جاسم محمد
محفلین
اسرائیل کیساتھ تعلقات،پاکستانی حکومت کیلئے دلچسپ تجاویز سامنے آنے لگیں
لاہور(صابرشاہ)ایک ایسے موقع پر جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو رواں ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سےقبل بھارت کا ایک مختصر دورہ کرسکتےہیں تو اس دوران پاکستان کےموجودہ وزیراعظم عمران خان کیلئےاپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنےاور یروشلم کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے کیلئے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کچھ "دلچسپ تجاویز"چل رہی ہیں۔ یکم ستمبر 2019 کے ایڈیشن میں 101 سال پرانے تل ابیب کے اسرائیلی اخبار "ہیریٹز" کا کہنا ہے:" وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حمایت کرنے والے فوجیوں نے انتہائی سنسرڈ میڈیا کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر بات کرنے کے حوالے سے غیر معمولی آزادی دے رکھی ہے۔ آج سے 14 سال قبل جب ان ممالک کی واحد عوامی دو طرفہ میٹنگ ہوئی تھی تو اب حالات کسی باقاعدہ اقدام کیلئے مناسب ہیں۔‘‘ 7200 کی اشاعت کیساتھ اس اسرائیلی اخبار نے26 اگست 2019 کو پاکستان کے ایک تجربہ کار صحافی اور ٹیلی ویژن ہوسٹ کی جانب سے کی گئی ٹویٹ کا حوالہ بھی دیا ہے،جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور ان کےکاموں سےکافی واقف ہیں۔پاکستانی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا:اب وقت ہےکہ پاکستان بھارت کی جرات مندانہ خارجہ پالیسی اورنفرت انگیزبھارتی منصوبوں کاجواب دے۔ ہمارے گہرے دوست نئےاتحاد بنارہےہیں۔ کوبئی مستقل دوست یامستقل دشمن نہیں۔ ہم کیوں اسرائیلی ریاست کےساتھ کھلےعام اوربراہ راست بات چیت کےلئےبحث نہیں کرسکتےہیں؟
" اسی پاکستانی صحافی نےاسی دن یک اور ٹویٹ میں اردو میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے اردو ٹویٹ کا انگریزی ترجمہ:" گذشتہ 40 سالوں سے اسرائیل پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مندرہاہے یا کم از کم اس کی طرح کے تعلقات اس نےمتعدد مسلم ممالک کے ساتھ قائم کرلئےہیں۔ ہم نے ہمیشہ اس طرح کی تجاویز کو مسترد کیاتاکہ ہمارے ساتھی مسلم ممالک کواس بارے میں برا نہ لگے۔ لیکن بہت سےمسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھارہے ہیں اور حتٰی کہ پاکستان کے دشمن نریندرمودی کو گلے بھی لگالیا۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے وسیع قومی مفاد میں فوری فیصلے کرے۔ "کچھ سال پہلے،پاکستان اقوام متحدہ کے ان 31 ممبر ممالک میں شامل تھا جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو تسلیم یااس سےسفارتی تعلقات قائم نہیں کیےتھے۔ ان میں شامل ہیں: بحرین، کوموروس ، جبوتی، عراق ، کویت ، لبنان ، لیبیا ، مراکش ، موریتانیا ، عمان ، قطر، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سوڈان ، شام ، تیونس ، صومالیہ ، یمن ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، برونائی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، مالی ، نائجر ، اور پاکستان ، اور بھوٹان ، کیوبا، اورشمالی کوریا۔
لیکن اب ، یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ مختلف ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر ، اسرائیل کے سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب ممالک کی توجہ اسرائیلی فلسطین تنازعہ سے ہٹ کرایرانی خطرے سے نمٹنے پرلگ گئی ہے۔ البتہ اسرائیل اور سعودی عرب نے کوئی سرکاری سفارتی تعلقات قائم نہیں کیےہیں،دونوں فریق ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1948 کی عرب اسرائیلی جنگ میں سعودی عرب کے فوجیوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا،اورمصری کمانڈ کے تحت لڑنے کے لئے تقریبا 1،000 فوجیوں بھیجےتھے۔ اس وقت سعودیوں نے اسرائیل کی مخالفت میں مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے عرب لیگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سعودیہ عرب نے 1973 میں بھی "یوم کپورجنگ" میں حصہ لیا تھا ، شام میں عرب افواج کی مدد کے لئے تقریبا2000وجیوں کو بھیجا تھا۔ . جب مصر نے اسرائیلیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تو سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں نے مصر کےساتھ امداد اور سفارتی تعلقات منقطع کرکے اپنی ناراضگی کااظہار کیا۔ تقریباًایک دہائی کےبعد سعودی عرب نےان ٹوٹےہوئےتعلقات کوازسرنوتشکیل دیا۔سنہ 2019 میں لندن کے"مڈل ایسٹ مانیٹر" نے رپورٹ کیا: "اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے ایک سابق رکن نےانکشاف کیاہےکہ سعودی عرب اسرائیل سےقدرتی گیس خریدناچاہتاہے۔ سابق وزیرِمواصلات ایوب کارانےیروشلم میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہاکہ دونوں ممالک نےایک پائپ لائن بنانےکےبارےمیں تبادلہ خیال کیاجوسعودی عرب جنوبی اسرائیلی شہر ایلاٹ سےداخل ہوگی جو خلیجِ عقبہ میں واقع ہے۔ جن معاہدوں پربات چیت کی گئی تھی وہ دس سال قبل اسرائیلی سمندروں میں بڑی مقدارمیں قدرتی گیس کی دریافت سے شروع ہوئی تھی۔ جس کےلئےگیس کےذخیرہ کرنے والی کمپنیاں پہلے ہی 25 ارب ڈالرکے معاہدوں پر دستخط کرچکی تھیں، لیکن اس کے باوجود 80 فیصدسے زائدوسائل دوسرے خریداروں کودستیاب تھے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین یہ بات چیت اس امید کے ساتھ کی گئی کہ سعودی عرب اُس خلا کو پُر کرے گا،اپنی سستی بجلی کی ضرورت کوپورا کرنے کیلئے گیس میں یہ اس سے چھ گنازیادہ سرمایہ کاری کرنا اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔
متحدہ عرب امارات کے معاملے میں "ٹائمز آف اسرائیل" نے یہ رپورٹ کیا:"متحدہ عرب امارات کےایک سینئر وزیر نےاسرائیل اور عرب تعلقات میں" اسٹریٹجک تبدیلی"کامطالبہ کرتےہوئےکہاہےکہ یہودی ریاست کابائیکاٹ کرنے کےعرب دنیاکادہائیوں پرانافیصلہ غلط تھا۔ "اسرائیلی میڈیا ہاؤس نےمتحدہ عرب امارات کےوزیرمملکت برائے امورخارجہ انورگرگش کےحوالےسےکہا: "بہت سال پہلے، جب اسرائیل کےساتھ رابطےنہ کرنے کاعرب فیصلہ آیا تھا،تویہ بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔"مارچ 2019 میں برطانوی اخبار" دی گارڈین "نے لکھا:" کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد ایران سے مشترکہ نفرت اور ٹرمپ کیلئےمشترکہ پسندیدگی سے اسرائیل کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ خفیہ روابط سامنے آرہےہیں۔ فروری 2019 کے وسط میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوایک انتہائی غیر معمولی کانفرنس کے لئے وارسا روانہ ہوئے۔ امریکی نائب صدرمائک پینس کی زیرنگرانی انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دودیگر خلیجی ریاستوں کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی جن کےاسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ایجنڈے کی اصل چیز ایران پر مشتمل تھی۔ وہاں کوئی فلسطینی موجود نہیں تھا۔ اسرائیل اور خلیجی ممالک کےدرمیان بیشتر موجودہ روابط کو خفیہ رکھا گیا ہے - لیکن یہ بات چیت خفیہ نہیں رکھی گئی۔"
اس میں مزیدکہاگیا:" نیتن یاہوکی وارسا میں سعودیوں اور اماراتیوں کے ساتھ ملاقات مشرق وسطی کی اس بدلتی حقیقت کی پہلی ڈرامائی جھلک نہیں تھی۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں سلطان قابوس بن سعیدکے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اسی دن ان کی لیکود پارٹی کی ساتھی وزیر ِبرائےثقافت اورکھیل ماری ریگیو متحدہ عرب امارات میں ابو ظہبی کے دورے پر تھیں ، اسی دوران اسرائیلی کھلاڑی قطر کےقریب ہی دوحہ میں حصہ لے رہے تھے۔اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)کےچھ اراکین میں سے پانچ کےدرمیان تیزی سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں۔ "آئیے پاک اسرائیل تعلقات اور ٹائم لائن پر ایک نظر ڈالیں: اسرائیل اور پاکستان کے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں ، اور پاکستانی پاسپورٹ میں لکھا ہے: "یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے لئےہے۔" پاکستان اوراسرائیل دونوں ہی 1947 میں نظریاتی اعلانات پر قائم ہوئےتھے۔ پاکستان کیلئے یہ مشہور "دو قومی نظریہ" تھا، اسرائیل کیلئےیہ"یہودی عوام کے لئےہوم لینڈ" کےنظریے پر مبنی تھا۔
پاکستان اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947 میں کی گئی تھی ، جب اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون تھا، اس نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا، لیکن بعدمیں آنےوالوں نے اس پر کوئی خاص ردِعمل نہیں دیا۔1949 میں فلپائن کی ایئرلائنز کےذریعے منیلا سےلندن سروس کےباعث کراچی اورلود(تل ابیب ) کےدرمیان براہ راست ہوائی رابطہ قائم ہوا ، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان دونوں کےدرمیان ٹریفک کےحقوق موجودتھےیانہیں، جس سے مسافروں کواس راستے پر سفراورکارگوکی اجازت ہو۔ (حوالہ: فلپائن ایئر لائنز 22 اکتوبر 1949 کا ٹائم ٹیبل) لندن میں پاکستان کے سفیر (ہائی کمشنر) اور اسرائیل کے نمائندوں کے درمیان کچھ ابتدائی رابطہ 1950 کے اوائل میں ہوا تھا تاکہ کراچی میں سفارتخانہ کھولاجاسکے،یا کم از کم آزادانہ طورپرتجارت ہوسکے۔ پھر اس کے بعد نیو یارک میں پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اور امریکہ میں اسرائیل کےسفیراباایبان کے درمیان جنوری 1953 میں اسرائیلی اورپاکستانی تعلقات پرتبادلہ خیال کے لئے ایک ملاقات ہوئی تھی۔(حوالہ: دی جیوئش پالیٹکل ریوئیو)
اپنی کتاب ’’چارلی ولسن کی جنگیں‘‘ میں "سی بی ایس نیوز" سےوابستہ ایک امریکی صحافی جارج کریل نے دعویٰ کیاکہ" 1980 اور 1988 کےدرمیان امریکی سی آئی اے ، اسرائیلی جاسوس ایجنسی موساد ، پاکستانی آئی ایس آئی اوربرطانوی جاسوس ایجنسی ایم آئی5 نےافغانستان میں سوویت یونین کونکالنےکے لئے "آپریشن سائکلون" کے نام سے ایک خفیہ آپریشن کیاتھا۔ امریکی صحافی نے دعوی کیاکہ اس کارروائی کے دوران اسرائیل اور پاکستان کے مابین اپنی خفیہ ایجنسیوں کے توسط سے اعلی سطح کےمعاملات بھی ہوئے ، ان میں ملٹری معاہدے اور پاکستان کو سوویت ہتھیاروں کی فراہمی اوراسرائیلی حمایت بھی شامل تھی۔ اپنی کتاب میں صحافی جارج کیریل نے مزید انکشاف کیاکہ کہ 1993 کے دوران سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹونے پاک فوج کےملٹری آپریشنزکےڈائریکٹرجنرل پرویز مشرف کےساتھ مل کر آئی ایس آئی کے موسادکے ساتھ رابطوں کوبڑھایا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر نے1995 میں امریکاکےدورےکےدوران ایک سینئر اسرائیلی سفیر سے نیویارک میں خفیہ ملاقات کی تھی۔ بی بی سی نیوز نے رپورٹ کیاتھا 2003 میں پاکستانی صدرپرویزمشرف نےاسرائیل کےساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات کامعاملہ اٹھایاتھا۔چینی "ژنہوانیوزایجنسی"نےرپورٹ کیا کہ2005 میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرائےخارجہ نےپہلی بارملاقات کیا، اگرچہ اس اجلاس کے بعد ، جنرل مشرف نے زور دے کر کہا تھا کہ جب تک آزاد فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی اس وقت تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک دہائی پہلے سے ہی "وکی لیکس" نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل نے استنبول میں اپنے سفارت خانوں کو ایک دوسرے سے ثالثی یا تبادلہ خیال کے لئے استعمال کیا تھا۔ مذکورہ بالا این جی اوکےمطابق 2010میں پاکستان نے ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں اسرائیل کومعلومات فراہم کرنے کے لئے استنبول میں اپنا سفارت خانہ استعمال کیا تھا۔ "پریس ٹرسٹ آف انڈیا" کےمطابق ،2011 میں اسرائیل نےمبینہ طورپر برطانوی فوجی ٹکنالوجی پاکستان کو برآمد کی تھی۔ اسرائیلی اخبار"ہیریٹز"نےرپورٹ کیاکہ2015 میں ایک اسرائیلی سائنسدان رمزی سلیمان نے لاہور میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے زیر اہتمام سائنس میلےمیں شرکت کی تھی۔
2017 میں بھارت کےسرکاری دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ان باتوں کومستردکردیا تھا کہ بھارت کےساتھ ان کے تعلقات پاکستان کےلئےخطرہ ہیں۔ ایک پاکستانی اخبار نے ان کے حوالے سے کہا ہے کہ: "ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہیں اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں بننا چاہئے۔" بھارت اور اسرائیل کےدوطرفہ تجارتی اعدادوشمار: پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے برعکس اسرائیل نے 1992 میں مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات پروان چڑھے۔ 390.656ارب ڈالر کےمعمولی جی ڈی پی اور43،199 ڈالر فی کس برائے نام جی ڈی پی کےساتھ 2018میں اسرائیل کادوطرفہ تجارتی حجم 5.84ارب ڈالر (دفاعی تعاون کو چھوڑ کر)تھا۔ اسرائیل میں بھارتی سفارتخانے کےمطابق دو طرفہ تجارت کاتوازن 1.8ارب ڈالر کےساتھ بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت اسرائیل سے اہم دفاعی ٹیکنالوجی درآمد کرتاہے۔ مسلح افواج کے درمیان باقاعدگی سے تبادلے ہوتے ہیں۔ بھارت 38،000 سے زیادہ اسرائیلیوں کی پسندیدہ جگہ ہےجو ہر سال سیاحت اور کاروبار کے لئےبھارت جاتے ہیں۔ 2013 میں 40،000 سے زائد بھارتی شہری اسرائیل گئے، جواسرائیل جانےوالےکسی ایشیائی ملک کےسیاحوں کی سب سےبڑی تعدادہے۔
لاہور(صابرشاہ)ایک ایسے موقع پر جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو رواں ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سےقبل بھارت کا ایک مختصر دورہ کرسکتےہیں تو اس دوران پاکستان کےموجودہ وزیراعظم عمران خان کیلئےاپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنےاور یروشلم کے ساتھ کسی قسم کا تعلق قائم کرنے کیلئے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کچھ "دلچسپ تجاویز"چل رہی ہیں۔ یکم ستمبر 2019 کے ایڈیشن میں 101 سال پرانے تل ابیب کے اسرائیلی اخبار "ہیریٹز" کا کہنا ہے:" وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حمایت کرنے والے فوجیوں نے انتہائی سنسرڈ میڈیا کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر بات کرنے کے حوالے سے غیر معمولی آزادی دے رکھی ہے۔ آج سے 14 سال قبل جب ان ممالک کی واحد عوامی دو طرفہ میٹنگ ہوئی تھی تو اب حالات کسی باقاعدہ اقدام کیلئے مناسب ہیں۔‘‘ 7200 کی اشاعت کیساتھ اس اسرائیلی اخبار نے26 اگست 2019 کو پاکستان کے ایک تجربہ کار صحافی اور ٹیلی ویژن ہوسٹ کی جانب سے کی گئی ٹویٹ کا حوالہ بھی دیا ہے،جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور ان کےکاموں سےکافی واقف ہیں۔پاکستانی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا:اب وقت ہےکہ پاکستان بھارت کی جرات مندانہ خارجہ پالیسی اورنفرت انگیزبھارتی منصوبوں کاجواب دے۔ ہمارے گہرے دوست نئےاتحاد بنارہےہیں۔ کوبئی مستقل دوست یامستقل دشمن نہیں۔ ہم کیوں اسرائیلی ریاست کےساتھ کھلےعام اوربراہ راست بات چیت کےلئےبحث نہیں کرسکتےہیں؟
" اسی پاکستانی صحافی نےاسی دن یک اور ٹویٹ میں اردو میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے اردو ٹویٹ کا انگریزی ترجمہ:" گذشتہ 40 سالوں سے اسرائیل پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مندرہاہے یا کم از کم اس کی طرح کے تعلقات اس نےمتعدد مسلم ممالک کے ساتھ قائم کرلئےہیں۔ ہم نے ہمیشہ اس طرح کی تجاویز کو مسترد کیاتاکہ ہمارے ساتھی مسلم ممالک کواس بارے میں برا نہ لگے۔ لیکن بہت سےمسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو پروان چڑھارہے ہیں اور حتٰی کہ پاکستان کے دشمن نریندرمودی کو گلے بھی لگالیا۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے وسیع قومی مفاد میں فوری فیصلے کرے۔ "کچھ سال پہلے،پاکستان اقوام متحدہ کے ان 31 ممبر ممالک میں شامل تھا جو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو تسلیم یااس سےسفارتی تعلقات قائم نہیں کیےتھے۔ ان میں شامل ہیں: بحرین، کوموروس ، جبوتی، عراق ، کویت ، لبنان ، لیبیا ، مراکش ، موریتانیا ، عمان ، قطر، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، سوڈان ، شام ، تیونس ، صومالیہ ، یمن ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، برونائی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، مالی ، نائجر ، اور پاکستان ، اور بھوٹان ، کیوبا، اورشمالی کوریا۔
لیکن اب ، یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ مختلف ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر ، اسرائیل کے سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ایک غیر معمولی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عرب ممالک کی توجہ اسرائیلی فلسطین تنازعہ سے ہٹ کرایرانی خطرے سے نمٹنے پرلگ گئی ہے۔ البتہ اسرائیل اور سعودی عرب نے کوئی سرکاری سفارتی تعلقات قائم نہیں کیےہیں،دونوں فریق ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1948 کی عرب اسرائیلی جنگ میں سعودی عرب کے فوجیوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا،اورمصری کمانڈ کے تحت لڑنے کے لئے تقریبا 1،000 فوجیوں بھیجےتھے۔ اس وقت سعودیوں نے اسرائیل کی مخالفت میں مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے عرب لیگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سعودیہ عرب نے 1973 میں بھی "یوم کپورجنگ" میں حصہ لیا تھا ، شام میں عرب افواج کی مدد کے لئے تقریبا2000وجیوں کو بھیجا تھا۔ . جب مصر نے اسرائیلیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تو سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں نے مصر کےساتھ امداد اور سفارتی تعلقات منقطع کرکے اپنی ناراضگی کااظہار کیا۔ تقریباًایک دہائی کےبعد سعودی عرب نےان ٹوٹےہوئےتعلقات کوازسرنوتشکیل دیا۔سنہ 2019 میں لندن کے"مڈل ایسٹ مانیٹر" نے رپورٹ کیا: "اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے ایک سابق رکن نےانکشاف کیاہےکہ سعودی عرب اسرائیل سےقدرتی گیس خریدناچاہتاہے۔ سابق وزیرِمواصلات ایوب کارانےیروشلم میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہاکہ دونوں ممالک نےایک پائپ لائن بنانےکےبارےمیں تبادلہ خیال کیاجوسعودی عرب جنوبی اسرائیلی شہر ایلاٹ سےداخل ہوگی جو خلیجِ عقبہ میں واقع ہے۔ جن معاہدوں پربات چیت کی گئی تھی وہ دس سال قبل اسرائیلی سمندروں میں بڑی مقدارمیں قدرتی گیس کی دریافت سے شروع ہوئی تھی۔ جس کےلئےگیس کےذخیرہ کرنے والی کمپنیاں پہلے ہی 25 ارب ڈالرکے معاہدوں پر دستخط کرچکی تھیں، لیکن اس کے باوجود 80 فیصدسے زائدوسائل دوسرے خریداروں کودستیاب تھے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین یہ بات چیت اس امید کے ساتھ کی گئی کہ سعودی عرب اُس خلا کو پُر کرے گا،اپنی سستی بجلی کی ضرورت کوپورا کرنے کیلئے گیس میں یہ اس سے چھ گنازیادہ سرمایہ کاری کرنا اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔
متحدہ عرب امارات کے معاملے میں "ٹائمز آف اسرائیل" نے یہ رپورٹ کیا:"متحدہ عرب امارات کےایک سینئر وزیر نےاسرائیل اور عرب تعلقات میں" اسٹریٹجک تبدیلی"کامطالبہ کرتےہوئےکہاہےکہ یہودی ریاست کابائیکاٹ کرنے کےعرب دنیاکادہائیوں پرانافیصلہ غلط تھا۔ "اسرائیلی میڈیا ہاؤس نےمتحدہ عرب امارات کےوزیرمملکت برائے امورخارجہ انورگرگش کےحوالےسےکہا: "بہت سال پہلے، جب اسرائیل کےساتھ رابطےنہ کرنے کاعرب فیصلہ آیا تھا،تویہ بہت ہی غلط فیصلہ تھا۔"مارچ 2019 میں برطانوی اخبار" دی گارڈین "نے لکھا:" کئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد ایران سے مشترکہ نفرت اور ٹرمپ کیلئےمشترکہ پسندیدگی سے اسرائیل کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ خفیہ روابط سامنے آرہےہیں۔ فروری 2019 کے وسط میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوایک انتہائی غیر معمولی کانفرنس کے لئے وارسا روانہ ہوئے۔ امریکی نائب صدرمائک پینس کی زیرنگرانی انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دودیگر خلیجی ریاستوں کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی جن کےاسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ ایجنڈے کی اصل چیز ایران پر مشتمل تھی۔ وہاں کوئی فلسطینی موجود نہیں تھا۔ اسرائیل اور خلیجی ممالک کےدرمیان بیشتر موجودہ روابط کو خفیہ رکھا گیا ہے - لیکن یہ بات چیت خفیہ نہیں رکھی گئی۔"
اس میں مزیدکہاگیا:" نیتن یاہوکی وارسا میں سعودیوں اور اماراتیوں کے ساتھ ملاقات مشرق وسطی کی اس بدلتی حقیقت کی پہلی ڈرامائی جھلک نہیں تھی۔ گذشتہ اکتوبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں سلطان قابوس بن سعیدکے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اسی دن ان کی لیکود پارٹی کی ساتھی وزیر ِبرائےثقافت اورکھیل ماری ریگیو متحدہ عرب امارات میں ابو ظہبی کے دورے پر تھیں ، اسی دوران اسرائیلی کھلاڑی قطر کےقریب ہی دوحہ میں حصہ لے رہے تھے۔اسرائیل اور خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)کےچھ اراکین میں سے پانچ کےدرمیان تیزی سے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں۔ "آئیے پاک اسرائیل تعلقات اور ٹائم لائن پر ایک نظر ڈالیں: اسرائیل اور پاکستان کے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں ، اور پاکستانی پاسپورٹ میں لکھا ہے: "یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے لئےہے۔" پاکستان اوراسرائیل دونوں ہی 1947 میں نظریاتی اعلانات پر قائم ہوئےتھے۔ پاکستان کیلئے یہ مشہور "دو قومی نظریہ" تھا، اسرائیل کیلئےیہ"یہودی عوام کے لئےہوم لینڈ" کےنظریے پر مبنی تھا۔
پاکستان اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947 میں کی گئی تھی ، جب اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون تھا، اس نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک ٹیلیگرام بھیجا تھا، لیکن بعدمیں آنےوالوں نے اس پر کوئی خاص ردِعمل نہیں دیا۔1949 میں فلپائن کی ایئرلائنز کےذریعے منیلا سےلندن سروس کےباعث کراچی اورلود(تل ابیب ) کےدرمیان براہ راست ہوائی رابطہ قائم ہوا ، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان دونوں کےدرمیان ٹریفک کےحقوق موجودتھےیانہیں، جس سے مسافروں کواس راستے پر سفراورکارگوکی اجازت ہو۔ (حوالہ: فلپائن ایئر لائنز 22 اکتوبر 1949 کا ٹائم ٹیبل) لندن میں پاکستان کے سفیر (ہائی کمشنر) اور اسرائیل کے نمائندوں کے درمیان کچھ ابتدائی رابطہ 1950 کے اوائل میں ہوا تھا تاکہ کراچی میں سفارتخانہ کھولاجاسکے،یا کم از کم آزادانہ طورپرتجارت ہوسکے۔ پھر اس کے بعد نیو یارک میں پاکستانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اور امریکہ میں اسرائیل کےسفیراباایبان کے درمیان جنوری 1953 میں اسرائیلی اورپاکستانی تعلقات پرتبادلہ خیال کے لئے ایک ملاقات ہوئی تھی۔(حوالہ: دی جیوئش پالیٹکل ریوئیو)
اپنی کتاب ’’چارلی ولسن کی جنگیں‘‘ میں "سی بی ایس نیوز" سےوابستہ ایک امریکی صحافی جارج کریل نے دعویٰ کیاکہ" 1980 اور 1988 کےدرمیان امریکی سی آئی اے ، اسرائیلی جاسوس ایجنسی موساد ، پاکستانی آئی ایس آئی اوربرطانوی جاسوس ایجنسی ایم آئی5 نےافغانستان میں سوویت یونین کونکالنےکے لئے "آپریشن سائکلون" کے نام سے ایک خفیہ آپریشن کیاتھا۔ امریکی صحافی نے دعوی کیاکہ اس کارروائی کے دوران اسرائیل اور پاکستان کے مابین اپنی خفیہ ایجنسیوں کے توسط سے اعلی سطح کےمعاملات بھی ہوئے ، ان میں ملٹری معاہدے اور پاکستان کو سوویت ہتھیاروں کی فراہمی اوراسرائیلی حمایت بھی شامل تھی۔ اپنی کتاب میں صحافی جارج کیریل نے مزید انکشاف کیاکہ کہ 1993 کے دوران سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹونے پاک فوج کےملٹری آپریشنزکےڈائریکٹرجنرل پرویز مشرف کےساتھ مل کر آئی ایس آئی کے موسادکے ساتھ رابطوں کوبڑھایا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر نے1995 میں امریکاکےدورےکےدوران ایک سینئر اسرائیلی سفیر سے نیویارک میں خفیہ ملاقات کی تھی۔ بی بی سی نیوز نے رپورٹ کیاتھا 2003 میں پاکستانی صدرپرویزمشرف نےاسرائیل کےساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات کامعاملہ اٹھایاتھا۔چینی "ژنہوانیوزایجنسی"نےرپورٹ کیا کہ2005 میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرائےخارجہ نےپہلی بارملاقات کیا، اگرچہ اس اجلاس کے بعد ، جنرل مشرف نے زور دے کر کہا تھا کہ جب تک آزاد فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی اس وقت تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک دہائی پہلے سے ہی "وکی لیکس" نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل نے استنبول میں اپنے سفارت خانوں کو ایک دوسرے سے ثالثی یا تبادلہ خیال کے لئے استعمال کیا تھا۔ مذکورہ بالا این جی اوکےمطابق 2010میں پاکستان نے ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں اسرائیل کومعلومات فراہم کرنے کے لئے استنبول میں اپنا سفارت خانہ استعمال کیا تھا۔ "پریس ٹرسٹ آف انڈیا" کےمطابق ،2011 میں اسرائیل نےمبینہ طورپر برطانوی فوجی ٹکنالوجی پاکستان کو برآمد کی تھی۔ اسرائیلی اخبار"ہیریٹز"نےرپورٹ کیاکہ2015 میں ایک اسرائیلی سائنسدان رمزی سلیمان نے لاہور میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے زیر اہتمام سائنس میلےمیں شرکت کی تھی۔
2017 میں بھارت کےسرکاری دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ان باتوں کومستردکردیا تھا کہ بھارت کےساتھ ان کے تعلقات پاکستان کےلئےخطرہ ہیں۔ ایک پاکستانی اخبار نے ان کے حوالے سے کہا ہے کہ: "ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہیں اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں بننا چاہئے۔" بھارت اور اسرائیل کےدوطرفہ تجارتی اعدادوشمار: پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے برعکس اسرائیل نے 1992 میں مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات پروان چڑھے۔ 390.656ارب ڈالر کےمعمولی جی ڈی پی اور43،199 ڈالر فی کس برائے نام جی ڈی پی کےساتھ 2018میں اسرائیل کادوطرفہ تجارتی حجم 5.84ارب ڈالر (دفاعی تعاون کو چھوڑ کر)تھا۔ اسرائیل میں بھارتی سفارتخانے کےمطابق دو طرفہ تجارت کاتوازن 1.8ارب ڈالر کےساتھ بھارت کے حق میں ہے۔ بھارت اسرائیل سے اہم دفاعی ٹیکنالوجی درآمد کرتاہے۔ مسلح افواج کے درمیان باقاعدگی سے تبادلے ہوتے ہیں۔ بھارت 38،000 سے زیادہ اسرائیلیوں کی پسندیدہ جگہ ہےجو ہر سال سیاحت اور کاروبار کے لئےبھارت جاتے ہیں۔ 2013 میں 40،000 سے زائد بھارتی شہری اسرائیل گئے، جواسرائیل جانےوالےکسی ایشیائی ملک کےسیاحوں کی سب سےبڑی تعدادہے۔