اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجوہات (ڈاکٹر صغرا صدف سے معذرت کے ساتھ)
20/04/2019 ظاہر قریشی
سوال کرنا انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو تسلیم کرنا معاشرے کے مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ اہم موضوعات کو کسی کی دل آزاری اور انسانی احساسات کو مجروع کیے بنا زیر بحث لانا بلاشبہ معاشرے میں علم، آگہی، ترقی اور انسانوں کے درمیان سلجھے خیالات کی ترویج کا باعث سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صغرا صدف کا کالم اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ؟ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ۔
محترمہ نے بہترین اور شائستہ الفاظ کے چناؤ سے اپنے کرب، تکلیف اور اضطرابی کیفیت کا بیان کیا ہے۔ کوئی شک نہیں یہ سوال پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ ایک اہم سوال ہے۔ ایک عرصہ تک اس سوال کو جذبات کی روح میں بہہ کر نہ صرف رد کیا جاتا رہا بلکہ سوال اٹھانے والے کو تنقید سے چار قدم آگے جا کر یہودی اور امریکی ایجنٹ کہہ دینا عام سی بات تھی۔ اس جاہرانہ رویے کا نقصان یہ ہوا کہ عام عوام تو دور کی بات پڑھے لکھے لوگ بھی اس اہم معاملے پر اپنی معلومات کی درستی نہ کر پائے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ صرف اور صرف اس ملک (اسرائیل) کا فلسطینیوں پر جاری ظلم سمجھتی ہے۔ یہ ایک وجہ تو ہے مگر یہ سمجھنا اور کہنا کے صرف یہی ایک وجہ ہے کسی بھی طور پر درست نہیں۔
ا س وقت دنیا کے تیس ممالک بشمول غیر مسلم ممالک کیوبا اور شمالی کوریا اسرئیلی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں دنیا میں آج باون ایسے ملک بھی ہیں جو اسرئیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے باوجود 1948 ء کی تقسیم عرب کی اقوام متحد ہ کی قراداد کو قانونی تسلیم نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ جب اس قراداد کو اقوام متحدہ سے منظور کروایا جا رہا تھا تو امریکی سٹیٹ دیپارٹمنٹ پینٹا گون اور امریکی کانگریس بھی اس تقسیم کو غیر قانونی کہتے رہے۔ جارج ڈبلیو بال کی کتاب The Passionate میں تمام تفصیل درج ہے۔
اسرائیل کو ایک قانونی ریاست تسلیم نہ کرنے کی وجہ وہ حالات ہیں جن میں اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
اٹھارویں صدی کے اوائل میں ایک جنونی صہیونی تنظیم ( Zionist Movement ) کا قیام عمل میں آیاجس کا مقصد تھا فلسطینی علاقوں پر یہودیوں کے لیے ایک ریاست قائم کرنا۔ فلسطینی سرزمین پر یورپی یہودیوں کو لا کر آباد کرنے کو چارمرحلوں میں تقسیم کیا گیا۔
پہلا مرحلہ یورپی اور امریکی یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے پر اکسایا گیا۔
دوسرا مرحلہ عالمی سپر طاقتوں کو اس مقصد میں امداد حاصل کرنے کے لیے اپروچ کیا گیا
تیسرا مرحلہ فلسطینیوں سے سرزمین خریدنے کا پلان بنایا گیا۔
چوتھا مرحلہ تھا فلسطینی سرزمین پر پرتشدد تحریک شروع کرنا اور طاقت استعمال کر کے فلسطینیوں کو بے گھر کرنا۔
امریکہ اور برطانیہ کی مدد حاصل کر لینے کے بعد فلسطینیوں سے زمین خرید نے کا مرحلہ آیا جسے فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ کہا جاتا ہے فلسطینیوں نے یہودیوں کو اپنی زمین فروخت کی اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے 1880ء کی ایک دستاویز بطور ثبوت پیش کی جاتی ہے۔ ویسے تو اس دستاویز کو خود اسرائیلی تاریخ دانوں نے جھوٹ کہہ کر رد کر دیا مگر مسلم دنیا میں اسرائیل کی وکالت کرنے والے حضرات اس دستاویز کو حوالے کے طور پر ضرور پیش کرتے ہیں ہم ایک ساعت کے لیے اس پیش کردہ دستاویز کوسچ مان بھی لیں تو اس خودساختہ دستاویز کے مطابق موجودہ اسرائیلی رقبے کا صرف پانچ فیصد علاقہ ہی اس میں بیان ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے یہ باقی رقبہ کہاں سے آیا۔ 2016ء میں آئرلینڈ کی پارلیمنٹ میں ایک قراداد پیش کی گئی جس کا مقصد تھا فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کو غیر قانونی اور غاصبانہ قبضہ قرار دینا۔ اس قرارداد پر بحث کے دوران آئرش ممبر اسمبلی کی طرف سے پورے دلائل کے ساتھ اس دستاویز کے پرخچے اڑائے گئے۔ انٹرنیٹ پر گوگل اور یو ٹیوب کے توسط سے آج بھی اس قرارداد کا متن پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
9 جون 1967: اسرائیلی یہودی دیوارِ گریہ پر عبادت کرتے ہوئے
جب فلسطینیوں نے زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا تو پرتشدد کارروائیوں کا آغاز ہو گیا۔ 750,000 فلسطینی مرد، بچے اور عورتیں جبری طور پر اپنے علاقوں سے بے دخل کیے گئے۔
اسرائیلی تاریخ دان لان پاپے اپنی کتاب THE ETHNIC CLEASING OF PALESTINE میں لکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کو جبری طور پر گھروں سے نکالنا ہولوکاسٹ جتنا سنگین جرم ہے اگر ہم اسرائیل کی امن اور سلامتی چاہتے ہیں تو ہمیں فلسطینیوں سے کیے جانے والے اس ظلم پر معافی مانگنی ہو گی۔
ٹائم میگزین کے سابق ایڈیٹر ڈونلڈ نف کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن نہ ہونے کی بنیادی وجہ 1948 ء کے وہ واقعات ہیں جن میں امریکہ اور یورپ کی مدد سے اکثریت کو اقلیت نے جبری اپنے گھروں سے بے گھر کیا۔
کوئنٹ فولکے Count Folke Bernadotte سابق ممبر ریڈکراس جن کے پہچان عالمی جنگ عظیم دوئم میں یہودیوں کے محافظ کے طور پر ہے اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ثالث بھی تعنیات رہے ہیں۔ ان کے بقول فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی سے پہلے اگر اسرائیل کو ریاست کے طور پر تسلیم کروایا جاتا ہے تو یہ کسی بھی طور پر قانونی نہیں ہو گا۔
اس بڑے پیمانے پرہوئی جبری بے دخلی کو تاریخ میں ناکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جبری بے دخلی کے خلاف ہزاروں لاکھوں فلسطینی اور ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ آج بھی مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے غزہ اور مغربی کنارے میں ہونے والاگرینڈ ریٹرن مارچ جس میں اب تک چھ سوفلسطینی بچے عورتیں اور مرد شہید ہو چکے ہیں اسی تاریخی واقعے کی کڑی ہے۔
محترمہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے کالم میں مذہبی تاریخ کا حوالہ دے کر یہودیوں کاسر زمین فلسطین سے تعلق ثابت کرنے کی بھی کوشش کی اس کا جواب مذہبی تاریخ سے ہی بڑی آسانی کے ساتھ دیا جا سکتا اور میرے لیے یہ آسان ہوتا ہے مگر محترمہ ان تمام دلائل اور وجوہات کے بابت جاننا چاہتی ہیں جن کی بدولت آج کے اس ترقی یافتہ وقت میں ہم جیسے لوگ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو بہتر یہی ہے کہ موجودہ دور کے حوالہ جات سے ہی ثابت کیا جائے۔
کسی بھی ریاست کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کو پرکھنے کے لیے اس ریاست کا عالمی قوانین کو لے کر طرز عمل دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایرل شیرون اقوام متحدہ کے فلور پر کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ وہ ایسے کسی عالمی قانون کو نہیں مانتا جو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہو۔ اسرائیلی ریاست اپنے قیام کی طرح آج بھی اپنے غیرقانونی اقدامات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ 1948 ء سے شروع ہونے والی یہ لاقانیت اور بربریت آج بھی جاری ہے۔
2007 ء سے غزہ کا غیر قانونی محاصرہ جاری ہے جس کو تمام دنیا کے انسانی حقوق کے ادارے غیر انسانی قرار دے چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی کثیر تعداد آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ دس سال میں اقوام متحدہ کے کی ڈھیروں ایسی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں اسرائیل کے اقدامات کو عالمی قوانین سے متصادم قرار دیا جا چکا ہے۔ ابھی کچھ ماہ پہلے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے 109 قانون صریحا عالمی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔
مثلا غزہ کے باسی صرف اور صرف اسرائیل سے بہہ کر آنے والا پانی استعمال کر سکتے ہیں وہ غزہ کی سرزمین پر پانی کے لیے کنواں نہیں کھود سکتے اور سینٹاگو کنٹن ( چیئر مین اقوام متحدہ کمیشن برائے فلسطین اور اسرائیل ) کی رپورٹ کے مطابق اس پانی میں اسرائیل کے گٹروں سے ٖفضلہ شامل ہوتا ہے۔
مغربی کنارے میں چیک پوسٹ پرکسی بھی دس سال سے کم عمر بچے کو روک کر اس کی تلاشی لی جا سکتی ہے اور اگر اس کے ہاتھ میلے نظر آئیں تو اس سے مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ و ہ ضرور کسی اسرئیلی چیک پوسٹ پتھراؤ کر کے آیا ہے اور اس جرم کی کم سے کم سزا 45 سال ہے۔
قالیندیا چیک پوسٹ
اسرئیلی پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایک قانون کے مطابق اسرئیلی چیک پوسٹ پر موجود کسی بھی فوجی کو اختیار ہے وہ کسی بھی فلسطینی کو گولی مار سکتا ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ان قوانین کی جن کو عالمی ادارے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کہہ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں تو اس سے الگ ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کو اسرائیل کے غیر قانونی ہونے پر شک ہو تو وہ ان قراداد کی تعداد دیکھ لے جو ہر سال سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جاتی ہیں۔
محترمہ صغرا صاحبہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اسرائیل کوایک ریاست کے طورپرجلد سے جلد تسلیم کرے تا کہ وہ اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جیسا خوبصورت ملک دیکھ سکیں مگر شاید ڈاکٹر صاحبہ نہیں جانتی کہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایک قانون کے مطابق اسرائیلی حکومت کسی بھی غیر ملکی سیاح کو تین سال کے لیے اپنے ملک میں صرف شک کی بنیاد پر قید رکھ سکتے ہیں۔ نیو یارک ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قانون کے تحت اسرائیلی جیلوں میں تقریبا تین سو بیالیس غیر ملکی سیاح قید ہیں۔
محترمہ کے بقول فلسطینی پاکستان سے زیادہ بھارت کو اپنے قریب سمجھتے ہیں۔ حکومتی سطع پر ماضی میں کچھ عرصہ کے لیے یہ پالیسی شاید رہی ہو مگر جہاں تک فلسطینی عوام کی بات ہے وہ پاکستان کو اپنا دوست اور برادر ملک سمجھتے ہیں۔ راقم فلسطین کے حو الے سے منعقد ہونے والی لاتعداد عالمی کانفرنسوں میں شامل رہا ہے۔ اور دعویٰ سے کہتا ہے آج تک کوئی ایسا فلسطینی مشاہدہ میں نہیں آیا جو پاکستان سے زیادہ بھارت کو قریب کہتا ہو۔ عرب اور مسلم دنیا کے اسرائیل سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور ایسا کیوں ہو رہا اس بات کا خلاصہ میں اپنی تحاریرمیں اکثر کرتا رہتا ہوں۔
فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیلی لاقانونیت کے خلاف مسلم امہ سے زیادہ غیر مسلم لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل امریکہ سے ا پنی طاقت ور لابی کو استعمال کر کے یومیہ دس ملین ڈالر امدادکے طور پر لیتا ہے مگر پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پینسٹھ فیصد امریکی اسرائیل ریاست کو عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اندر آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور دوسری طرف امریکہ یورپ اور آسٹریلیا کے عوام اسرائیل کے خلاف صف آراہ ہو رہے ہیں۔
بی۔ ڈی۔ ایس بائیکاٹ اسرائیل کی تحریک کسی مسلمان نے شروع نہیں کی بلکہ اس کو شروع کرنے اور چلانے والے امریکی تھے آج اس تحریک میں پوری دنیا سے لوگ شامل ہو رہے میں۔ لندن، نیویارک، جوہانسبرگ اور سڈنی میں ہونے والے اسرائیل مخالف لاکھوں لوگوں کے اجتماع اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا اسرائیل کی حقیقت جان چکی ہے مگر افسوس ہمارے اپنے لوگ اس کھلے سچ سے واقف نہیں۔