ربیع م
محفلین
اسرائیل کی عسکری جمہوریت، آمریت سے بدتر
ہفتہ 17 محرم 1437ه۔ - 31 اکتوبر 2015ماسی کی دہائی میں سیاسیات کی تعلیم کے دوران میں اور میرے یونیورسٹی کے ساتھی اکثر شکایت کیا کرتے تھے کہ اسرائیلی معاشرے میں جمہوری روایات تیزی سے زوال پذیر ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد ملک میں سیاسی اختلافات گہرے ہو رہے تھے ۔ہم لوگ فلسطین پر صہیونی قبضہ کے خلاف تھے جس نے فلسطینی عوام کو ان کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا تھا اور اب ان کے حق خود ارادیت کو بھی چھین لیا تھا۔ ہم اس بات کی شدید مذمت کرتے تھے کہ شمالی سرحدوں پر اس غیر ضروری اور تباہ کن جنگ کے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
طلبہ میں بہت مقبول ایک پروفیسر بھی ہمارے ہم خیال تھے مگر وہ اکثر کہتے تھے کہ جن ملکوں سے ہمارے والدین ہجرت کر کے آئے ہیں ان کی اکثریت میں جمہوری روایات پر بہت کم عمل ہوتا ہے اور اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیلی جمہوریت کو اس کی خامیوں سمیت ایک ننھا سا معجزہ ہی سمجھنا چاہیے۔ فکری طور پر میں دلیل کو سمجھ سکتا تھا مگر میں اس سے متفق نہیں تھا۔ اس دلیل کو قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اس ملک کو گھٹیا درجے کی جمہوریت کے طور پر قبول کر لیا جائے اور اس لیے خصوصی رعایتیں دی جائیں کیونکہ اس کے شہری مختلف علاقوں سے آئے ہیں۔
پچھلی تین دہائیوں کے دوران مجھے اسرائیلی جمہوریت کے تصور پر غور کا کئی مرتبہ موقع ملا،کبھی کبھی اس میں میرے طلبا بھی شامل رہے، اور ہم بڑی تشویش کے ساتھ اسرائیلی معاشرے میں جمہوری اقدار کی مسلسل تنزلی کا مشاہدہ کرتے رہے۔ جمہوری روایات کی مسلسل تباہی بالخصوص اظہار رائے پر پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا اسرائیلی معاشرے کے سماجی رویوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور بڑی حد تک اس کی ذمہ داری لاکھوں فلسطینیوں کو جبری قبضے میں رکھنے اور ان پر غذا اور ادویہ کی ناکہ بندی کرنے سے ہے۔ جمہوری اقدار کی اس تباہی کا ایک واضح اظبار گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی اس قانون سازی سے ہوتا ہے جس کے تحت اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کی آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں کو قانوناً بہت محدود کر دیا ہے کیونکہ وہ اس کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلی کابینہ کی قانون ساز کمیٹی نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ایسے لوگوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی ہو گی جو فلسطینیوں کی ان کی زمینوں سے جبری بے دخلی پر اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ اور پابندیوں کے حامی ہوں۔ اگرچہ یہ بل مخلوط حکومت میں شامل کٹر انتہا پسند پارٹی کے رکن ایم کے ینون مگل نے پیش کیا ہے لیکن اس کی حمایت زیادہ اعتدال پسند جماعتوں نے بھی کی ہے۔ اس بل کی ابھی اسرائیلی پارلیمنٹ [نیسٹ] سے منظوری باقی ہے اور یہ حالیہ دنوں میں کی گئی غیر جمہوری اور انتہا پسندانہ قانون سازیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے جن میں قابل ذکر مجوزہ نیشن اسٹیٹ لاء جس کا مقصد تمام غیر یہودیوں کہ بنیادی حقوق سے محروم کرنا، اور ایسی این جی اوز جو فلسطین اسرائیل تنازع پر کام کرتی ہوں پر بھاری ٹیکس لگانا اور ان کی غیر ملکی امداد بند کرنا ہے۔ اگرچہ کچھ متنازعہ بل ماضی میں قانون نہیں بن سکے مگر اس سے ایک خطرناک رجحان کی عکاسی ہوتی ہے جس کا مقصد اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور کثرت پسندی کے تصور کی نفی کرنا ہے۔
غیر یہودیوں کو کمزور اور بے حیثیت کرنا
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نیشن اسٹیٹ لاء کا مقصد تمام غیر یہودیوں کو پسماندہ اور بے حیثیت بنانا ہے۔ اس سے اسرائیل کی بیس فیصد عرب آبادی کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے۔ اگر یہ قانون بن گیا تو اسرائیل ایک متعصبانہ صہیونی رجحانات رکھنے والی یہودی ریاست کے آمیزے کے طور پر باقی نہیں رہے گا۔ متعدد اسرائیلی قانون دان اور دانشور اسرائیلی جمہوریت کو ایک دفاعی یا عسکری جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ عام طور پر اس تعریف سے مراد ایسی جمہوریت ہوتی ہے جو دشمنوں سے اپنا دفاع کرتی ہے، خاص طور پر ایسے دشمن جو جمہوری نظام کے ذریعے اقتدار تک اس لیے پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ اس کو تباہ کر سکیں۔ اسرائیل میں جمہوریت کے دفاع کے معنی اس سے زیادہ وسیع اور مشکل ہیں۔ مثلاً یہ ریاست کو دہشت گردی سے مقابلہ کے نام پر انسانی حقوق پامالی کا لائسنس دیتا ہے اور ہر ایسے شخص کا پارلیمانی الیکشن لڑنا ممنوع کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اسرائیل کی یہودیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہی چیز جمہوریت کے لیے اصل خطرہ ہے۔
جب تک ایک جامع اور مقبول آئین نہیں ہو گا اورجمہوری رویوں کے لیے لازمی معیارات کی سختی سے پابندی نہیں ہو گی اس وقت تک جمہوریت ہی سیاستدانوں کے مفادات اور خواہشات کی بھینٹ چڑھتی رہے گی۔ اسرائیل کے خلاف بی ڈی ایس (boycott, divestmet and santions) کے نفاذ کے فوائد اور نقصانات پر بحث بالکل جائز ہے لیکن اس کے حامیوں کے ملک میں داخلے کو روکنا آزادی اظہار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں ایسا کرنے سے اس کے حامیوں اور مخالفین میں متحرک اور پرمغز بحث کے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیلی ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے حالیہ سروے کے مطابق اسرائیل کے یہودی شہریوں کی اکثریت نہ صرف جمہوری حقوق سے آگاہ ہے بلکہ ان کے نفاذ کی حمایت بھی کرتی ہے۔ سروے کے مطابق 43 فیصد یہودی آبادی کے خیال میں یہودیوں کو عربوں سے زیادہ حقوق نہیں حاصل ہونے چاہئیں تاہم پچاس فیصد یہودی عربوں کے پڑوس میں رہنا نہیں چاہتے اور 74 فیصد چاہتے ہیں کہ امن اور سلامتی کے فیصلے یہودی اکثریت کو ہی کرنے چاہئیں۔ یہ اعداد وشمار اسرائیلی معاشرے کی یہودی آبادی میں جمہوری اقدار کی حمایت اور ان کے نفاذ کے مابین تضادات کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس تضاد کا باعث سیاسی قیادت ہے بالخصوص دائیں بازو کی انتہا پسند قیادت، اگرچہ کلی طور پر نہیں کیونکہ اس کی بقاء کا انحصار لوگوں میں مخالفین کا خوف طاری رکھنے میں ہے۔ اس بحث کی جگہ اب اندھا دھند اور طویل مدتی پالیسیاں لیتی جا رہی ہیں۔ ایسی قانون سازی جس کا مقصد امن کے کارکنوں اور لبرل لوگوں کو خاموش کرنا اور بیرونی دنیا میں اسرائیل کے ناقدین پر پابندی لگانا ہو، ملک کے مستقبل اور دنیا میں اسرائیل کی شہرت کو سخت نقصان پہنچائے گی۔ فلسطین پر قبضے کے گناہ دیگر غلطیوں کے باوجود اسرائیل کی کامیابیوں اور خوشحالی کی وجہ اس کا ایک آزاد خیال اور جمہوری ریاست ہونا ہے۔ متعصبانہ اور جمہوریت دشمن قانون سازی اور رویوں کو پنپنے کا موقع دینا ایک ایسی پھسلواں ڈھلان ہے جو اسرائیل کے جمہوری اور یہودی ریاست کےخواب کے چکنا چور ہونے تک نہ رکے گی۔