اسرائیل کی غزہ پر حملے کی بڑی وجہ سامنے آگئی

ربط
اسرائیل کی غزہ پر حملے کی بڑی وجہ سامنے آگئی
news-1405795387-8234.jpg

لندن(نیوز ڈیسک)انٹرنیشنل سیکورٹی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر نفیز احمد نے معتبر برطانوی اخبار گارڈین میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کی اصل وجہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف غزہ کے ساحل کے قریب دریافت ہونے والے 1.4 کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر ہیں جن پر قبضہ کرنے کیلئے غزہ پر آگ برسائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر نفیز نے موجودہ اسرائیلی وزیر دفاع کے ان بیانات کا حوالہ دیا ہے کہ 2007میں غزہ پر حملے کرتے وقت دیئے گئے تھے جب وہ اسرائیلی افواج کے سربراہ تھے ۔موشے یالون کا مﺅقف تھا کہ فلسطینیوں کے گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اسرائیل کے اپنے ذخائر پر آئندہ چند دہائیوں میں ختم ہونے والے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فلسطینی خود ان ذخائر سے گیس نکالیں گے تو اس کے فوائد اسرائیل کی دشمن تنظیم حماس کو بھی پہنچیں گے جو مضبوط ہو کر اوربڑا خطرہ ثابت ہوگی اس لئے اسرائیل نے یہ ضروری قرار دیا تھا کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑا جائے اور اس مقصد کیلئے 2007میں” آپریشن کاسٹ لیڈ“کا آغاز کیا گیا لیکن 1387فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود حماس کا خاتمہ نہ ہو سکا۔اس وقت اسرائیل عملی طور پر فلسطین کے تمام معدنی ذرائع ،ساحلوں اور سمندروں کا استعمال کر رہا ہے اور مستقبل میں فلسطینی گیس کے ذخائر کو اسرائیلی ذخائر کا حصہ بنانے کیلئے دوبارہ غزہ پر حملہ کر دیا گیا ہے۔اسرائیل کے دو چیف سائنسدان اپنی حکومت کو بتا چکے ہیں کہ ملک کے معدنی ذرائع خصوصا گیس ضرورت سے بہت کم ہے ۔2020تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر اب اسرائیل فلسطینی معدنی ذرائع پر قبضے کو ازحد ضروری سمجھ رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہذزرائع غزہ کے ساحل کے قریب واقع ہیں اور غزہ حماس کے زیراثر ہے۔اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے اسرائیل نے ایک دفعہ پھر حماس کے خاتمہ کیلئے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے اور غزہ کی عوام کو حماس کی حمایت کی سزا دینے کیلئے بڑے پیمانے پربمبوں اورمیزائلوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔غزہ کی جنگ دراصل فلسطینی مسلمانوں کو ان کی زمین اور قدرتی وسائل سے ہمیشہ کیلئے محروم کرنے کی جنگ ہے تاکہ یہ زمین اور وسائل اسرائیل کے ناجائز وجود کو زندہ رکھنے کیلئے استعمال ہو سکیں۔
 

ابن عادل

محفلین
ممکن ہے کہ یہ وجہ ہو لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل کو اہل غزہ پر حملے کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ۔ بلاضرورت بھی حملے ہوتے ہیں اس کی ضرورت گھڑنا ، دہشت گردی کی نئی تعریف کے بعد مشکل نہیں ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تحفظ پاکستان آرڈیننس کی آڑ میں کسی 15 گریڈ کے افیسر کا کسی پر شک کرکے اسے پابند زنداں کرنا ۔
 

arifkarim

معطل
اسرائیل ہر فلسطینی کو قتل کرنا چاہتا ہے
یہ ناجائز ریاست اپنی تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے
اسرائیل کی کُل آبادی میں 20 فیصد فلسطینی عرب شہری ہیں جنہیں ہر قسم کے حقوق باقی یہودیوں جیسے حاصل ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#Population
 
اسرائیل کی کُل آبادی میں 20 فیصد فلسطینی عرب شہری ہیں جنہیں ہر قسم کے حقوق باقی یہودیوں جیسے حاصل ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#Population

یہ بھی ایک لطیفہ ہے
اسرائیل یعنی ارض فلسطین کی اصل ابادی کو بے گھر کرکے یہ 80 فی صد اسرائیل قابض ہیں اور اپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ برابری ہے
اگر برابری ہے تو ان 80 فی صد کو صابرہ شتیلا کی کیمپس میں دھکیل کر قتل عام کیا جاوے۔ پھر برابری ہوسکتی ہے
 

arifkarim

معطل
یہ بھی ایک لطیفہ ہے
اسرائیل یعنی ارض فلسطین کی اصل ابادی کو بے گھر کرکے یہ 80 فی صد اسرائیل قابض ہیں اور اپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ برابری ہے
اگر برابری ہے تو ان 80 فی صد کو صابرہ شتیلا کی کیمپس میں دھکیل کر قتل عام کیا جاوے۔ پھر برابری ہوسکتی ہے
میں نے ان فلسطینی عرب اسرائیلی شہریوں کے بابت لکھا ہے جو 1948 کی جنگ کے بعد IDP's بن گئے تھے اور پھر جنہیں رفتہ رفتہ باقی یہودی شہریوں کی طرح حقوق ملتے گئے۔ آج فلسطینی عرب اسرائیلی شہری کسی بھی اسرائیلی اسکول، یونی ورسٹی، ہسپتال ، سیاسی و ملکی اداروں میں بلا امتیاز پائےجاتے ہیں۔ کچھ سال قبل جب مختلف دائیں بازو کی صیہونی اسرائیلی پارٹیوں نے ان عرب اسرائیلی علاقوں کو مستقبل کی آزاد ریاست فلسطین میں منتقل کرنے کا پلان پیش کیا تو خود اسکے خلاف یہی عرب اسرائیلی کھڑے ہو گئے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ انہیں اسرائیل کی جمہوریت، معاشی استحکام اور خوشحالی چھوڑ کر حماس اور الفتح کی غلامی میں جانے کا کوئی شوق نہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#2000.E2.80.93present
 
میں نے ان فلسطینی عرب اسرائیلی شہریوں کے بابت لکھا ہے جو 1948 کی جنگ کے بعد IDP's بن گئے تھے اور پھر جنہیں رفتہ رفتہ باقی یہودی شہریوں کی طرح حقوق ملتے گئے۔ آج فلسطینی عرب اسرائیلی شہری کسی بھی اسرائیلی اسکول، یونی ورسٹی، ہسپتال ، سیاسی و ملکی اداروں میں بلا امتیاز پائےجاتے ہیں۔ کچھ سال قبل جب مختلف دائیں بازو کی صیہونی اسرائیلی پارٹیوں نے ان عرب اسرائیلی علاقوں کو مستقبل کی آزاد ریاست فلسطین میں منتقل کرنے کا پلان پیش کیا تو خود اسکے خلاف یہی عرب اسرائیلی کھڑے ہو گئے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ انہیں اسرائیل کی جمہوریت، معاشی استحکام اور خوشحالی چھوڑ کر حماس اور الفتح کی غلامی میں جانے کا کوئی شوق نہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#2000.E2.80.93present

عارف
سچ اور حق بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو ہر حال میں ظاہر ہو
اسرائیل ہے ہی ناجائز۔ جب ناجائز طریقہ سے پیدا ہو تو برابری کوئی معنی نہیں رہتی ۔ معاشی ترقی، خوشحالی، ہر چیز آزادی کے اگے ہیچ ہے۔ دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اسرائیل ایک جھوٹ ہے اور نری شیطانیت ہے۔ اس کے خاتمے کا وقت قریب ہے
 

دوست

محفلین
اسرائیلی عربوں کو عین وہی حقوق حاصل نہیں جو اسرائیلی یہودیوں کو حاصل ہیں۔ بہت سی جگہوں پر امتیاز کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔
 
میں نے ان فلسطینی عرب اسرائیلی شہریوں کے بابت لکھا ہے جو 1948 کی جنگ کے بعد IDP's بن گئے تھے اور پھر جنہیں رفتہ رفتہ باقی یہودی شہریوں کی طرح حقوق ملتے گئے۔ آج فلسطینی عرب اسرائیلی شہری کسی بھی اسرائیلی اسکول، یونی ورسٹی، ہسپتال ، سیاسی و ملکی اداروں میں بلا امتیاز پائےجاتے ہیں۔ کچھ سال قبل جب مختلف دائیں بازو کی صیہونی اسرائیلی پارٹیوں نے ان عرب اسرائیلی علاقوں کو مستقبل کی آزاد ریاست فلسطین میں منتقل کرنے کا پلان پیش کیا تو خود اسکے خلاف یہی عرب اسرائیلی کھڑے ہو گئے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ انہیں اسرائیل کی جمہوریت، معاشی استحکام اور خوشحالی چھوڑ کر حماس اور الفتح کی غلامی میں جانے کا کوئی شوق نہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#2000.E2.80.93present


NLP: The frequent claim by Israeli officials is that Israel is a democracy and that Israeli Arabs are afforded the same rights as other citizens. What is your view?
JC: The widely shared assumption that Israel is a democracy is a strange one.
This is a democracy without defined borders, encompassing parts of a foreign territory, the West Bank, in which one ethnic / religious group – the Jewish settlers – has been given the vote while another – the Palestinians – has not. Those settlers, who are living outside the internationally recognised borders of Israel, actually put Benjamin Netanyahu and Avigdor Lieberman into power.
It is also a democracy that has transferred control over 13 per cent of its sovereign territory (and a large proportion of its inhabited land) to an external organisation, the Jewish National Fund, which prevents a significant proportion of Israel’s own citizenry – the 20 per cent who are Palestinian – from having access to that land, again based on ethnic / religious criteria.
It is a democracy that historically gerrymandered its electoral constituency by expelling most of the indigenous population outside its borders – now referred to as the Palestinian refugees – to ensure a Jewish majority. It has continued to gerrymander its voting base by giving one ethnic group, Jews around the world, an automatic right to become citizens while denying that same right to another ethnic group, Palestinian Arabs.
This is a democracy that, despite a plethora of parties and the necessity of creating broad coalition governments, has consistently ensured that one set of parties (the Palestinian and anti-Zionist ones) has been excluded from government. In fact, Israel’s “democracy” is not a competition between different visions of society, as you would expect, but a country driven by a single ideology called Zionism. In that sense, there has been one-party rule in Israel since its birth. All the many parties that have participated in government over the years have agreed on one thing: that Israel should be a state that gives privileges to citizens who belong to one ethnic group. Where there is disagreement, it is over narrow sectoral interests or over how to manage the details of the occupation – an issue related to territory outside Israel’s borders.
Defenders of the idea that Israel is a democracy point to the country’s universal suffrage. But that is hardly sufficent grounds for classing Israel as a democracy. Israel was also considered a democracy in the 1950s and early 1960s – before the occupation began – when a fifth of the populace, the Palestinian minority inside Israel, lived under a military government. Then as now, they had the vote but during that period they could not leave their villages without a permit from the authorities.
My point is that giving the vote to 20 per cent of the electorate that is Palestinian is no proof of democracy if Israeli Jews have rigged their “democracy” beforehand through ethnic cleansing (the 1948 war); through discriminatory immigration policies (the Law of Return); and through the manipulation of borders to include the settlers while excluding the occupied Palestinians, even though both live in the same territory.
Israeli academics who consider these things have had to devise new classifications to cope with these strange features of the Israeli “democratic” landscape. The generous ones call it an “ethnic democracy”; the more critical ones an “ethnocracy”. Most are agreed, however, that it is not the liberal democracy of most Westerners’ imaginations.

The Decline of Israel
 
اسرائیل کی کُل آبادی میں 20 فیصد فلسطینی عرب شہری ہیں جنہیں ہر قسم کے حقوق باقی یہودیوں جیسے حاصل ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arab_citizens_of_Israel#Population
برابری بھائی یہ لطیفہ کہاں سے پڑھ لیا:)۔ میں نہیں مانتا، اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو صابرہ شتیلا کیا تھا
 
Top