریلے سانپ اور بچھو ہیں۔ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل بم برسائے۔ بمباری اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک آخری عرب لقمہ اجل نہیں بن جاتا"۔ پیر کے روز جب اسرائیلی ٹی وی نے عوفادیا یوسف کے انتقال کی خبر دی تو ایسے لگ رہا تھا کہ اسرائیل سکتے میں آ گیا ہے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو پرعوفادیا کی انتقال کی خبر کو کئی گھنٹے تک بریکنگ نیوز کے طور پر مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا رہا۔
اسرئیل کا "پیشوائے اعظم" عوفادیا یوسف چل بسا، عوفادیا یوسف 1973ء سے 1983ء تک یہودیوں کے سب سے بڑے منصب کا حامل رہا اور اپنے فتنہ انگیز بیانات اور یہودی پرستی میں کافی مشہور رہا۔
یروشلم: (ویب ڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق آنجہانی عوفادیا کی 93 سالہ زندگی فلسطینیوں کے مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کے خون کے پیاسے ایک انتہا پسند یہودی ربی کے طور پر عبارت ہے۔ اس یہودی خاخام نے سن 2001 میں عرب قوم کی نابودی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عربوں کو میزائل کے ذریعے نابود کر دینا چاہیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں درندہ اور موزی حیوانات کی مانند ہیں۔ 2010 میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ ''غیر یہودی یہودیوں کے نوکر ہیں اور انکو صٓرف یہودیوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے''۔ اپنی نفرت کے الاؤ کو بھڑکانے کے لیے عوفودیا نے سنہ 1984ء میں اپنی قیادت میں "شاس" نامی ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔ عوفادیا یوسف کے نزدیک فلسطینیوں کی حیثیت "کاکروچوں" اور کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے نزدیک فلسطینی زہریلے سانپ، بچھو، جوئیں اور چونٹیاں تھیں اور وہ فلسطینیوں کو مخاطب کرکے ہمیشہ انہی الفاظ میں بات کرتا۔ اس نے بارہا اپنی تقاریر میں فلسطینیوں پر بم برسا کر انہیں نیست و نابود کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ نہتے فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث یہودیوی آباد کاروں اور فوجیوں کا بہی خواہ اور ہمدرد رہا۔ عمر کے آخری ایام میں عوفادیا زیادہ علیل رہنے لگا اور سیاسی سرگرمیاں تقریبا ختم کر دیں لیکن علالت کے دنوں میں بھی اس کے دل سے فلسطینیوں کے خلاف دشمنی کم نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شہرت فلسطینیوں کے خلاف اس کی نفرت بھری تقریریں، بیانات اور 'فتاویٰ' تھے۔ سنہ 2000ء عوفادیا نے "فرمودات دینی" کے عنوان سے ایک تقریرکی جو بعد میں ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ اس نے کہا کہ "میں نے کہا نا کہ عرب کیڑے مکوڑے ہیں۔ میں سال ہا سال سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ فلسطینی زہریلے سانپ اور بچھو ہیں۔ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل بم برسائے۔ بمباری اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک آخری عرب لقمہ اجل نہیں بن جاتا"۔ پیر کے روز جب اسرائیلی ٹی وی نے عوفادیا یوسف کے انتقال کی خبر دی تو ایسے لگ رہا تھا کہ اسرائیل سکتے میں آ گیا ہے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو پرعوفادیا کی انتقال کی خبر کو کئی گھنٹے تک بریکنگ نیوز کے طور پر مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا رہا۔