اسرائیل کا فریڈم فلوٹیلا پر حملہ،متعدد جاں بحق

زین

لائبریرین
غزہ: فلسطینیوں کے لئے امداد لے کر غزہ جانے والے فریڈم فلوٹیلا پراسرائیلی حملے میں متعدد جاں بحق اور ساٹھ سے زائد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ اسرائیلی ٹی وی کے مطابق حملے میں دس افراد جاں بحق ہوئے۔رائٹر زنے ایک اور اسرائیلی ٹی وی کے مطابق بتایا ہے کہ جاں بحق افراد کی تعددابیس ہو گئی ہے جبکہ آزاد ذرائع سے کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

فریڈم فلوٹیلا پر آج نیوز کی ٹیم بھی موجود ہے جس میں آج نیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر طلعت حسین اور پروڈیوسر رضا آغا شامل ہیں جن سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ طلعت حسین سے آخری بار صبح چھ بجے رابطہ ہوا تھا اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ فریڈم فلوٹیلا پر ایک پاکستانی تنظیم خبیب فاوٴنڈیشن کے سربراہ بھی موجود ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے فلوٹیلا میں شامل ایک کشتی پر قبضہ کر لیا ہے۔ اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے ذریعے امدای سامان لے جانے والے فلوٹیلا پر حملہ کیا۔

اسرائیلی حملے کے وقت متعدد افراد نے کشتیوں میں لیٹ کر فائرنگ سے جان بچائی۔ صہیونی فوجیوں نے غزہ کی بندرگاہ سے پینسٹھ کلو میٹر دور فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کیا۔ اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا پر حملے میں ہلاک اور زخمیوں کی میڈیا کوریج روکنے کیلئے سینسر لگا دیئے ہیں۔ دوسری جانب فلوٹیلا پر حملے کی اطلاع پر ترکی میں سینکڑوں افراد نے اسرائلی سفارتخانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔


ربط
 

یونس عارف

محفلین
امدادی سامان غزہ لیجانے والی کشتی پر اسرائیلی حملہ،20 افراد جاں بحق،متعدد یرغمال

Monday 31 May 2010 10:28

اسلام ٹائمز:
غزہ پٹی کے لئے امدادی سامان لے جانے والے سمندری قافلے پر اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے جبکہ 50 سے زائد زخمی ہیں،جنہیں اسرائیلی فوج نے یرغما ل بنا لیا ہے۔یرغمال بنائے گے افراد میں پاکستانی صحافی طلعت حسین کیساتھ ان کی ٹیم اور پروڈیوسر رضا آغا،فلسطین کے حامی،نوبل انعام حاصل کر نیوالے،ہولوکاسٹ کے متاثرین بھی شامل ہیں۔ پاکستانی صحافی اور اینکر طلعت حسین کا اپنے دفتر میں صبح 6 بجے آخری رابطہ ہوا۔جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو آتے دیکھ رہے ہیں۔
دوسری طرف ترکی نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ترک وزیر خاجہ کے مطابق اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔غزہ جانے والی امدادی کشتیوں پر حملے کے بعد ایتھنز میں اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے ان سے احتجاج کیا گیا۔اسرائیلی حملے کے خلاف فلسطینی صدر محمود عباس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔اپنے بیان میں فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ امدادی سامان لانے والی کشتیوں پر اسرائیلی حملہ قتل عام ہے۔دوسری جانب اسرائیلی حملے پر یورپی یونین نے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق غزہ امداد لے جانے والے عالمی امدادی کارکنوں پر اسرائیلی فوج کے حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 20ہو گئی ہے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔رپورٹس کے مطابق قبرص سے آنے والے آٹھ بحری جہاز اسرائیل غزہ کیلئے امدادی سامان اور آٹھ سو امدادی کارکن لے کر غزہ پٹی کے قریب پہنچا تو موٹر بوٹس اور ہیلی کاپٹرز میں سوار اسرائیلی فوجیوں نے بحری جہاز کو گھیرے میں لے لیا۔فوجیوں نے جہاز میں گھس کر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔فائرنگ میں زخمی ہونے والے اکثر افراد کی حالت تشویشناک ہے۔جہاز پر سوار صحافی طلعت حسین سمیت پاکستانیوں کا حملے کے بعد سے رابطہ منقطع ہے۔نجی ٹی وی کے پروڈیوسر آغا رضا اور الخبیب فاؤنڈیشن کے ندیم بھی جہاز پر سوار ہیں۔ترکی نے اس کارروائی پر اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا۔
ترک وزیر خارجہ احمد داود اوغلو نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اس کارروائی کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ جبکہ حماس نے عربوں سمیت مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف انتفاضہ کی تحریک شروع کر دیں۔
آج نیوز کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے آج نیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز سے متعلق فوری معلومات حاصل کرنی کی ہدایت کی ہے۔صدر زرداری نے طلعت حسین اور پروڈیوسر رضا آغا کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہے کہ آج نیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیوز طلعت حسین کے لئے تشویش ہے،کوشش کر رہے ہیں معلومات حاصل ہو۔انہوں نے اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک طلعت حسین سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ ہمیں تشویشی ہے کوشش کر رہے ہیں کہ معلومات حاصل ہو۔انہوں نے کہا کہ ترکی کے وزیر خارجہ سے رابطے میں ہیں
صدر کراچی یونین آف جرنلسٹ افضال محسن نے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کے نمائندے طلعت حسین کے لئے حکومت سفارتی کوششیں کرے۔پریس کانفرنس کے دوران افضال محسن نے کہا کہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرئیلی حملہ دہشت گردی ہے۔
 

یونس عارف

محفلین
اسرائیل کی دہشت گردیاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں اور مسلم ممالک خاموشی سے دیکھ رہے ہیں
 

یونس عارف

محفلین
ریڈیو تہران کی ویب سائیٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم انسانیت کے شرف و وقار کی توہین ہیں۔ڈاکٹر احمدی نژاد نے آج تہران میں انڈونیشیا کی پارلمنٹ کے اسپیکر مزروق علی سے ملاقات میں کہا کہ فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے انسانیت سوز اقدامات اور غزہ کے عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد کی روک تھام کرنا اس حکومت کی طاقت کی علامت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی نشانی ہے اور یہ سارے اقدامات اس نحس اور غیر قانونی حکومت کے زاول کی نشانیاں ہیں جو اسے زوال سے نزدیک تر کر رہی ہیں۔
صدر جناب احمدی نژاد نے کہا کہ ساری انسانیت بالخصوص مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری ملت مظلوم فلسطین کی حمایت کرنا ہے اور فلسطین پر سے صیہونی قبضہ ہٹانے ہے۔انہوں نے کہا کہ آج یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عربوں یا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔
 

طالوت

محفلین
طلعت حسین اور ان کے دو ساتھیوں کا نقصان ہرگز قابل برداشت نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ اور اس گناہ میں حکومت پاکستان ، اسرائیل و امریکہ سب شامل ہوں گے۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
انفارمیشن منسٹر کو 15 گھنٹے بعد پتہ چلا ہے اور وزیر داخلہ اس پر بیان دے رہا ہے ۔ غارت ہوں ایسے حکمران ۔ بہرحال غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تینوں افراد بخیریت ہیں ۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
دنیا بھر میں اس واقعہ کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا کئی ممالک نے سرکاری سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن حسب سابق /توقع امریکہ نےصرف اسرائیلی وزیراعظم سے اظہار افسوس کیا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے حکمرانوں اور وزراء کا یہی عالم ہے کہ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔
 
طلعت جلد بخیریت وطن واپس آئینگے، رحمان​
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ طلعت حسین جلد بخیریت پاکستان واپس آئیں گے۔آج نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ طلعت حسین اور دیگر پاکستانی خیریت سے ہیں،انہیں جہاز سے اتارلیا گیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ طلعت جلد پاکستان آئیں گے۔
ماخذ: آج ٹی وی
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں يہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ميڈيا اور فورمز پر بعض تجزيہ نگار ايک ايسے واقعے کے ليے امريکہ کو کيونکر مورد الزام قرار دے رہے ہيں جس ميں امريکہ کا نہ ہی کوئ عمل دخل ہے اور نہ ہی امريکہ اس واقعے ميں فريق کی حيثيت سے شامل تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اسرائيل کو دوست اور اتحادی قرار ديتا ہے ليکن اس حقيقت کا اطلاق تو دنيا کے کئ مسلم اور غير مسلم ممالک پر بھی ہوتا ہے۔ ليکن اسرائيل بحرصورت ايک خود مختار ملک ہے اور امريکہ کو ہر اس واقعے کے ليے موردالزام اور جواب دہ نہيں قرار ديا جا سکتا جس کے فريقين میں امريکہ کا کوئ دوست يا اتحادی ملک شامل ہو۔

امريکہ حاليہ تشدد کے واقعے اور غزہ کی جانب گامزن جہازوں پر ہونے والی ہلاکتوں پرگہرے رنج وغم کے جذبات رکھتا ہے۔ ليکن اس واقعے کے حوالے سے عجلت ميں کوئ فيصلہ يا رائے قائم کرنے کی بجائے يہ ضروری ہے کہ حقائق کا جائزہ ليا جائے کيونکہ اس واقعے کے حوالے سے تمام تفصيلات ابھی آنا باقی ہیں۔

امريکی حکومت تمام تر حقائق جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ضمن ميں ہم قابل بھروسہ اور شفاف تفتيش کی توقع رکھتے ہيں اور اسرائيلی حکومت سے پرزور اصرار کرتے ہيں کہ اس واقعے کے حوالے سے مکمل تحقيق کی جائے۔

صدر اوبامہ نے بھی اس واقعے ميں ہلاک شدگان کے حوالے سے تعزيت کے پيغام کے ساتھ اس ضرورت پر بھی زور ديا ہے کہ ان حالات اور حقائق کو جلد از جلد سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس واقعے کا سبب بنے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

طالوت

محفلین
میرے خیال میں امریکہ کو اسرائیلی وزیر اعظم کے اس بیان کا جواب ضرور دینا چاہیے جب صدر بش کے جاتے جاتے اسرائیل نے امریکی حمایت کی بدولت غزہ میں خون کی ہولی کھیلی تھی ۔ اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کو امریکہ کے اب تک ریکارڈ کے مطابق کبھی اس طرح روکا نہیں گیا جس طرح وہ دوسرے ممالک کے بارے میں کرتا ہے ۔ امریکی اسلحے اور سالانہ بلین ڈالرز کی “مدد“ سے فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیل کی کھلے عام مذمت نہ کرنا امریکہ کا ایک بہت بڑا جرم ہے ۔ فلسطین اور مشرقی تیمور وغیرہ جیسے معاملات میں امریکہ کے ڈبل اسٹینڈردز ہی اسلامی دنیا میں امریکہ سے نفرت کا سبب ہے ۔

نہتے امدادی قافلے پر اسرائیلی ریاستی دہشت گردی پر امریکہ کی “تشویش“ ناقابل قبول ہے ۔

-----------------------------------------------------------------------------------------------
خوش آئند خبر ہے کہ چند لمحوں میں تینوں پاکستانی اردن میں پاکستانی سفیر کے حوالے کر دئیے جائیں گے ۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
ميں يہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ميڈيا اور فورمز پر بعض تجزيہ نگار ايک ايسے واقعے کے ليے امريکہ کو کيونکر مورد الزام قرار دے رہے ہيں جس ميں امريکہ کا نہ ہی کوئ عمل دخل ہے اور نہ ہی امريکہ اس واقعے ميں فريق کی حيثيت سے شامل تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اسرائيل کو دوست اور اتحادی قرار ديتا ہے ليکن اس حقيقت کا اطلاق تو دنيا کے کئ مسلم اور غير مسلم ممالک پر بھی ہوتا ہے۔ ليکن اسرائيل بحرصورت ايک خود مختار ملک ہے اور امريکہ کو ہر اس واقعے کے ليے موردالزام اور جواب دہ نہيں قرار ديا جا سکتا جس کے فريقين میں امريکہ کا کوئ دوست يا اتحادی ملک شامل ہو۔

امريکہ حاليہ تشدد کے واقعے اور غزہ کی جانب گامزن جہازوں پر ہونے والی ہلاکتوں پرگہرے رنج وغم کے جذبات رکھتا ہے۔ ليکن اس واقعے کے حوالے سے عجلت ميں کوئ فيصلہ يا رائے قائم کرنے کی بجائے يہ ضروری ہے کہ حقائق کا جائزہ ليا جائے کيونکہ اس واقعے کے حوالے سے تمام تفصيلات ابھی آنا باقی ہیں۔

امريکی حکومت تمام تر حقائق جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ضمن ميں ہم قابل بھروسہ اور شفاف تفتيش کی توقع رکھتے ہيں اور اسرائيلی حکومت سے پرزور اصرار کرتے ہيں کہ اس واقعے کے حوالے سے مکمل تحقيق کی جائے۔

صدر اوبامہ نے بھی اس واقعے ميں ہلاک شدگان کے حوالے سے تعزيت کے پيغام کے ساتھ اس ضرورت پر بھی زور ديا ہے کہ ان حالات اور حقائق کو جلد از جلد سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس واقعے کا سبب بنے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

آپ کے سوال کا جواب ابو شامل بھائی کی اس تحریر میں موجود ہے
اب آتے ہی اس طرز عمل کی طرف جو اسرائیل کے معاملے میں مغرب اختیار کرتا ہے۔ مسلم دنیا میں، کوئی معمولی واقعہ بھی ہو، چاہے وہ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہ دینے جیسا معمولی سا رویہ بھی ہو، اس کی مذمت میں مغرب خصوصا امریکہ ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے۔ پاکستان میں چار عیسائی مر جائیں، یا قادیانیوں کا جینا دشوار ہو (گو کہ اسلام کی رو سے اقلیتوں کو بنیادی حقوق نہ دینا خود غلط عمل ہے) وہاں مغرب سے مذمتوں و دھمکیوں کا ایک سیلاب پاکستان کی جانب رواں ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں جب ان کا چہیتا اسرائیل بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتا ہے اور نہ صرف فلسطین و لبنان کے بلکہ دیگر ممالک کے معصوم انسانوں کے خون کی بھی ہولی کھیلتا ہے، حتی کہ تمام تر سفارتی و اخلاقی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے افراد کے پاسپورٹ کو استعمال کر کے اپنے ایجنٹوں کو دبئی میں ایک حماس رہنما کو قتل کرنے کے لیے بھی بھیجتا ہے، تب بھی یہ انسانی حقوق کے چیمپیئن ممالک منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مذمت آئے گی بھی تو کسی کونے سے اور وہ بھی ایسی جیسی منمناتا ہوا بھیڑ کا بچہ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکی اسلحے اور سالانہ بلین ڈالرز کی “مدد“ سے فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیل کی کھلے عام مذمت نہ کرنا امریکہ کا ایک بہت بڑا جرم ہے ۔ وسلام

اگر آپ سال 2000 سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا جائزہ ليں تو سال 2003 کے سوا ہر سال اسرائيل کی غير ملکی امداد پر انحصار کے توازن اور ضرورت کے پيش نظر امريکی امداد ميں بتدريج کمی واقع ہوئ ہے۔ ليکن اسی عرصے ميں امريکہ فلسطين کو امداد دينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔

http://img119.imageshack.us/my.php?image=snap1o.jpg

اس کے علاوہ جب آپ اسرائيل اور فلسطين کو دی جانے والی امريکی امداد کا جائزہ پيش کرتے ہیں تو آپ تصوير کے صرف ايک چھوٹے سے حصے پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہیں۔ آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن ميں آپ اس خطے ميں عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے اعداد وشمار کو بھی مد نظر رکھيں۔ اپنی بات کی دليل کے ليے ميں آپ کو مصر کی مثال دوں گا جس کو امريکہ کی جانب سے پچھلی تين دہائيوں ميں 28 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔

http://www.usaid.gov/our_work/features/egypt/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

طالوت

محفلین
آپ کے دئیے گئے اسرائیل سے متعلق اعداد و شمار میں اتنا بڑا فرق ہرگز نہیں جسے بطور مثال پیش کیا جا سکے کیونکہ غاصب صہونیوں کو فلسطینیوں کے سینوں پر پنجے گاڑنے میں جو تکنیکی امداد دی گئی یا دی جاتی ہے اس کا اعداد میں حساب تو نہیں ہو گا اور پھر اس تکنیکی “امداد“ کی بدولت وہ خاصا خود کفیل بھی تو ہو گیا ہے تو لازم ہے کہ امداد میں کمی واقع ہو گی ۔ امریکہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ حقائق کو تروڑ مروڑ کر یا ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے اپنا “سوفٹ امیج“ پیدا نہیں کر سکتا ۔
میں بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسی بہیمانہ دہشتگردی پر امریکہ و اقوام متحدہ غیر جانب دار “انکوائری“ پر زور کیسے دے سکتے ہیں جو ہر لحاظ سے واضح اور صاف ہو ۔ ایسا کہنا چالیس ملکوں کے معروف لوگوں کی توہین ہے ۔

وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکی حکومت اس واقعے کے حوالے سے تحقيقات کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے يا ان عوامل کو چھپانے کی خواہش مند ہے جو اس سانحے کی وجہ بنے۔

اس ضمن ميں سيکرٹری کلنٹن کے بيان کا حوالہ دوں گا جس ميں انھوں نے اس واقعے کی درست تحقیق کی ضرورت پر زور ديا ہے۔

"امريکہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی جانب سے ان عوامل کی مذمت کی حمايت کرتا ہے جو اس سانحے کا موجب بنے۔ ہم سيکورٹی کونسل کی جانب سے اس واقعہ کی فوری، غير جانب دارانہ، مصدقہ اور شفاف تحقيق کے مطالبے کی بھرپور حمايت کرتے ہيں۔ ہم اسرائيل کی جانب سے ايسی تحقيق جو ان ضروريات کو پورا کرے، اس کی حمايت کرتے ہيں۔ ہم ايک قابل بھروسہ تحقيقی عمل کو يقينی بنانے کے ليے عالمی شموليت سميت کسی بھی اور طريقہ کار کو اختيار کرنے کے معاملے ميں کھلی سوچ رکھتے ہيں۔ آنے والے دنوں میں ہم اسرائيل اور اپنے عالمی اتحاديوں سے اس ضمن ميں مذاکرات جاری رکھيں گے۔"

يہ واقعہ ان مذاکرات کے ضمن ميں پيش رفت کی اہميت کو بھی اجاگر کرتا ہے جو اس خطے ميں مکمل امن کا موجب بنيں گے۔ اسرائيل اور فلسطين کے مسلئے کا واحد اور قابل عمل حل دونوں فريقين کے مابين طے پانے والا ايک ايسا معاہدہ ہے جو اس تسلط کو ختم کرے جو 1967 ميں شروع ہوا تھا۔ اسی صورت ميں دونوں فريقين اس منزل کو پا سکتے ہيں جس کی بنياد ايک آزاد وطن کا قيام ہے، ايک آزاد اسرائيلی رياست اور اس سے ملحقہ ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کا قيام جہاں دونوں قوميں امن اور سلامتی کو يقينی بنا سکتی ہيں۔

امريکہ غزہ ميں عام شہريوں پر تکاليف، بگڑتی ہوئ صورت حال اور انسانی حقوق کے حوالے سے مشکلات پر گہری تشويش رکھتا ہے۔ ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ يہ صورت حال برقرار نہيں رکھی جا سکتی اور نہ ہی يہ حالات کسی بھی فريق کے حق ميں ہيں۔ ہم غزہ ميں انسانی آبادی کی بحالی اور اس کے ليے درکار اشياء کی ترسيل کو يقينی بنانے کے لیے اسرائيل کے ساتھ روزانہ کی بنياد پر بات چيت کا عمل جاری رکھيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

زینب

محفلین
فواد صاحب اپ لمبی لمبی تقریروں کی بجائے صرف اتنا بتایئں کہ اقوام متحدہ میں جو قرار داد پاس کی گئی کہ اسرایئلی حملے کی عالمی تحقیقات کی جایئں اس کی امریکہ نے کیوں مخالفت کی۔۔اس کا جواب لے ایئں اپ کو سمجھ آجائے گی کہ سب امریکہ کو کیوں الزام دیتے ہیں انصاف کے چیمپیئن نے صرف مرنے والوں سے حمدردی کا اضہار کیا ہے اسرایئل کو ایک بار جھوٹے منہ بھی نہیں کہا گیا کہ بھیا غلط کام کیا اپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل کی حمايت کے ضمن ميں تمام سوالات اور آراء پڑھی ہيں۔ امريکی حکومت اس عالمی کوشش کا حصہ ہے جس کی بنياد اسرائيل اور فلسطين کے عوام کی خواہشات کے عين مطابق خطے ميں پائيدار امن کے قيام کا حصول ممکن بنانا ہے۔

ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔ ہم اسرائيل کے بہت سے اقدامات پر تحفظات رکھتے ہيں۔


ميں يہ بھی ياد دلا دوں کہ سال 2008 ميں غزہ ميں حملے کے بعد امريکہ نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1860 کی مکمل حمايت کی تھی جس کے تحت مستقل اور پائيدار جنگ بندی اور غزہ سے اسرائيلی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اسی قرارداد ميں غزہ کے مکينوں کے ليے خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو يقينی بنانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بہت سے تجزيہ نگار لگاتار امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا ذکر کرتے ہیں ليکن اسی پيرائے اور دليل ميں وہ اس حقيقت کو نظرانداز کر ديتے ہيں کہ امريکی حکومت فلسطين کو معاشی اور ترقياتی مد ميں امداد فراہم کرنے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔ سال 1993 سے يو ايس ايڈ کے توسط سے قريب 3 بلين ڈالرز کی امداد مہيا کی جا چکی ہے۔ اس امداد کے ذريعے جن شعبوں ميں ترقياتی منصوبوں کو سپورٹ فراہم کی گئ ہے ان ميں صاف پانی کی فراہمی، انفراسٹکچر، تعليم، صحت اور معاشی ترقی جيسے اہم شعبہ جات شامل ہيں۔

امريکی حکومت غزہ ميں بنيادی انسانی ضروريات بشمول خوراک، ادويات، صاف پانی اور علاج معالجے کی سہوليات کی فراہمی کو يقينی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ غزہ ميں ان سہوليات کی فراہمی کو اقوام متحدہ کی "ريليف اينڈ ورکس" ايجنسی اور ديگر بين الاقوامی نجی تنظيموں کے ذريعے ممکن بنايا جاتا ہے۔

ايک آزاد و خود مختار فلسطينی رياست کے ليے بنيادی انفراسٹکچر کی تعمير امريکہ سميت تمام فريقين کی بنيادی ترجيح ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top